۔۔1۔ حضرت علی کے بیٹے محمد بن حنفیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ (حضرت علی ) سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے افضل صحابی کون ہیں؟
انہوں نے بتلایا کہ ابوبکر، میں نے پوچھا پھر کون ہیں؟
انہوں نے بتلایا، اس کے بعد ہیں۔ مجھے اس کا اندیشہ ہوا کہ اب (پھر میں نے پوچھا اس کے بعد؟) کہہ دیں گے کہ عثمان، اسلئے میں نے خود کہا، اس کے بعد آپ ہیں؟
یہ سن کر بولے کہ میں تو صرف عام مسلمانوں کی جماعت کا ایک شخص ہوں
(بخاری 3671)
۔۔2۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک چرواہا اپنی بکریاں چرا رہا تھا کہ ایک بھیڑئیے نے اس کی ایک بکری پکڑ لی۔ چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اور بکری کو اس سے چھڑا لیا۔ پھر بھیڑیا اس کی طرف متوجہ ہو کر بولا: درندوں کے دن اس کی حفاظت کرنے والا کون ہو گا؟
جب میرے سوا اس کا کوئی چرواہا نہ ہوگا۔ صحابہ کرام اس پر بول اٹھے: سبحان اللہ! آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اس واقعہ پر ایمان لایا اور ابوبکر و عمر بھی۔ حالانکہ وہاں حضرات ابوبکر و عمر موجود نہیں تھے۔ (بخاری 3690)
ُ۔۔3۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں سو رہا تھا کہ خواب میں دیکھا کہ میں ایک کنویں پر ہوں اور اللہ کریم نے جتنا چاہا اس ڈول سے پانی کھینچا، پھر اس ڈول کو حضرت ابوبکر نے لے لیا اور ایک یا دو ڈول کھینچے۔۔ پھر اس ڈول نے ایک بہت بڑے ڈول کی صورت اختیار کر لی اور اسے حضرت عمر فاروق نے اپنے ہاتھ میں لیا، میں نے ایسا شہ زور پہلوان آدمی نہیں دیکھا جو عمر کی طرح ڈول کھینچ سکتا ہو، انہوں نے اتنا پانی نکالا کہ لوگوں نے اپنے اونٹوں کو خوص سے سیراب کر لیا (بخاری 3664)
۔۔4۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی نبی ایسا نہیں جس کے دو وزیر آسمان والوں میں سے نہ ہوں اور دو وزیر زمین والوں میں سے نہ ہوں، رہے میرے دو وزیر آسمان والوں میں سے تو وہ جبرائیل اور میکائیل علیہما السلام ہیں اور زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابوبکر اور عمر ہیں (ترمذی 3680)
۔۔5۔ رسول اللہ ﷺ جب مسجد میں تشریف لاتے تو حضرات ابوبکر و عمر کے سوا کوئی اپنا سر نہ اٹھاتا وہ دونوں آپ ﷺ کی طرف دیکھ کر مسکراتے اور آپ ﷺ ان دونوں کی طرف دیکھ کر مسکراتے۔ (رواہ ترمذی غریب 6062)
۔۔6۔ حضرات ابوبکر اور عمر کے متعلق حضور ﷺ نے فرمایا یہ میری آنکھیں اور کان ہیں (ترمذی 3671) حضرات ابوبکر و عمر دائیں بائیں اور حضور ﷺنے ان کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے جب مسجد میں داخل ہوئے اور حضور ﷺ نے فرمایا کہ ہم قیامت کے دن اسی طرح اُٹھائے جائیں گے (ترمذی 3669) رسول اللہ ﷺ نے حضرات ابوبکر اور عمر سے کوئی مشورہ کیا، صحابہ نے عرض کی: حضرت ابوبکر کی رائے صحیح ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی کو ابوبکر کا خطا پر ہونا پسند نہیں (مجمع الزوائد ج 9، ص 46)
۔۔7۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا کی، اے اللہ! ان دونوں یعنی ابوجہل اور عمر بن خطاب میں سے جو تجھے محبوب ہو اس کے ذریعہ اسلام کو طاقت و قوت عطا فرما“، آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو ان دونوں میں سے عمر اللہ کے محبوب نکلے(ترمذی 3681) جب حضرت عمر نے اسلام قبول کیا تو جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا: اے محمد ﷺ ! عمر کے قبول اسلام سے آسمان والے بہت ہی خوش ہوئے۔ (ابن ماجہ 3690) بے شک حضرت عمر کا قبول اسلام مسلمانوں کےلئے ایک فتح تھی۔۔ جب وہ اسلام لائے تو۔۔ تب ہم نے خانہ کعبہ میں نماز پڑھی۔ (طبرانی 8820)
