رسول اکرم ﷺ سے اظہارِ محبت
صحابۂ کرام سے بڑھ کر حضورﷺ سے محبت کرنے والے روئے زمین پر آج تک نہ پیدا ہوئے اور نہ قیامت تک پیدا ہو سکتے ہیں، صحابہ کرام کے سیدالمرسلین ﷺ سے محبت کے انداز جدا جدا تھے۔ درج ذیل ایمان افروز واقعات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ صحابہ کے رسول اللہ سے محبت کے طریقے مختلف تھے
۔(1) صحابہ کرام کا سب سے محبوب عمل حضور اقدسﷺ کے چہرے کا دیدار تھا لیکن سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی عظمت و جلال کی وجہ سے مجھے آپﷺ کے چہرے کو دیکھنے کی ہمت نہ ہوئی اور میں آپﷺ کو آنکھ بھر کر کبھی نہ دیکھ سکا۔ (صحيح مسلم:336)۔(2) تمام صحابہ کی دلی خواہش اور تمنا تھی کہ ان کی نمازِ جنازہ رسول اللہﷺ پڑھائیں لیکن صحابیٴ رسول حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے انتقال کے وقت وصیت فرمائی کہ اگر میں رات کے وقت انتقال کر جاؤں تو حضورﷺ کو خبر نہ کرنا اور مجھے خاموشی سے دفنا دینا، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپﷺ کو کوئی تکلیف پہنچ جائے
۔(3) حضورﷺ کی یاد میں تڑپنے اور آپ سے محبت کرنے والوں کو مدینہ منوّرہ پہنچ کر قرار آجاتا ہے مگر حضورﷺ کے وصال کے بعد حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو حضور کی محبت اور یاد مدینہ منورہ میں رہنے نہ دیتی تھی، چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے مدینہ کو خیر آباد کہا اور ساری زندگی جہاد کرتے گزاری اور دمشق میں انتقال فرمایا۔
رسول اللہ ﷺ سے محبت کے اظہار کا کوئی مخصوص طریقہ یا موسم نہیں، محبت کے اظہار کے طریقے ہمیشہ سے مختلف رہے ہیں۔ کوئی سیرت طیبہ پر سارا سال عمل کر کے تو کوئی دین کی خاطر جان و مال قربان کر کے محبت کا اظہار کرتا ہے! کوئی نورِ وحی اور علم کی طلب کو مقصدِ زندگی بنا کر تو کوئی غریبوں، لاچاروں، یتیموں اور بیواؤں کی دلجوئی کر کے عشقِ رسولﷺ کا اظہار کرتا ہے
کوئی سارا سال پیر و جمعرات کے روزے رکھ کر تو کوئی چہرہ پر سنت رسول سجا کر محبت کا اظہار کرتا ہے! کوئی شرعی مسائل اور دینی کتب قلمبند کر کے تو کوئی شانِ رسالت میں کلام عقیدت لکھ کر محبت کا اظہار کرتا ہے! کوئی انسانیت کو قرآن کریم اور رسول اللہﷺ کے ارشادات سُنا کر تو کوئی سید المرسلینﷺ کی مدح میں نعتیہ کلام پڑھ کر حُبّ رسول کا اظہار کرتا ہے
ہر شخص اپنے طور پر اظہارِ محبت کا کوئی بھی طریقہ اختیار کر سکتا ہے، البتہ اتنا ضرور ہے کہ اظہارِ محبت کے طریقے میں کوئی خلافِ شرع کام نہ ہو، کسی مسلمان کو تکلیف نہ پہنچائی جائے، نیز یہ بھی دیکھا جائے کہ وہ طریقہ خیرالقرون یعنی حضورﷺ، صحابہ کرام اور تابعین کے زمانے میں موجود بھی تھا یا نہیں؟
لہذا ماہِ ربیع الاول میں محبت کے اظہار کے کسی خاص طریقے اور کیفیت کو لازم سمجھنا اور اس طریقے کے مطابق محبت کا اظہار نہ کرنے والوں کے بارے میں یہ بدگمانی کرنا کہ ان کے دل محبتِ رسولﷺ سے خالی ہیں، بڑی بدنیتی، خیانت، بدگمانی اور بہتان بازی ہے جس سے اللہ اور رسول اللہﷺ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔
Comments
Post a Comment