263) علم دین کی فرضیت

علم دین کی فرضیت 

بعض لوگ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ علمِ دین کا تعلق صرف نماز و روزہ سے ہے، اور اس کے لیے چند اردو رسائل مسائل کا یا معمولی مولویوں کا وجود کافی ہے۔ جس کے لیے کسی خاص اہتمام کی ضرورت نہیں۔ اور وجہ اس سمجھنے کی یہ ہے کہ اصل میں ان صاحبوں کو یہی خبر نہیں کہ دین کے کیا کیا اجزا ہیں۔ اس لیے دین کو صرف روزہ، نماز میں منحصر سمجھ رکھا ہے اور اول غلطی یہی ہے

علمِ دین کے دو مرتبے 

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ مولوی بننے میں اس قدر وقت صرف ہوتا ہے کہ پھر علومِ معاش کے تحصیل کی گنجائش نہیں رہتی۔ پھر اگر علومِ معاش کو حاصل نہ کیا جائے اور اولاد کو مولوی بنادیا جائے تو پھر کھائیں پئیں کہاں سے؟ پس اس کا انجام بجز ذلت اور پریشانی کے اور کچھ نہیں ہے اس لیے مولوی بننا ذاتی و قومی ترقی کو مضر ہے۔ ان صاحبوں سے اس میں چند غلطیاں ہوئی ہیں۔ 

ایک یہ کہ ۔ُعلما۔َ کے علمِ دین کو ضروری کہنے کے معنی یہ سمجھے کہ ہر شخص کو پورا مولوی بنانا واجب ہے۔ سو خوب سمجھ لیا جائے کہ ۔ُعلما۔َ کا ہرگز یہ مقصود نہیں، کیوں کہ علمِ دین کا ضروری ہونا اور بات ہے اور پورا مولوی ہونا اور بات ہے۔ علمِ دین کی دو مقدار ہیں۔ ایک مقدار یہ کہ عقائد ضروریہ کی تصحیح کی جائے۔ عباداتِ مفروضہ کے ارکان و شرائط و احکامِ ضروریہ معلوم ہوں۔ مثلاً یہ کہ نماز کن کن چیزوں سے فاسد ہوجاتی ہے۔ کن کن صورتوں میں سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے۔ اگر سفر پیش آوے کتنے سفر میں قصر ہے، اگر امام کے ساتھ پوری نماز نہ ملے تو بقیہ کس صورت میں کس طرح پوری کرے، قضا کے کیا احکام ہیں، زکوٰۃ کن اموال میں واجب ہے، اور اس کے ادا میں کیا کیا شرائط ہیں۔ علی ہذا حج اور صوم کے احکام۔ اور یہ کہ نکاح کن کن عورتوں سے حرام ہے۔ کن الفاظ سے نکاح جاتا رہتا ہے۔ عدت و ولایتِ نکاح کے کیا احکام ہیں۔ رضاعت کے اثر سے کون کون سے رشتے حرام ہوجاتے ہیں۔ مبادلۂ اموال میں کیا کیا رعایت واجب ہے۔ 

کسی جائیداد یا آدمی کی اجرت ٹھہرانے میں کون کون سی صورتیں جائز ہیں، کون سی ناجائز ہیں۔ فیصلہ قضا کا (اگر یہ شخص صاحبِ حکومت ہے) حسبِ قوانینِ شرعیہ کس طرح ہوتا ہے (گو ان کے انفاذ پر قادر نہ ہو مگر جاننا اس لیے واجب ہے کہ دوسرے فیصلوں کے حق ہونے کا اور شرعی فیصلوں کے ناحق ہونے کا اعتقاد نہ کر بیٹھے)۔ کون کون لباس حلال ہیں، کیا کیا حرام ہیں۔ نوکریاں کون جائز ہیں کون ناجائز ہیں (اگرچہ بدقسمتی سے ناجائز ہی میں مبتلا ہو مگر علمِ احکام سے اس کو قبیح تو سمجھے گا۔ اور دو جرموں کا مرتکب تو نہ ہوگا (ایک مباشرت فعلِ ناجائز، دوسرے اس کو ناجائز نہ سمجھنا)۔ ماکولات و مشروبات میں کیا جائز ہے اور کیا ناجائز ہے۔ اسبابِ تصریح میں کس کا استعمال درست ہے کس کا نادرست ہے۔ اخلاقِ باطنی میں محمود و مذموم کا امتیاز ہو، اس کے معالجہ کا طریق معلوم ہو۔ مثلاً ریا و کبر و غضب و حرص و طمع و ظلم وغیرہ کی حقیقت جانتا ہو تاکہ اپنے اندر ان کا ہونا نہ ہونا معلوم ہو، پھر بعد ہونے کے ان کے ازالہ کی تدبیر کرسکے اور کوتاہی پر استغفار کیا کرے۔ یہ سب مقدار علم کی عام طور پر ضروری ہے، کیوں کہ بدون ان کے جانے ہوئے اکثر اوقات مصیبت اور ناخوشیٔ حق تعالیٰ میں مبتلا ہوگا۔