۔۔8۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، تم سے پہلے لوگوں یعنی بنی اسرائیل میں ایسے لوگ بھی ہوا کرتے تھے جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کلام فرمایا جاتا تھا حالانکہ وہ نبی نہ تھے۔ اگر ان میں سے میری امت میں بھی کوئی ہے تو وہ عمر ہے۔ (بخاری 3689)
۔۔9۔ سیدنا عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں: کبھی کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا جس میں لوگوں نے اپنی رائے دی ہو اور سیدنا عمر نے بھی رائے دی ہو مگر قرآن اس واقعہ سے متعلق سیدنا عمر کی رائے کے مطابق نہ اُترا ہو جیسے:
۔۔۔۱۔ حجاب کے احکام سے پہلے سیدنا عمر نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ! ازواجِ مطہرات کے سامنے طرح طرح کے لوگ آتے ہیں اس لیے آپ ﷺ انہیں پردے کا حکم دیجیے۔ اس پر یہ آیت نازل ہو گئی: اور جب مانگنے جاؤ بیبیوں سے کچھ چیز کام کی تو مانگ لو پردہ کے باہر سے (الاحزاب: 53) صحیح بخاری 4790: سیدنا عمر نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے پاس اچھے برے ہر طرح کے لوگ آتے ہیں، کاش آپ ازواج مطہرات کو پردہ کا حکم دے دیں۔ اس کے بعد اللہ نے پردہ کا حکم اتارا۔
۔۔۔۲۔ ایک بار سیدنا عمر نے عرض کی یا رسول اللہ! ہم مقامِ ابراہیم کو مصلیٰ نہ بنالیں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوگئی:اور بناؤ ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کی جگہ (البقرۃ:125، اس آیت کا شان نزول کے متلعق صحیح مسلم 6206)
۔۔۔۳۔ غزوہ بدر کے قیدیوں کو فدیہ کی بجائے سیدنا عمر نے ان قیدیوں کو قتل کرنے کا مشورہ دیا۔ اس پر سیدنا عمر کی رائے کے مطابق آیت نازل ہوئی:اگر نہ ہوتی ایک بات جس کو لکھ چکا اللہ پہلے سے تو تم کو پہنچتا اس لینے میں بڑا عذاب (الانفال:68، اس آیت کا شان نزول کے متلعق صحیح مسلم 6206)
۔۔۔۴۔ نبی کریم ﷺ کا اپنی کنیز حضرت ماریہ قبطیہ کے پاس جانا بعض ازواجِ مطہرات کو ناگوار لگا تو سیدنا عمر نے ان سے فرمایا: اگر نبی کریم ﷺ تم بیویوں کو طلاق دے دیں تو ان کا پروردگار تمہارے بدلے میں انہیں تم سے بہتر بیویاں دیدے گا''۔ (التحریم:5) بالکل انہی الفاظ کے ساتھ وحی نازل ہوگئی۔ (اس آیت کا شان نزول کے متلعق صحیح بخاری 4916)
۔۔۔۵۔ سورہ بقرہ 219 بھی سیدنا عمر کا سوال تھا۔ "تجھ سے پوچھتے ہیں حکم شراب کا اور جوئے کا کہدے ان دونوں میں بڑا گناہ ہے۔ ابوداود3670، ترمذی 3049، نسائی 5542: سیدنا عمر کہتے ہیں جب شر اب کی حرمت نازل ہوئی تو انہوں نے دعا کی: اے اللہ! شراب کے سلسلے میں ہمیں واضح حکم فرما۔۔ تو سورۃ البقرہ کی یہ آیت اتری: «يسألونك عن الخمر والميسر قل فيهما إثم كبير» نازل ہوئی (سورة البقرہ 219)۔ ۔ تو سیدنا عمر کو بُلا کر یہ آیت سنائی گئی توسیدنا عمر نے پھر دعا کی: اے اللہ! مزید وضاحت کے ساتھ ۔۔ تو سورۃ نساء کی یہ آیت نازل ہوئی: «يا أيها الذين آمنوا لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى”یعنی اے ایمان والو! نشے کی حالت میں نماز کے قریب مت جاو (سورة النساء: 43)۔۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے پھر دعا کی یا اللہ مزید وضاحت کے ساتھ تو یہ آیت نازل ہوئی: فهل أنتم منتهون یعنی کیا اب باز آ جاؤ گے۔ (سورة المائدہ: 91) سیدنا عمر نے کہا: ہم باز آ گئے۔
۔۔۔۶۔ ابتدائے اسلام میں رمضان شریف کی رات میں بھی بیوی سے قربت منع تھی ۔ سیدنا عمر نے اس کے بارے میں کچھ عرض کیا۔ اس کے بعد شب میں مجامعت کو جائز قرار دے دیا گیا اور آیت نازل ہوئی:حلال ہوا تم کو روزہ کی رات میں بے حجاب ہونا اپنی عورتوں سے''۔ (البقرۃ:187، صحیح بخاری 4508)
۔۔۔۷۔ یمامہ کی لڑائی میں جب قرآن کے 700 حافظ صحابی شہید ہوئے تو سیدنا عمر فاروق نے سیدنا ابوبکر کو قرآن اکٹھا کرنے کا مشورہ دیا اور قرآن کو اکٹھا کر کے نام ”مصحف“ رکھا گیا جو سیدنا ابوبکر کے پاس، اُس کے بعد سیدنا عمر فاروق اور پھر اُن کی بیٹی سیدہ حفصہ کے پاس رہا (صحیح بخاری 4986)
