انمول حکایات اور معلومات
🌻 شیخ الاکبر محی الدین ابن عربی نے فرمایا🌻
اذا دخل السین فی الشین ظھر قبر محی الدین
جب سین شین میں داخل ہوگا تب محی الدین (یعنی میری ) کی قبر ظاہر ہو گی
یہ آپ نے ایک حکمت کے تحت فرمایا تھا کیونکہ آپکو علم تھا کہ فتنے کی وجہ سے انکی قبر کئی سو سال تک پوشیدہ رہے گی آپ ایک بار دمشق کے پہاڑی علاقے میں منبر پر کھڑے ہو کر خطاب کر رہے تھے کہنے لگے
الھکم و معبودکم تحت قدمی
تمہارا خدا و معبود میرے پیروں کے نیچے ہے
یہ سننا تھا عوام نے غصے میں حملہ کر دیا اور آپکو اسی جگہ شہید کر دیا . آپ کے چند اھل نظر مریدوں نے آپکو کسی خفیہ مقام پر دفن کر دیا کہ کہیں لوگ قبر کی بھی بے حرمتی نہ کریں اس واقعے کے تقریبا تین سو سال بعد عثمانی سلطان سلیم اول نے دمشق فتح کیا تو سلطان سلیم کے خواب میں حکم دیا گیا کہ ابن عربی کی قبر کو تلاش کرو اور وہاں مسجد بناؤ سلطان سلیم اس جگہ گیا جہاں ابن عربی کو شہید کیا گیا تھا اس نے مسجد کے منبر کے نیچے جگہ کھودنے کا حکم دیا تو نیچے سے سونا چاندی اور ہیرے جواہرات نکلے تب لوگوں کو سمجھ آئی کہ ابن عربی نے جو یہ کہا تھا کہ تمہارے معبود و خدا میرے پاؤں کے نیچے ہیں اس کا مطلب مال و دولت تھا کیونکہ قرآن و احادیث کے مطابق دنیا دار لوگ مال و دولت کو اپنا خدا بنا کر رکھتے ہیں پھر سلطان سلیم نے ابن عربی کی قبر کو دریافت کیا وہاں قبہ بنایا اور اسکو آباد کیا تب لوگوں کو سمجھ آیا کہ ابن عربی کے اس قول کا مطلب کہ جب سین یعنی سلطان سلیم شین یعنی ملک شام میں داخل ہوگا تو ابن عربی کی قبر ظاہر ہوگی سلطنت عثمانیہ پہ اولیاء کرام کا خاص فیض و توجہ تھی اس سلطنت کی بنیاد میں شیخ ادیب علی(ادہ بالی) اور انکے مرید خاص کو ابدال جیسے اولیاء کی تربیت شامل تھی اور اس سلطنت کے وجود میں آنے سے پہلے ابن عربی جیسے عظیم ولی کی مدد شامل حال تھی اور پھر یہ بھی معلوم ہوا کہ اولیاء کرام کے ظاہری معاملات پہ اودھم نہ مچائی جائے بلکہ ان کے اندر چھپے رازوں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے
۔🌻 یہ منہ اور مسور کی دال
یہ کہاوت اصل میں ’’یہ منہ اور منصور کی دار‘‘ ہے۔ اس کا مطلب ہے تم اس لائق نہیں۔ تم اس کے مستحق نہیں۔ اس تلمیحی کہاوت کے وجود میں آنے کا سبب وہ مشہور نعرہ ہے جو ایک عارف باللہ حضرت منصور نے عالمِ بے خودی و مستی میں لگایا تھا۔
حضرت منصور کا پورا نام ابوالمغیث الحسین بن منصور البیضاوی تھا، لیکن وہ اپنے باپ کے نام منصور سے مشہور ہوئے۔ حضرت منصور 242ھ کے قریب پیدا ہوئے۔ تقریباً 50 سال ریاضت میں بسر کرنے کے بعد ایک دن جوش میں انہوں نے اناالحق (مَیں خدا ہوں) کا نعرہ لگایا۔ بغداد کے علما نے ان پر کفر کافتویٰ لگا دیا اور 300 کوڑوں کی سزا مقرر کی۔ جب اس سزا سے بھی ان کی وارفتگی میں فرق نہ آیا، اور وہ اس کلمہ سے باز نہ آئے، تو خلیفہ المقتدر باللہ کے حکم پر مفتیِ شریعت نے سزائے موت تجویز کی۔ شریعت کا فتویٰ ہمیشہ ظاہری اقوال و اعمال پر لگتا ہے۔ عشق کے راز و نیاز سے ہر شخص واقف نہیں ہو سکتا۔ منصور نے یہ نعرہ کیوں اور کس حال میں لگایا تھا ؟
