۔329) واقعات اور معلومات

 

۔۔👈 جنرل سر ابراہام برطانوی فوج کا جرنیل تھا۔ یہ اپنے فوجی کیریئر کے دوران انیسویں صدی میں برصغیر میں بھی رہا جہاں اس کے بیٹے جان رابرٹ نے اسلام قبول کر لیا۔ جان رابرٹ اردو پر مادری زبان جیسا مکمل عبور رکھتے تھے اور انہوں نے اردو شاعری بھی کی۔ ان کے نام میں "جان" ان کا تخلص ہے۔ جان رابرٹ کا 12 مئی 1892ء کو انتقال ہوا۔ پیش خدمت ہے ان کی ایک اردو نعت۔

 ہے عرش پہ قوسین کی جا جائے محمد ... رشکِ یدِ بیضاء ہے کفِ پائے محمد

عیسیٰ سے ہے بڑھ کر لبِ گویائے محمد ... یوسف سے ہے بڑھ کر رخِ زیبائے محمد

 والشمس تھے رخسار تو واللیل تھیں زلفیں ... اک نور کا سورہ تھا سراپائے محمد

 اندھیر ہوا کفر کا سب دور جہاں سے ... روشن ہوا عالم جو یہاں آئے محمد

 عصیاں سے بری ہو کے قیامت میں اٹھے گا ... بےشک ہے بہشتی جو ہے شیدائے محمد

۔۔👈  ایک بادشاہ شکار کے لیے نکلا ہوا تھا۔ وہ جنگل سے گزر رہا تھا۔ کہ اس کی نظر ایک درویش پر پڑی جو اپنے حال میں مست بیٹھا تھا۔ بادشاہ اس درویش کے قریب سے گزرا لیکن اس نے آنکھ اٹھا کر بھی اس کی طرف نہ دیکھا اور یہ بات بادشاہ کو بہت ناگوار گزری۔ اس نے اپنے وزیر سے کہا کہ یہ بھیک منگے بھی بالکل جانوروں کی طرح ہوتے ہیں کہ انھیں معمولی ادب آداب کا بھی خیال نہیں ہوتا۔

بادشاہ کی ناگواری کا اندازہ کر کے وزیر اس درویش کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ بابا جی، ملک کا بادشاہ آپ کے قریب سے گزرا اور آپ نے اتنا بھی نہیں کیا کہ اپنی عقیدت اور نیاز مندی ظاہر کرنے کے لیے کھڑے ہو جاتے اور ادب سے سلام کرتے؟

درویش نے بے پروائی سے جواب دیا، اپنے بادشاہ سے کہو کہ ادب آداب کا خیال رکھنے کی امید ان لوگوں سے کرے جنھیں اس سے انعام حاصل کرنے کا لالچ ہو۔ اس کے علاوہ اسے یہ بات بھی اچھی طرح سمجھا دو کہ ہم جیسے درویشوں کا کام بادشاہ کا خیال رکھنا نہیں بلکہ بادشاہ کا یہ فرض ہے کہ وہ ہماری حفاظت کرے۔ تو نے سنا نہیں۔ بھیڑیں گڈریے کی حفاظت نہیں کرتیں بلکہ گڈریا بھیڑوں کی حفاظت کرتا ہے۔ یاد رکھے ! بادشاہی بھی ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں۔ موت کے بعد بادشاہ اور فقیر برابر ہو جاتے ہیں۔ اگر تو قبر کھول کر دیکھے تو یہ بات معلوم نہ کر سکے گا کہ یہ شخص جس کی کھوپڑی کو مٹی نے کھا لیا ہے۔ زندگی میں کس مرتبے اور شان کا مالک تھا۔

وزیر نے درویش کی یہ باتیں بادشاہ کو سنائیں تو اس نے ان سے نصیحت حاصل کی اور فقیر پر مہربان ہو کر اس سے کہا کہ اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بیان کرو۔ تمھاری ہر حاجت پوری کی جائے گی