۔۔10۔ حضرت عمر نے حضورﷺ سے اندر آنے کی اجازت مانگی اور آپ کے پاس قریش کی چند عورتیں گفتگو کر رہی تھیں اور اونچی آواز سے کچھ مطالبہ کر رہی تھیں۔ جب حضرت عمر نے اجازت مانگی تو وہ پردے کے پیچھے چھپ گئیں۔ حضرت عمر اندر داخل ہوئے اور رسولﷲ ﷺ ہنس رہے تھے ۔ عرض کی، یا رسولﷲ ﷺ! آپ کوﷲ تعالیٰ ہمیشہ مسکراتا رکھے۔ نبی کریم نے فرمایا، مجھے ان عورتوں پر تعجب ہے جو میرے پاس تھیں اور جب انہوں نے تمہاری آواز سنی تو پردے کے پیچھے چھپ گئیں۔ آپ نے کہا ، اے اپنی جان کی دشمنو! تم مجھ سے ڈرتی ہو مگرﷲ کے رسول سے نہیں ڈرتیں؟ انہوں نے کہا، ہاں کیونکہ آپ سخت مزاج اور سخت گیر ہیں۔ رسولﷲ نے فرمایا ، خوب اے ابنِ خطاب ! قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، شیطان جب بھی تم سے کسی راستے میں ملتا ہے تو اپنا راستہ بدل لیتا ہے ۔ (بخاری 3683)
۔۔11۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں ایک محل دیکھا ۔ میں نے پوچھا، یہ محل کس کا ہے؟ جواب ملا، عمر بن خطاب کا میں نے ارادہ کیا کہ اندر داخل ہوکر اسے دیکھوں لیکن تمہاری غیرت یاد آگئی۔ اس پر حضرت عمر عرض گزار ہوئے، یا رسولﷲ ﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ، کیا میں آپ پر غیرت کرسکتا ہوں۔ (بخاری 3679)
۔۔12۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، میں سویا ہوا تھا کہ مجھ پر لوگ پیش کیے گئے جنہوں نے قمیصیں پہنی ہوئیں تھیں۔ کسی کی قمیص سینے تک اور کسی کی اس سے بھی کم تھی۔ پھر مجھ پر عمر بن خطاب پیش کیے گئے تو ان پر بھی قمیص تھی اور وہ اسے گھسیٹ رہے تھے۔ لوگ عرض گزار ہوئے ، یا رسول ﷲ ! آپ نے اس قمیص سے کیا تعبیر لی ہے؟ فرمایا، دین۔ (بخاری 3691)
۔۔13۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، میں سویا ہوا تھا کہ میرے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا۔ میں نے پیا ، یہاں تک کہ سیرابی کو اپنے ناخنوں سے نکلتے ہوئے دیکھا۔ پھر بچا ہوا دودھ میں نے عمر بن خطاب کو دے دیا۔ لوگ عرض گزار ہوئے ، یا رسولﷲ ! آپ اس (دودھ) سے کیا مراد لیتے ہیں؟ فرمایا ، علم۔ (بخاری 3681)
۔۔14۔ حضرت ا بن عمر سے حضرت عمر کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا، رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد میں نے حضرت عمر جیسا نیک اور سخی نہیں دیکھا کے بعد میں نے کسی شخص کو دین میں اتنی زیادہ کوشش کرنے والا اور اتنا زیادہ سخی نہیں دیکھا اور یہ خصائل عمر بن خطاب پر ختم ہو گئے۔ (بخاری 3687)
۔۔15۔ رسولﷲ ﷺ نے فرمایا ، بے شک ﷲ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور دل پر حق جاری فرمادیا ہے (ترمذی:3682) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب ہوتے۔ (ترمذی 3686)
۔۔16۔ رسول اللہ ﷺ کسی غزوہ کے لیے نکلے۔ جب واپس تشریف لائے تو ایک کالی لونڈی حاضر بارگاہ ہو کر عرض گزار ہوئی، یا رسولﷲ ! میں نے نذر مانگی تھی کہ اگرﷲ تعالیٰ آپ کو بخیریت واپس لوٹائے تو میں آپ کی خدمت میں دف بجا ؤں گی۔ رحمتِ عالم نے اس سے فرمایا ، اگر تم نے نذر مانی تھی تو بجالو، اور نہیں مانی تھی تو نہ بجاؤ۔ پس حضرات ابوبکر و علی و عثمان آئے اوروہ بجاتی رہی مگر جیسے ہی حضرت عمر آئے تو اس نے دف اپنے نیچے رکھی اور اس پر بیٹھ گئی۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: عمر! تم سے شیطان بھی ڈرتا ہے۔۔(ترمذی 3690)
