عیسوی کیلنڈر کی چند اہم باتیں
مسلمانوں کی سیاسی اور ذہنی غلامی نے آج یہ دن دکھایا ہے کہ ایک مسلمان گھرانے میں جنم لینے والا بچہ اسلامی افکار و نظریات سے اس حد تک بیگانہ ہوتا ہے کہ اُسے اسلامی مہینوں کے نام تک معلوم نہیں ہوتے جب کہ انگریزی مہینوں کے نام اُسے ازبر ہوتے ہیں۔ مسلمان اگر دنیا میں بحیثیت قوم زندہ رہنا چاہتے ہیں تو اُنہیں اس صورت حال کی سنگینی کو محسوس کر کے، اس کو تبدیل کرنے کیلئے بہت کچھ کرنا ہوگا۔ اقبال مرحوم نے کہا تھا
دیکھ مسجد میں شکستِ رشتۂ تسبیح شیخ
بتکدے میں برہمن کی پختہ زنّاری بھی دیکھ
اسی ضرورت کے پیش نظر ہم عیسوی کیلنڈر کے بارے میں چند باتیں عرض کر رہے ہیں۔ عیسوی کیلنڈر کی بنیاد شمسی تقویم پر ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ زمین کی دو قسم کی حرکتیں ہوتی ہیں۔ ایک اپنے محور پر جس کی وجہ سے دن رات وجود میں آتے ہیں اور دوسری حرکت سورج کے اردگرد بیضوی شکل کے مدار پر ہوتی ہے جس سے موسم بدلتے ہیں۔ زمین اس دوسری حرکت کا ایک چکر ۴۸.۳۶۵ دنوں میں پورا کرتی ہے۔ اسی لئے شمسی سال کے ۳۶۵ دن شمار کئے جاتے ہیں۔ اب دنوں کی یہ تعداد ایسی ہے کہ جو بارہ مہینوں پر برابر تقسیم نہیں ہوتی اس لئے موجودہ کیلنڈروں میں اس مسئلے کو یوں حل کیا گیا کہ سات مہینے ۳۱،۳۱ دن کے، چار مہینے ۳۰،۳۰ دن کے اور ایک مہینہ صرف ۲۸ دن کا رکھا گیا۔
اس حساب سے ۳۶۵ دن تو پورے کر لئے گئے ، لیکن کسور کا حساب پھر بھی باقی بچ گیا، اس کیلئے پھر یہ طریقہ نکالا گیا کہ ہر چوتھے سال فروری کے ۲۹ دن شمار کئے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب بھی کسور کا مسئلہ مکمل حل نہیں ہوا، اسی لئے شمسی حساب کے کیلنڈر میں بار بار ترمیم ہوتی رہی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔
آج جس کیلنڈر کو لوگ عیسوی کہتے ہیں یہ دراصل ’’گریگوری‘‘ کیلنڈر ہے۔ محققین کے مطابق یہ پرانا رومی کیلنڈر تھا جس میں اگسٹس نے ترامیم کیں۔ پھر جولین نے اس میں تبدیلیاں کیں۔ آخری بار اس میں ۱۵۸۱ء کو پاپائے گریگوری کے حکم سے ترمیم ہوئی۔
اس وقت تک اس کیلنڈر کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کوئی نسبت نہ تھی۔ جولین کے چھ سو سال بعد ایک عیسائی راہب ڈینس ایگزیگٹوس نے اسے مذہبی رنگ دینے کیلئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف بلاوجہ منسوب کر دیا۔
اگر آپ اس کیلنڈر کے مہینوں کے نام پر غور کریں تو آپ کو ان میں تو ہم پرستی، شرک اور بے معنی ہونا ضرور کھٹکے گا۔
۔۔(۱)… جنوری… رومی دیوتا ’’جانس‘‘ کے نام پر ہے۔
۔۔(۲)…فروری… قدیم اطالیہ کے دیوتا ’’ فبرئس‘‘ کے نام پر ہے۔
۔۔(۳)…مارچ… روم کے دیوتا’’مارس‘‘ کے نام پر ہے۔
۔۔(۴)…اپریل… لاطینی لفظ ’’ایپی رائر‘‘ سے لیا گیا ہے۔جس کے معنی ہیں کھلنا۔
۔۔(۵)… مئی… ایک دیوی’’مایا‘‘ کے نام پر ہے۔
۔۔(۶)…جون… یا تو روم کی دیوی’’جونو‘‘ کے نام پر ہے یا یہ لاطینی لفظ ’’جوینس‘‘ سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں جوانی۔
۔۔(۷)… جولائی… روم کے بادشاہ ’’جولیئس سیزر‘‘ کے نام پر ہے۔
۔۔(۸) …اگست… روم کے بادشاہ ’’اگسٹس‘‘ کے نام پر ہے۔
ُ۔۔(۹)…ستمبر… لاطینی لفظ ’’سیپٹم‘‘ سے لیا گیا ہے۔ جس کا معنی ہے’’سات‘‘
۔۔(۱۰)…اکتوبر… لاطینی لفظ ’’آکٹو‘‘ سے لیا گیا ہے، جس کا معنی ہے ’’آٹھ‘‘
۔۔(۱۱)…نومبر… لاطینی لفظ ’’نووم‘‘ سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے ’’نو‘‘
۔۔(۱۲)…دسمبر… لاطینی لفظ’’دسیم‘‘ سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہے ’’دس‘‘
اب دیکھیں کہ کچھ نام تو واضح طور پر شرک اور توہم پرستی پر دلالت کرتے ہیں، کچھ ناموں کا تعلق رومی بادشاہوں سے ہے جو شاید دنیا کی کسی اور قوم کیلئے تو کچھ مطلب رکھتے ہوں گے لیکن ہمارے لئے تو بالکل بے مطلب اور بے کار ہیں۔ ہماری اپنی ایک الگ تاریخ اور جدا شخصیات ہیں جن پر ہمیں فخر ہونا چاہئے۔
مزید مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ رومی سال چونکہ مارچ سے شروع ہوتا تھا اس لئے ستمبر ساتواں، اکتوبر آٹھواں، نومبر نواں اور دسمبر دسواں مہینہ تھا لیکن انگریز کی ’’دقیانوسیت‘‘ دیکھیں کہ آج ان مہینوں کی ترتیب بالکل بدل جانے کے باوجود وہی نام استعمال ہو رہے ہیں جن کی حیثیت اب ایک لطیفے سے کم نہیں۔
ایسا ہی کچھ حال انگریزی زبان میں ہفتے کے سات دنوں کے ناموں کا بھی ہے۔ لیکن چونکہ ہمارا موضوع ہمیں اجازت نہیں دیتا اس لئے اسی پر اکتفاء کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو دین اسلام کا شعور بخشے، دینی حمیت اور اسلامی غیرت سے نوازے اور ایک مرتبہ پھر ہماری آنکھیں اسلام کے عروج کا نظارہ کریں۔ آمین ثم آمین ۔
Comments
Post a Comment