ان کا یہ فعل محبوبِ حقیقی کی نظر میں ممدوح تھا یا مذموم ؟
اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ دنیا اہلِ عشق کی بے باکی اور جرأت پر سزا دیتی چلی آئی ہے اور یہ اس کا پرانا دستور ہے۔ کہتے ہیں کہ منصور کے پہلے پاؤں کاٹے گئے، پھر آنکھیں نکالی گئیں، پھر زباں کاٹی گئی، اس کے بعد دار پر چڑھا کر سنگ باری بھی کی گئی اور آخر میں ان کے سر کو کاٹ کر جلا دیا گیا۔ ان کی خاک دجلہ میں بہائی گئی۔ مشہور ہے کہ ہر سزا کے بعد ان کے رگ و پے سے ’’اناالحق‘‘ کی صدا بلند ہوتی تھی۔ ان کی خاک کا ہر خون آلود ذرّہ اور خون کے ہر قطرہ سے ’’حق حق‘‘ کی آواز سنائی دیتی تھی۔ ہر شخص کو منصور جیسا عشق اور مرتبہ کہاں نصیب ؟
یہ منہ اور منصور کی دار، خدا جس کے نصیب میں لکھ دے، وہی اس مرتبے تک پہنچے۔
ڈاکٹر شریف احمد قریشی کی تصنیف کہاوتیں اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر صفحہ311 .... نقل و ترسیل: سلیم خان
خلیفہ ھارون الرشید نے فرانس کے بادشاہ شارلمان کو ایک گھڑی تحفہ بھیج دی . یہ گھڑی 4 میٹر اونچی خالص پیتل سے بنی تھی اور پانی کے زور پر چلتی تھی . گھنٹہ ہونے پر گھڑی کے اندر سے 1 گیند نکلتی، 2 گھنٹے پر 2 گیندیں اور 3 گھنٹے پر 3 گیندیں اس طرح ہر گھنٹے کے ساتھ ایک گیند کا اضافہ ہوتا تھا. گیند کے نکلنے کے ساتھ ایک خوبصورت سریلی آواز کے ساتھ گیند کے پیچھے پیچھے ایک گھڑ سوار نکلتا وہ گھڑی کے گرد چکر کاٹ کر واپس داخل ہوتا جب 12 بج جاتے تو بارہ گھڑ سوار نکلتے چکر کاٹ کر واپس جاتے . گھڑی کی یہ حرکتیں دیکھ کر بادشاہ شارلمان کافی پریشان ہوا اس نے پادریوں اور نجومیوں کو محل میں بلایا،سب نے دیکھ کر کہا اس گھڑی کے اندر ضرور شیطان ہے . سب رات کے وقت گھڑی کے پاس آئے کہ اس وقت شیطان سویا ہوگا چنانچہ انہوں نے گھڑی کھول لی تو آلات کے سوا کچھ نہیں ملا،لیکن گھڑی خراب ہوچکی تھی پورے فرانس میں گھڑی کو ٹھیک کرنے کے لئے کوئی کاریگر نہیں تھا شرمندگی کی وجہ سے ھارون الرشید سے بھی نہیں کہہ سکتے تھے کہ کوئی مسلمان کاریگر بھیج دیں.جب سائنس پر مسلمانوں کی اجارہ داری تھی اس وقت یورپ سائنس کو جادو سمجھتا تھا. ( عربی سے ترجمہ )
دنیا میں ایک بہت بڑے تاجر گزرے ہیں حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ انہوں نے اپنا کاروبار صرف دو کلو پنیر سے شروع کیا تھا - لیکن جب اس دنیا سے رخصت ھوے تو ان کے موٹے موٹے جو اثاثے تھے . صرف سونا ایک ارب دس کروڑ بیس لاکھ تولے سونا تھا جسے تفسیم کرنے کیلے جب کاٹا گیا تو لوہے کے ارے ٹوٹے اور ایسی ہی ہزاروں جاگیریں ہزاروں بھیڑ بکریاں اور ہزاروں اونٹ اور گھوڑے اور غلام تھے . وہ ہماری طرح جمع بھی نہیں کرتے تھے- ادھر سے مال آیا تو ادھر بانٹ دیا اور ادھر سے آیا تو ادھر بانٹ دیا یہ وہ مال تھا جو بانٹتے بانٹتے بچ گیا تھا جب ان سے کاروبار کی ترقی کا راز پوچھا گیا تو انہوں فرمایا میں تین کام کرتا ھوں