۔۔17۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ عمر کا جنازہ تحت پر تھا اور لوگ دعا کر رہے تھے کہ ایک شخص نے اپنی کہنی میرے کاندھے پر رکھی اور کہا کہ اللہ آپ پر رحم فرمائے، میں یہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ کا مقام آپ کے دو صاحبوں (رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر) کے ساتھ کر دے گا کیونکہ میں نے کئی بار رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ”میں اور ابوبکر اور عمر تھے، میں نے ابوبکر و عمر نے یہ کام کیا، میں اور ابوبکر اور عمر گئے“ بے شک میں یہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ آپ کے دونوں صاحبوں کے ساتھ رکھے گا، میں نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو یہ کہنے والے حضرت علی بن ابی طالب تھے (بخاری 3677)
۔۔18۔ رسول اللہ ﷺ کا تریسٹھ سال کی عمر میں وصال ہوا اور حضرت ابوبکر و عمر کی عمریں بھی 63 سال تھیں (مسلم 6098)
خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
تاریخِ عالم نے ہزاروں جرنیل پیدا کیے، لیکن دنیا جہاں کے فاتحین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے طفلِ مکتب لگتے ہیں اور دنیا کے اہلِ انصاف سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عدل پروری کو دیکھ کر جی کھول کر اُن کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔
امیرِ شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری ؒ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ
’’عمر( رضی اللہ عنہ ) مرادِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم )ہے۔ ‘‘ یعنی دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مُریدِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں اور عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مرادِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں
ایک عالم نے کیا خوب کہا کہ: ’’عمرؓ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عطائے خداوندی تھے۔‘‘ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے علمائے اسلام ،حکمائے اسلام اور مستشرقین نے اپنے اپنے لفظوں میں بارگاہِ فاروقی میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے ہیں۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا شمار مکہ مکرمہ کے چند پڑھے لکھوں میں ہوتا تھا، لیکن وہ بھی اسی عرب معاشرے کا حصہ تھے، جہاں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو قبل از نبوت صادق و امین کہا جاتا تھا اور بعد از اعلانِ نبوت نعوذ باللہ! ساحر ،شاعر،کاہن ،اور نجانے کیا کیا کہا گیا۔
اہلِ مکہ کے جبر و ستم بہت بڑھ چکے تھے ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سرِعام تبلیغ تو درکنار‘ عبادت بھی نہیں کر سکتے تھے، چھپ کر دین اسلام کی تبلیغ و عبادت کی جاتی تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد اس وقت اُنتالیس تھی۔ ایک رات بیت اللہ کے سامنے عبادت کرتے ہوئے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردِگار سے عجیب دعا کی، مانگی بھی تو عجب شئے مانگی۔ کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ دعا میں یہ بھی مانگا جاتا ہے، اسلام کی بڑھوتری کی دعا کی جاتی، اہلِ مکہ کے ایمان لانے کی دعا کی جاتی، دنیائے عالم میں اسلام کی اشاعت کی دعا کی جاتی یا اہل مکہ کے ظلم و ستم کی بندش کے لیے ہاتھ اُٹھائے جاتے، لیکن میرے عظیم پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ: ’’اے اللہ! عمرو ابن ہشام اور عمر بن خطاب میں سے کسی کو اسلام کی عزت کا ذریعہ بنا ۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں دو لوگوں کو نامزد کیا اور فیصلہ خدائے علام الغیوب پر چھوڑ دیا کہ اللہ ! ان دونوں میں سے جو تجھے پسند ہو وہ دے دے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو شرفِ قبولیت سے نوازا اور اسباب کی دنیا میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا سبب یہ بنا کہ ایک روز تیغِ برہنہ لیے جارہے تھے، راستہ میں بنو زہرہ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ملا، جس نے پوچھا کہ عمر! خیریت! کہاں کا ارادہ ہے؟
