244) جنت کا طلب گار

جنت کا طلب گار 

اُم ابراہیم ہاشمیہ بصرہ کی ایک عبادت گزار خاتون تھیں۔ ایک مرتبہ رومی عیسائیوں نے بصرہ پر چڑھائی کر دی۔ بصرہ کے سرکردہ افراد لوگوں کو جہاد کی ترغیب دینے لگے۔ امیر لشکر عبدالواحد بن زید ایک دن کھڑے ہوئے اور جہاد کی ترغیب کے لیے اتنی مؤثر تقریر فرمائی کہ لوگوں کی نظروں میں دنیاوی آرائش و زیبائش حقیر ہو گئی اور وہ دنیا کے اس عارضی ٹھکانے کو خیرباد کہنے کے لیے تیار ہو گئے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے اب دو ہی مقاصد تھے کہ یا تو اپنے دشمن کو شکست دے کر پسپا ہونے پر مجبور کیا جائے یا شہید ہو کر اللہ کے حضور سرخرو ہو کر جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوا جائے۔

حاضرین کے درمیان سے ام ابرہیم آگے آئیں اور عبدالواحدؒ سے کہا: ابو عبید! آپ میرے بیٹے ابراہیم کو جانتے ہیں۔ بصرہ کے اونچے گھرانوں سے اس کے لیے رشتے آئے ہیں، لیکن اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں اپنے بیٹے کی شادی جنت کی حور سے کرونگی جس کی صفات آپ نے تقریر میں بیان فرمائی۔ کیا آپ میرے بیٹے کی شادی اس حور سے کروا سکتے ہیں؟ میرا بیٹا آپ کے ساتھ میدان جہاد میں جائے گا۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ اسے شہادت عطا فرمائے اور قیامت والے دن اپنے والدین کا سفارشی بن جائے۔ عبدالواحد بن زید نے جواب دیا: اے محترم خاتون! اگر آپ نے ایسا کیا تو یہ آپ کی، آپ کے خاوند کی اور بیٹے کی بڑی کامیابی ہوگی۔ بیٹا جو یہ مکالمہ سن رہا تھا حاضرین کے درمیان سے بولا: اماں جان! مجھے یہ رشتہ منظور ہے۔ ماں نے پھر پوچھا: کیا تو اللہ کی رضا کے لیے جہاد کر کے جنت کی حور سے شادی کے لیے تیار ہے اور اس کے حصول کے لیے دل و جان سے اللہ کی راہ میں اپنی توانائیاں صرف کر کے اور گناہوں کو چھوڑنے کے لیے پر عزم ہے؟ 

بیٹے نے جواب دیا: اماں جان! اللہ کی قسم! میں راضی ہوں۔ پھر اس خاتون نے اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر کہا

"اے اللہ! میں تجھے گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ میں نے اپنے بیٹے کی شادی جنت کی ایک حور سے کر دی ہے، اس کے حصول کے لیے یہ تیری راہ میں اپنی ساری توانائیاں صرف کر دے گا اور گناہوں کی طرف کبھی نہیں لوٹے گا۔ اے ارحم الرحمین مجھ سے یہ بیٹا قبول فرمالے۔"

پھر وہ خاتون اپنے گھر گئی اور دس ہزار دینار لا کر ابو عبید کے حوالے کیے اور کہا: یہ میرے بیٹے کا حق مہر ہے۔ اس کو آپ جہاد میں خرچ کریں۔ پھر اس نے اپنے بیٹے کے لیے ایک انتہائی عمدہ گھوڑا اور قیمتی ہتھیار خریدے۔ لشکر اپنی پوری تیاری اور عزم مصمیم کے ساتھ نکلا اور سب کی زبانوں پر یہ الفاظ تھے

"اللہ تعالیٰ نے جنت کے بدلے میں مومنین سے ان کی جانوں اور مالوں کا سودا کر لیا ہے کہ وہ اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے۔" (التوبہ:111)

جب ام ابراہیم کے اپنے بیٹے سے علیحٰدہ ہونے کا وقت آیا تو اس عظیم ماں نے کفن اور خوشبو اپنے عزیز از جاں بیٹے کے حوالے کی اور کہا: پیارے بیٹے! جب تم دشمن کے مد مقابل جانے لگو تو اسے اپنا لباس بنا لینا، انتہائی محتاط رہنا، اللہ کے راستے میں کوئی کوتاہی نہ ہونے پائے۔ پھر اپنے بیٹے کو سینے سے لگایا، ماتھا چوما اور کہا: اب انشاء اللہ قیامت کو ملاقات ہوگی۔

عبدالواحدؒ میدان جنگ کی صورت حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: جب دشمن سے ہمارا سامنا ہوا تو ابراہیم اگلی صفوں میں تھا۔ انہوں نے بہت سے رومیوں کو قتل کیا اور پھر دشمنوں کی ایک بڑی تعداد نے انہیں گھیرے میں لے لیا۔ کافی دیر تک وہ بے جگری سے لڑتے رہے۔ اکیلا آدمی اتنے زیادہ لوگوں کا کب تک مقابلہ کر سکتا تھا؟ 

آخر کار وہ شہید ہو کر اللہ کے ہاں سرخرو ہوگئے۔

جب لڑائی ختم ہوئی اور ہم مال غنیمت لے کر بصرہ واپس آئے تو اہل بصرہ نے ہمارا بھر پور استقبال کیا۔ ان استقبال کرنے والوں میں ام ابراہیم بھی تھیں۔ام ابراہیم مجھے ملیں اور کہا: اگر میرا تحفہ قبول کر لیا گیا ہے تو مجھے مبارک باد دیجیے اور اگر قبول نہیں ہوا تو مجھ سے تعزیت کیجیے، عبدالواحد نے جواب دیا: آپ کا تحفہ قبول کر لیا گیا ہے۔ آپ کا بیٹا ابراہیم ان شاء اللہ دیگر شہداء کے ساتھ اللہ کی نعمتوں سے مستفیذ ہو رہا ہوگا۔ ام ابراہیم نے اس وقت سجدہ شکر ادا کیا اور قربانی کی قبولیت پر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی۔

اگلے دن ام ابراہیم میرے پاس آئی تو انتہائی مسرور تھی۔ میں نے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا: میں نے گزشتہ رات خواب میں دیکھا کہ میرا ابراہیم انتہائی خوبصورت باغ میں ہے۔ وہاں ایک سبز رنگ کا انتہائی نفیس گنبد ہے۔ وہ ہیرے جواہرات سے مرصع ایک تحت پر بیٹھا ہے۔ اس نے سر پر ایک انتہائی خوبصورت تاج پہنا ہوا ہے۔ اس نے مجھے دیکھ کر کہا: اماں جان! خوش ہو جایئے! آپ کا دیا ہوا حق مہر قبول کر لیا گیا اور دلہن کو دلہا کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ 

۔📚 (مشارق الاشواق الی مصارع العشاق، للحافظ ابن النحاس:1/۔215)

(دعاؤں کی قبولیت کے سنہرے واقعات) تحریر: محمد سرور بٹ۔

Comments