ہم نے ان احکام سے ناواقف اور علومِ معاش کے اعلیٰ درجے کے واقف لوگوں کو سخت غلطیاں کرتے دیکھا ہے۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ متنبہ کرنے سے بھی متنبہ نہیں ہوتے، کیوں کہ ان علوم سے مناسبت ہی نہیں۔ ایسے نمازیوں کو وطن میں عارضی قیام کے طور پر آنے میں قصر کرتے دیکھا ہے۔ زکوٰۃ چندۂ حجاز ریلوے میں دیتے ہوئے پایا ہے۔ روزہ میں سگریٹ پینے کو بعضے مفسدِ صوم نہیں سمجھتے۔ حج میں بے سیے ہوئے اور بنیان کے طور پر بنے ہوئے کپڑے کو گو وہ پاجامہ کرتہ ہی ہو پہننے کو بعضے اُمرا نے جائز سمجھا۔ حقیقی بھانجے کی دختر سے نکاح حلال جاننے والا میں نے دیکھا ہے۔ چاندی سونے کی مبادلہ میں یا حبوب و غلات کے معاملہ میں یا ریلوے و ڈاک خانہ کے قوانین میں بے احتیاطی کرنے کو کوئی بھی خلافِ شریعت نہیں سمجھتا الا ماشاء اللہ۔ سرکاری نرخ پر اگرچہ مالک سواری کا راضی نہ ہو جبر کرکے کسی سے کام لینے کو برا سمجھنے والے شاذ و نادر ہیں۔ نوکری اور لباس اور اسبابِ تفریح میں تو ایسے صاحبوں کے نزدیک کوئی جزئی ممنوع ہے ہی نہیں۔

اخلاق میں بجز تفاخر و تحقیر مسلمین و حرصِ دنیا کے جس کا نیا لقب اس وقت ترقی ہے سیکھا ہی نہیں جنہوں نے بعض علوم کو فرضِ عین فرمایا ہے اس بعض سے یہی مقدار مراد ہے۔ اور فرض عین کایہی مطلب ہے کہ یہ سب کے لیے عام طور پر ضروری ہے۔

اور دوسری مقدار یہ ہے کہ اپنی ضرورت سے تجاوز کرکے مجموعۂ قوم کی ضرورتوں پر لحاظ کرکے و نیز دوسری معترض قوموں کے شبہات سے اسلام کو جس مضرت کے پہنچنے کا اندیشہ ہے اس پر نظر کرکے ایک ایسا وافی ذخیرہ معلوماتِ دینیہ کا مع اس کے متعلقات ولواحق و آلات و خوادم علوم کے جمع کیا جائے جو سابقہ ضرورتوں کے لیے کافی ہو۔ یہ مقدار فرض علی الکفایہ ہے۔۔

علم کے ہر مرتبہ کو سیکھنے کا شرعی حکم 

فرضِ عین کا حکم یہ ہے کہ ہر شخص بانفرادہٖ اس کا مکلف ہے، جو شخص اس میں کوتاہی کرے گا وہ گناہ گار ہوگا۔ اور فرض الکفایہ کا حکم یہ ہے کہ اگر ہر مقام پر ایک ایسی جماعت قائم رہے کہ ان ضرورتوں کو پورا کرسکے تو سب مسلمان گناہ سے بچے رہیں گے، ورنہ سب گناہ میں شریک ہوں گے۔ اس تقریر سے معلوم ہوگیا ہوگا کہ ۔ُعلما۔َ علمِ دین کو بایں معنی ضروری نہیں کہتے کہ ہر شخص اصطلاحی مولوی بنے، پھر علو مِ معاش میں جرح واقع ہونا کیوں کر لازم آیا جس کا وسوسہ عوام کو مانع ہو رہا ہے۔ تکمیلِ علومِ دینیہ سے البتہ یہ انتظام ہونا ضروری ہے کہ کافی تعداد میں ایک معتدبہٖ جماعت ایسی ہو جو ہر طرح علومِ دینیہ میں کامل و مکمل محقق متبحر ہوں، اور ایک بڑا حصہ عمر کا تحصیل میں اور تمام عمر اس کی اشاعت و خدمت میں صرف کریں اور اس کے سوا ان کو کوئی کام نہ ہو۔ قرآن مجید کی اس آیت میں اس جماعت کا ذکر ہے: {وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ} احادیث میں حضرات اصحابِ صفہ۔ّ کی یہی شان آئی ہے۔

 علماء سے علم حاصل کرنے کا طریقہ 

اور عام مسلمان اس جماعت سے تقریراً و تحریراً اپنی ضروری دینی حاجتیں رفع کیا کریں۔ ان میں جو پڑھنے کے قابل ہیں جیسے کم عمر بچے یا وہ جو چندے یا قدرے معاش سے فارغ ہیں ان کے لیے بہتر یہ ہے کہ اس جماعت سے سبقاً سبقاً کچھ رسالے عقائد و مسائل ابوابِ مختلفہ کے پڑھ لیں کہ اس طریق سے تھوڑے زمانہ میں بڑا ذخیرہ معلومات کا جمع ہوجاتا ہے۔ پھر نئے واقعات کے متعلق وقتاً فوقتاً اس جماعت سے پوچھتے رہیں۔ اور جو کسی سبب سے اس طرح پر نہیں پڑھ سکتے وہ اگر کم از کم ہفتہ میں ایک روز گھنٹہ دو گھنٹہ نکال کر ایک ۔ّمعین وقت پر جمع ہوکر کسی سمجھ دار ذی علم سے درخواست کریں کہ وہ ان کو ایسے رسائل پڑھ کر سنایا کرے اور سمجھایا کرے تو قریب قریب فائدہ مذکورہ کے ان کو بھی حاصل ہو۔ اور ضرورت کے وقت پوچھتے رہنا 

یہ تو تمام عوا م بلکہ خواص و علماء کے لیے بھی مشترک الوجوب ہے۔ پھر ان طریقوں سے احکام پر مطلع ہو کر زبانی یا کتاب کے ذریعہ سے اپنے اپنے گھر کی مستورات کو پڑھاتے رہیں یا سناتے رہیں یا بتلاتے رہیں۔

Comments