کہنے لگے: محمد کو قتل کرنے جا رہا ہوں ،اس نے نئے دین کا اعلان کرکے مکہ والوں میں تفریق کر دی ہے، کیوں نہ اس قصہ کو ہی ختم کر دوں۔ بنو زہرہ سے تعلق رکھنے والے شخص نے کہا کہ: عمر! اگر تم نے ایسا کیا تو کیا ’’بنو ہاشم و بنو زہرہ ‘‘تم سے انتقام نہیں لیں گے؟ کہنے لگے: لگتا ہے کہ تم بھی اس نئے دین میں شامل ہوچکے ہو ،انہوں نے کہا کہ پھر پہلے اپنے گھر کی خبر تو لو، تمہاری بہن و بہنوئی مسلمان ہوچکے ہیں ۔
جلال میں نکلنے والا عمر سیدھا بہن کے گھر پہنچتا ہے، یہاں سیدنا خباب بن الارت رضی اللہ عنہ ان کے بہنوئی و بہن کو سورۂ طہٰ پڑھا رہے تھے، باہر سے آواز سنی اور دروازہ پر دستک دی، اندر سے پوچھا گیا کون؟
عمر! نام سنتے ہی سیدنا خباب ؓ چھپ گئے، عمر نے آتے ہی پوچھا: تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟ انہوں نے بات ٹالتے ہوئے کہا کہ: ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے، کہنے لگے: میں نے سنا ہے تم نئے دین میں شامل ہوگئے ہو؟
بہنوئی نے کہا کہ: عمر! وہ دین تیرے دین سے بہتر ہے، تو جس دین پر ہے یہ گمراہ راستہ ہے، بس سننا تھا کہ بہنوئی کو دے مارا زمین پر، بہن چھڑانے آئی تو اتنی زور سے اس کے چہرے پر طمانچہ رسید کیا کہ ان کے چہرے سے خون نکل آیا، بہن کے چہرے پہ خون دیکھ کر غصہ ٹھنڈا ہوا اور بہنوئی کو چھوڑ کر الگ ہو بیٹھے اور کہنے لگے کہ: اچھا! لاو، دکھاو، تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟
بہن نے کہا کہ: تم ابھی اس کلام کے آداب سے ناواقف ہو، اس کلامِ مقدس کے آداب ہیں، پہلے تم وضو کرو، پھر دکھاوں گی، انہوں نے وضو کیا اور سورۂ طہٰ پڑھنی شروع کی، یہ پڑھتے جا رہے تھے اور کلامِ الٰہی کی تاثیر قلب کو متاثر کیے جا رہے تھی۔ خباب بن ارت رضی اللہ عنہ یہ منظر دیکھ کر باہر نکل آئے اور کہنے لگے: عمرؓ! کل رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہِ خداوندی میں دعا کی تھی کہ
’’اللّٰھمّ أعزّ الإسلام بأحد الرجلین إمّا ابن ھشام وإمّا عمر بن الخطاب‘‘
اور ایک دوسری روایت میں الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں کہ
’’اللّٰھم أید الإسلام بأبي الحکم بن ھشام وبعمر بن الخطاب۔‘‘
اے اللہ ! عمر و بن ہشام یا عمر بن خطاب میں سے کسی کو اسلام کی عزت کا ذریعہ بنا، یا ان میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کی تائید فرما۔‘‘
اے عمر! میرے دل نے گواہی دی تھی کہ یہ دعا ئے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم عمر بن خطاب کے حق میں پوری ہوگی۔ اسی طرح کی ایک روایت سیدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ
’’کان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا رأی عمر بن الخطاب أو أبا جھل بن ھشام قال: اللّٰھم اشدد دینک بأحبّہما إلیک‘
یعنی جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بن خطاب یا ابوجہل کو دیکھتے تو رب العزت کے حضور دستِ دعا دراز کرتے ہوئے فرماتے
اے اللہ! ان دونوں میں سے جو تیرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے، اس سے اپنے دین کو قوت عطا فرما۔ (طبقات ابن سعد)
سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ: اچھا! تو مجھے بتائو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟
میں ان سے ملنا چاہتا ہوں، انہوں نے بتایا کہ: صفا پہاڑی پر واقع ارقم رضی اللہ عنہ کے مکان میں قیام پذیر ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ چل پڑے، دَرّے پر مقیم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب دیکھا کہ عمر آرہا ہے اور ہاتھ میں ننگی تلوار ہے، تو گھبرائے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا، وہیں اسداللہ و رسولہ سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بھی تھے، وہ فرمانے لگے: آنے دو، اگر ارادہ نیک ہے تو خیر ہے اور اگر ارادہ صحیح نہیں تو میں اس کی تلوار سے اس کاکام تمام کردوں گا۔
جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر نزولِ وحی جاری تھا، چند لمحوں بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر ؓ سے فرمایا:’’ اے عمر! تم کس چیز کا انتظار کر رہے ہو؟
کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم اسلام قبول کرو؟
‘‘ بس یہ سننا تھا کہ فوراً کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ اصحابِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کی خوشی میں اس زور سے نعرۂ تکبیر بلند کیا کہ صحنِ کعبہ میں بیٹھے ہوئے کفار و مشرکین نے بھی سنا اور اس نعرے کی آواز سے وادیِ مکہ گونج اُٹھی۔ پھر نبی روف و رحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سینۂ مبارک پر دستِ اقدس رکھا اور دعا فرمائی
اَللّٰھُمَّ اخْرُجْ مَافِيْ صَدْرِہٖ مِنْ غِلٍّ وَأَیِّدْ لَہٗ إِیْمَانًا۔‘‘
’’یا اللہ ۔!اس کے سینے میں جو کچھ میل کچیل ہو وہ دور کردے اور اس کے بدلے ایمان سے اس کا سینہ بھردے ۔‘‘ (مستدرک للحاکم)
قبولِ اسلام کے وقت بعض مؤرخین کے نزدیک آپ کی عمر تیس سال تھی اور بعض کہتے ہیں کہ عمر چھبیس سال تھی۔مصر کے ایک بہت بڑے عالم مفسرِ قرآن جناب علامہ طنطناویؒ نے عجیب جملہ کہا ہے کہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ عمرؓ اسی گھڑی پیدا ہوئے اور یہیں سے ان کی تاریخی زندگی کا آغاز ہوا ۔
مفسرِ قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم : لما أسلم أتاني جبرائیل، فقال: استبشر أھل السماء بإسلام عمرؓ ‘‘
یعنی حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’جبرئیل ؑ میرے پاس آئے اور کہا کہ: آسمان والے عمر ؓ کے قبولِ اسلام پر خوشیاں منا رہے ہیں۔‘
(مستدرک للحاکم و طبقات ابن سعد)
چند ہی لمحوں بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: اے اللہ کے نبی! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثبات میں جواب دیا، تو فرمانے لگے کہ: پھر چھپ کر عبادت کیوں کریں؟
چلیے خانہ کعبہ میں چل کر عبادت کرتے ہیں، میں قربان جاوں اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ انہوں نے ایسے ہی عمر ؓ کو نہیں مانگا تھا، بلکہ دور رس نگاہِ نبوت دیکھ رہی تھی کہ اسلام کو عزت و شوکت عمرؓ کے آنے سے ہی نصیب ہوگی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دو صفوں میں تقسیم کیا: ایک صف کے آگے اسد اللہ و رسولہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ چل رہے تھے اور دوسری صف کے آگے مرادِ رسولؐ، پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عطائے خداوندی یعنی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ چل رہے تھے۔ مسلمان جب خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو کفارِ مکہ نے دیکھا، نظر پڑی حمزہ ؓ پر اور عمر ؓ پر تو بڑے غمگین ہوئے، لیکن کس میں جرأت تھی کہ کوئی بولتا؟
اس دن سے مسلمانوں کے لیے تبلیغِ دین میں آسانی پیدا ہوئی اور یہی وہ دن تھا جب اللہ کے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ
’’إن اللّٰہ جعل الحق علٰی لسان عمرؓ وقلبہ وھو الفاروق فرّق اللّٰہ بہٖ بین الحق والباطل۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اللہ تعالیٰ نے سچ کو عمرؓ کے قلب و لسان پر جاری کر دیا اور وہ فاروق ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ حق و باطل میں فرق کر دیا ہے ۔‘‘ (طبقات ابن سعد)
جناب سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
’’واللّٰہ ما استطعنا أن نصلّي عندالکعبۃ ظاھرین حتٰی أسلم عمرؓ‘‘