نمبر 1 میں مال ادھار نہیں خریدتا
نمبر2 میں مال ادھار نہیں بیچتا
نمبر3 ذخیرہ اندوزی نہیں کرتے
یعنی کل کی امید پہ مال نہیں روکتا کہ مہنگا ھو گا تو بیچوں گا اگر آج مجھے ایک روپے نفع مل رھا ھے اور یہ پکی امید ھو کہ کل بیچوں گا تو مجھے دس روپے نفع ملے گا تو میں آج ہی بیچوں گا کل کا انتظار نہیں کروں گا سب سے بڑی بات اسکے باوجود دنیا میں ہی جنت کا ٹکٹ لے گئے اور وہ بھی آپ ﷺ کی زبان مبارک سے اور قیامت تک کے تاجروں کو ایک راستہ دے گئے کہ تجارت میں مال کے ساتھ ساتھ جنت کیسے حاصل کرنی ہے
شیخ محمد متولي الشعراوی مصر کے بڑے عالم تھے ایک بار جب سنہری جالیوں کو چومنے آگے بڑھے وہاں موجود شرطہ(سیکورٹی والا) کہنے لگا شیخ آپ اتنے بڑے عالم ہو کر یہ بدعت کر رہے ہیں آپ ایک پتھر کو کیسے چوم سکتے ہیں جبکہ علم والے ہیں شیخ شعراوی نے فوراً کہا تم نے بدعت سے بچا لیا شکریہ تمہارا, مجھے اپنا سر چومنے دو کیونکہ تم نے مجھے بدعت سے بچا لیا ھے شرطہ متذبذب ہو گیا شیخ نے زبردستی اُسکے سر پہ موجود ٹوپی کو چوم لیا پھر اچانک شیخ ہنسنے لگے شرطہ کہنے لگا شیخ کیوں ہنستے ہو فرمایا اے مسکین تم گمان کر رہے ہو میں نے تمہیں چوما ھے شرطہ کہنے لگا شیخ آپ علامہ مفتی ہو کر یہاں حرم پاک میں مذاق کر رہے ہیں یعنی اپ نے میرا سر ہی تو چوما ھے شیخ نے فرمایا کہ میں نے ٹوپی چومی تمہیں نہیں چوما شرطہ کہنے لگا ٹوپی تو میرے ہی سر پر ہے نا شیخ نے فرمایا کیا یہ بابرکت جالیاں رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی قبر مبارک کے اوپر نہیں ہیں یعنی جیسے تمہارے سر پہ موجود ٹوپی کو چومنا تمہیں چومنا ھے ویسے ہی اِن جالیوں کو چومنا رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو چومنا ھے یہ سن کر شرطہ بہت شرمندہ ہوا اور رونے لگا اور پھر خود آگے بڑھ کر جالیوں کو چومنے لگا کسی پہ عشق کا دروازہ لمحوں میں کھل جاتا ھے اور کسی پر ساری زندگی نہیں کھلتا
متوفي1998ءمصنف تفسيرقرآن تفسيرالشعراوي 30جلد
بادشاہ ناصر الدین محمود کے ایک خاص مصاحب کا نام "محمد" تھا بادشاہ اسے اسی نام سے پکارا کرتا تھا، ایک دن انہوں نے خلاف معمول اسے "تاج الدین" کہہ کر آواز دی وہ تعمیل حکم میں حاضر تو ہو گیا لیکن بعد گھر جا کر تین دن تک نہیں آیا، بادشاہ نے بلاوا بھیجا، تین روز غائب رہنے کی وجہ دریافت کی تو اس نے کہا، آپ ہمیشہ مجھے " محمد" کے نام سے پکارا کرتے ہیں لیکن اس دن آپ نے "تاج الدین" کہہ کر پکارا، میں سمجھا کہ آپ کے دل میں مرے متعلق کوئی خلش پیدا ہو گئ ہے، اس لئے تین دن حاضر خدمت نہیں ہوا، ناصر الدین نے کہا، واللہ! میرے دل میں آپ کے متعلق کسی قسم کی کوئی خلش نہیں "تاج الدین" کے نام سے تو میں نے اس لئے اس دن پکارا تھا کہ اس وقت میرا وضو نہیں تھا اور مجھے "محمد" کا مقدس نام بغیر وضو کے لینا مناسب معلوم نہیں ہوا۔۔۔۔
( تاریخ فرشتہ: ج۱ ص ۲۷۶)
Comments
Post a Comment