306) پانی کی قدر کیجئیے

 

پانی کی قدر کیجئیے 

چین میں مکان کرایہ پر لیتے وقت، کرایہ کے بعد جو چیز سب سے پہلے طے کی جاتی ہے وہ فی ٹن پانی اور فی یونٹ بجلی کے بھاؤ ہوتے ہیں۔ شہر بھر میں لگ بھگ ایک جیسے یا پھر کہیں کہیں عمارت کی حالت کی مناسبت سے کچھ کم و بیش پر معاملات طے ہوتے ہیں۔ میں یہاں پر 110 روپے فی ٹن کے حساب سے پانی کا بل ادا کرتا ہوں ہوں اور نا چاہتے ہوئے بھی ہر مہینے 800 سے 1000 روپے کا پانی استعمال کر لیتا ہوں۔

پانی کی قدر کا احساس اس وقت اور بھی شدید ہو جاتا ہے جب سات مزلیں چڑھ کر مسجد تک پہنچو اور پتہ چلے کہ ادھر تو آج پانی ہی بند ہے۔ ایسے میں واٹر کولر سے ایک یا دو کپ پانی لیکر باکفایت وضو کرنا بھی ایک  تجربہ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں مسجد کی ٹونٹیان کچھ اس طرح سے بنی ہوئی ہیں کہ ایک کھولو تو دوسری کا پانی کم ہو جاتا ہے اور تیسری کھلنے پر بس بوند بوند ہی پانی ملتا ہے۔ میں نے ان تجربات سے تھوڑے پانی سے وضو کرنا سیکھا ہے اور پھر حکم بھی تو یہی ہے کہ پانی اس وقت بھی ضائع نا کرو جب کہ تم بہتے دریا پر بیٹھے ہوئے ہو۔

پانی کی صحیح قدر پوچھنی ہو تو پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور تھر کے صحراء والوں سے بعد میں؛ کینیڈا والوں سے پہلے پوچھ لو جو سردیوں میں اپنے سوئمنگ پول پر تختے لگا کر بند کر دیتے ہیں تاکہ پانی محفوظ رہے اور گرمیوں میں معالجے کے بعد دوبارہ کام میں لایا جا سکے۔ وہاں ایک پول کو بھروانا پڑ جائے تو اچھے خاصے بندے کا بجٹ اتھل پتھل ہو جاتا ہے۔

پاکستان میں مساجد کی ٹونٹیوں پر، اگر ماپنے کا کوئی پیمانہ نسب کیا جائے تو میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ایک اوسط شخص وضو کرتے ہوئے دس سے پندرہ لیٹر پانی استعمال کر جاتا ہے۔ میں نے اپنے اس دعوے کی صداقت کو ماپنے کیلیئے مسجدوں میں جا کر عوام کو وضو کرتے ہوئے بغور دیکھا ہے اور خیر سے سب کو ہی دریا دلی سے پانی ضائع کرتے پایا ہے۔

عصر کیلیئے وقت سے پہلے مسجد گیا تو دیکھا ایک نحیف قسم کے بزرگ محلے کو جگا دینے والی کھانسی کھانستے ہوئے شہتیری سائز کا مسواک کر رہے تھے جبکہ انہوں نے آدھی انچی کی  ٹونٹی مکمل کھلی چھوڑی ہوئی تھی جس سے پانی زور و شور سے جاری تھا۔ بابا جی جس زور شور سے مسواک فرما رہے تھے اس لحاظ سے تو چند اور منٹ تک بھی اس بات کا امکان نہیں تھا کہ ٹونٹی کا پانی مصرف میں لایا جائے گا یا پھر اس کا بہاؤ بند ہوگا۔ میں نے خود جا کر تنبیہی انداز میں ٹونٹی بند کی، بابا جی نے منہ اٹھا کر مجھے دیکھا 

کون ہے جو پانی کی قدر و قیمت بتائے اور لوگوں میں آگہی پیدا کرے؟ کون ہے جو لوگوں کو سمجھائے کہ ہم پانی نہیں ضائع کر رہے، نعمت کا کفران کر رہے ہیں، اپنے کھیت کھلیان بیابان کر رہے ہیں، آنے والی نسلوں کا حق مار رہے ہیں، اپنا حساب کتاب مشکل بنا رہے ہیں۔

پچھلے دنوں ایک تحقیقاتی رپورٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا، جس میں بتایا گیا تھا دنیا کی ہر چیز کیلیئے بنیادی ضرورت کی چیز پانی ہے۔ پانی سے سب کچھ بنایا جا سکتا ہے مگر پانی کسی بھی چیز سے نہیں بنایا جا سکتا۔ اس لیئے ہمیں اب پانی کی ہر حال میں قدر کرنا ہوگی۔ تحقیق کے چند  مندرجات ملاحظہ کیجیئے

ایک درمیانہ سائز کے پیزا کو بنانے کیلیئے جن محتویات کی ضرورت پڑتی ہے وہ گیارہ سو (1100) لیٹر پانی سے پیدا یا تیار ہوتے ہیں۔

ایک کیلو گرام چاول اگانے کیلیئے چوبیس سو (2400) لیٹر پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔

ایک کاٹن شرٹ کی تیاری پر چھبیس سو (2600) لیٹر پانی استعمال ہو جاتا ہے۔

ایک کیلو گرام کی مرغی کو پالنے پر تینتالیس سو (4300) لیٹر پانی خرچ ہوتا ہے۔

ایک ٹن کنکریٹ تیار کرنے کیلیئے باون سو (5200) لیٹر پانی استعمال ہو جاتا ہے۔

ایک جینز کی پینٹ بنانے پر اڑسٹھ سو (6800) لیٹر پانی استعمال ہو جاتا ہے۔

ایک کیلو بیف حاصل کرنے کیلیئے (15400) لیٹر پانی استعمال ہو جاتا ہے۔

ایک کیلو گرام چاکلیٹ تیار کرنے پر سترہ ہزار (17000) لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے۔

ایک کار کی تیاری پر ایک لاکھ اڑتالیس ہزار (148000) لیٹر پانی خرچ ہوتا ہے۔

ایک ٹن سٹیل کی تیاری پر دو لاکھ پینتیس ہزار (235000) لیٹر پانی استعمال ہو جاتا ہے۔

پانی کا باکفایت استعمال سماجی ہی نہیں شرعی طور پر بھی لازم قرار دیا گیا ہے۔اچھے شہری اور اچھے مسلمان  بنیئے تاکہ پانی کا حساب دیتے ہوئے آسانی رہے۔

 قالہ اللہ تعالی: وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ 

اور ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے بنایا

Comments