’اللہ کی قسم ! ہم کعبہ کے پاس کھلے بندوں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے، یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔‘‘ (مستدرک للحاکم)
اسی طرح حضرت صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:جب عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو اسلام کو غلبہ نصیب ہوا، اور ہم کھلے بندوں اسلام کی دعوت دینے لگے اور ہم حلقہ بنا کر بیت اللہ میں بیٹھتے تھے، ہم بیت اللہ کا طواف کرنے لگے اور اب ہم پر اگر کوئی زیادتی کرتا تو ہم اس سے بدلہ لیتے تھے ۔
کچھ اسی قسم کے تأثرات فقیہ الامت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بھی ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ: ’’عمرؓ کا اسلام قبول کرنا ہماری کھلی فتح تھی، اور عمر ؓکا ہجرت کرنا ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی نصرتِ خاص تھی ، اور آپ ؓ کی خلافت تو ہمارے لیے سراپا رحمت تھی، میں نے وہ دن بھی دیکھے ہیں جب ہم بیت اللہ کے قریب بھی نماز ادا نہیں کرسکتے تھے، لیکن جب عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو آپ ؓ نے کفار سے مقابلہ کیا، یہاں تک کہ وہ ہمیں نماز پڑھنے دینے لگے۔ (طبقات ابن سعد)
سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شانِ رفیعہ میں چند فرامینِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرتا ہوں ۔
۔۱:-نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:
’’اے ابن خطاب !اس ذات پاک کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، جس راستے پہ آپ کو چلتا ہوا شیطان پالیتا ہے وہ اس راستہ سے ہٹ جاتا ہے، وہ راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرتا ہے ۔‘‘ (صحیح بخاری)
۔۲:-صحیح بخاری میں روایت ہے کہ :’’حضور پاک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حالتِ خواب میں دودھ پیا، یہاں تک کہ میں اس سے سیر ہوگیا اور اس کی سیرابی کے آثار میرے ناخنوں میں نمایاں ہونے لگے، پھر میں نے وہ دودھ عمرؓ کو دے دیا، اصحابِ رسولؓ نے پوچھا: یا رسول اللہ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’علم‘‘۔
۔۳:-اسی طرح امام بخاری ؒنے ایک اور روایت بھی اپنی صحیح میں درج کی ہے کہ :
۔’’ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: میں نیند میں تھا، میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ میرے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں اور انہوں نے قمیصیں پہنی ہوئی ہیں، کسی کی قمیص سینے تک اور کسی کی اس سے نیچے تک ،اور پھر عمرؓ کو پیش کیا گیا، انہوں نے ایسی لمبی و کھلی قمیص پہنی ہوئی تھی کہ وہ زمین پر گھسٹتی جا رہی تھی ،اصحابِ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے عرض کیا کہ: یا رسول اللہ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’دین ‘‘۔
۔۴:-اسی طرح بڑی ہی مشہور و معروف حدیث نبوی ہے کہ :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔‘‘یعنی اگر سلسلۂ نبوت جاری رہتا تو سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی منصبِ نبوت سے سرفراز کیے جاتے ۔
۔۵:-ایک حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ :’’رسول مکرم و معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: تم سے پہلے جو اُمم گزری ہیں ان میں مُحدَث ہوا کرتے تھے اور میری امت میں اگر کوئی مُحدَث ہے تو وہ عمرؓ ہے۔
اسی حدیث مبارکہ میں لفظ’’مُحدَث‘‘کی تشریح میں صاحب فتح الباری علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ یوں تحریر فرماتے ہیں کہ
’’المُحْدَث المُلْھَم وھو من ألقي في روعہ شيء من قبل الملاء الأعلٰی ومن یجری الصواب علیٰ لسانہٖ بغیر قصد۔‘‘
یعنی ’’محدث وہ ہے جس کی طرف اللہ کی طرف سے الہام کیا جائے، ملاء اعلیٰ سے اس کے دل میں القاء کیا جائے اور بغیر کسی ارادہ و قصد کے جس کی زبان پر حق جاری کر دیا جائے۔‘‘ یعنی اس کی زبان سے حق بات ہی نکلے ۔
۔۶:-ایک بار سیدنا عمر رضی اللہ عنہ شفیع اعظم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عمرہ کی اجازت طلب کی تو نبی مکرم و معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’یا أخي أشرکنا في صالح دعاء ک ولا تنسنا‘‘
’’اے میرے بھائی ! اپنی نیک دعاوں میں ہمیں بھی شریک کرنا اور بھول نہ جانا۔‘‘
۔۷:-سلسلۂ احادیث سے آخری حدیث پیش کرتا ہوں کہ یہ سلسلہ بہت دراز ہے اور دامنِ صفحات میں جگہ کم ،بخاری شریف میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ :’’ ایک دفعہ حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم اُحد کے پہاڑ پر تشریف لے گئے، ہمراہ ابوبکر ؓ ،عمرؓ اور عثمان ؓ بھی تھے، اُحد کا پہاڑ لرزنے لگا تو حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا قدم مبارک اُحد پر مارتے ہوئے فرمایا
’’اے اُحد! ٹھہر جا، تجھ پر اس وقت نبی، صدیق اور شہید کے علاوہ اور کوئی نہیں
‘‘اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ
’’اللّٰھم ارزقني شھادۃ في سبیلک وموتا في بلد حبیبک‘‘
’’اے اللہ! مجھے اپنی راہ میں شہادت کی موت دینا اور موت آئے تو تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں آئے
آخری ایامِ حیات میں آپؓ نے خواب دیکھا کہ ایک سرخ مرغ نے آپؓ کے شکم مبارک میں تین چونچیں ماریں، آپؓ نے یہ خواب لوگوں سے بیان کیا اور فرمایا کہ میری موت کا وقت قریب ہے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ ایک روز اپنے معمول کے مطابق بہت سویرے نماز کے لیے مسجد میں تشریف لے گئے، اس وقت ایک درّہ آپ کے ہاتھ میں ہوتا تھا اور سونے والے کو اپنے درّہ سے جگاتے تھے، مسجد میں پہنچ کر نمازیوں کی صفیں درست کرنے کا حکم دیتے، اس کے بعد نماز شروع فرماتے اور نماز میں بڑی بڑی سورتیں پڑھتے۔ اس روز بھی آپؓ نے ایسا ہی کیا، نماز ویسے ہی آپؓ نے شروع کی تھی، صرف تکبیر تحریمہ کہنے پائے تھے کہ ایک مجوسی کافر ابو لؤلؤ (فیروز) جو حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کا غلام تھا، ایک زہر آلود خنجر لیے ہوئے مسجد کی محراب میں چھپا ہوا بیٹھا تھا، اس نے آپؓ کے شکم مبارک میں تین زخم کاری اس خنجر سے لگائے، آپؓ بے ہوش ہوکر گر گئے اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر بجائے آپؓ کی امامت کے مختصر نماز پڑھ کر سلام پھیرا، ابولؤلؤ نے چاہا کہ کسی طرح مسجد سے باہر نکل کر بھاگ جائے، مگر نمازیوں کی صفیں مثل دیوار کے حائل تھیں، اس سے نکل جانا آسان نہ تھا، اس نے اور صحابیوںؓ کو بھی زخمی کرنا شروع کر دیا، تیرہ صحابی زخمی ،جن میں سے سات جاں بر نہ ہوسکے، اتنے میں نماز ختم ہوگئی اور ابولؤلؤ پکڑ لیا گیا، جب اس نے دیکھا کہ میں گرفتار ہوگیا تو اسی خنجر سے اس نے اپنے آپ کو ہلاک کردیا ۔ (خلفائے راشدینؓ ،از لکھنویؒ)
بالآخر آپ کی دعائے شہادت کو حق تعالیٰ نے قبول فرمایا اور دیارِ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم میں بلکہ مُصلائے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر آپ کو ۲۷ ذو الحجہ بروز چہار شنبہ (بدھ) زخمی کیا گیا اور یکم محرم بروز یک شنبہ (اتوار) آپ رضی اللہ عنہ نے شہادت پائی۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک تریسٹھ برس تھی ،حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور خاص روضۂ نبویؐ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں آپ ؓ کی قبر بنائی گئی۔ رضي اللّٰہ تعالٰی عنہ وأرضاہ
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
Comments
Post a Comment