فقیر نے بے نیازی سے کہا، بس ایک خواہش ہے اور وہ یہ کہ میرے پاس آنے کی تکلیف پھر کبھی نہ اٹھانا۔ بادشاہ نے کہا، اچھا مجھے کوئی نصیحت فرمائیے۔ درویش بولا، میرے نصیحت یہ ہے کہ اس زمانے میں جب تو تاج اور تخت کا مالک ہے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کر کہ عاقبت میں تیرے کام آئی گی۔ یہ تاج اور تخت ہمیشہ تیرے پاس ہی نہ رہے گا۔ جس طرح تجھ سے پہلے بادشاہ کے بعد تجھے ملا، اسی طرح تیرے بعد کسی اور کو مل جائے گا نیکیاں کر لے اگر تو صاحب ثروت ہے آج کل نہ جانے کس کے ہاتھ آئے ترا یہ تخت و تاج ۔۔۔۔۔۔۔

وضاحت ... اس حکایت میں یہ بات بتائی ہے کہ اپنے دل کو حرص اور لالچ سے پاک کر لینے کے بعد ہی انسان کو سچی راحت اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ یہ مرتبہ حاصل ہو جائے تو خدا ایسی جرأت بخش دیتا ہے کہ وہ طاقت رکھنے والے لوگوں سے بھی خوف نہیں کھاتا نیز یہ کہ ہر ایک کے لیے سب سے زیادہ نفع کا سودا نیکیاں کرنا ہے۔ اخروی زندگی میں اس کے کام اس کا یہی سرمایہ آئے گا۔ جس مال پر دنیا میں غرور کرتا تھا، اس میں سے کفن کے سوا کچھ بھی اپنے ساتھ نہ لے جا سکے گا۔

۔۔👈 ہفتہ کے سات ایام کی خصوصیات

ایک روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور دوسرے پچاس پیغمبروں کو 

۔۔1 ہفتہ کا دن دیا تھا یعنی اِس دن کو اُن کی عبادت کا دن مقرّر کیا تھا۔ 

۔۔2 حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور اُن کے علاوہ بیس اور انبیاء علیہم السلام کو اتوار کا دن دیا تھا۔

۔۔3 پیر یعنی دوشنبہ کا دن سیّدِ عالَم محمّد مُصطفٰے ﷺ اور تریسٹھ دوسرے رسولوں کو عطا فرمایا۔ 

۔۔4 منگل کا دن حضرت سُلیمان علیہ السلام اور دوسرے پچاس پیغمبروں کو عطا کیا۔

۔۔5 بدھ کا دن حضرت یعقوب علیہ السلام اور پچاس دوسرے رسولوں کو عطا فرمایا۔ 

۔۔6 جمعرات کا دن حضرت آدم علیہ السلام اور پچاس دوسرے نبیوں کو عطا کیا۔

۔7 جمعۃ المبارک کا دن خالص اللہ تعالیٰ کا اپنا دن ہے 

( معروف صُوفی بزرگ شیخ عبدالقادر جیلانی کی کتاب "غُنیة الطالبین" سے اقتباس )

۔👈امام  رازی رحمہ اللہ نے رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ذوالنون مصری رحمہ اللہ کا واقعہ نقل کیا ہے کہ وہ ایک دن کپڑے دھونے کےلئے دریائے نیل کے کنارے تشریف لے گئے، یکایک. انہیں ایک موٹا تازہ بچھو دکھائی دیا، جو ساحل کی طرف جا رہا تھا ۔جب وہ کنارے پر پہنچا تو پانی میں سے ایک کچھوا نکلا، اور سطح پر تیرنے لگا۔ بچھو نے جب اسے دیکھا وہ کود کر اس کی پشت پر سوار ہو گیا ۔کچھوا اسے لیکر دوسرے کنارے کی طرف چلا ۔حضرت ذوالنونؒ فرماتے ہیں کہ میں تہبند باندھ کر دریا میں اتر گيا اور ان دونوں کو دیکھتا رہا، یہاں تک کہ وہ دریا کے اس پار پہنچ گئے، یہاں پہنچ کر بچھو کچھوے کی پیٹھ پر سے اترا اور خشکی پر چڑھ گیا ۔میں بھی دریا سے نکل کر اس کے پیچھے ہو لیا، یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ ایک گھنے درخت کی چھاؤں میں ایک نوخیز لڑکا گہری نیند سو رہا ہے ۔میں نے دل میں کہا کہ یہ بچھو دوسری طرف سے اس نوجوان کو کاٹنے آیا ہے، ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک مجھے ایک زہریلا سانپ دکھائی دیا، جو پھن اٹھا کر لڑکے کی طرف بڑھ رہا تھا، لیکن ابھی وہ لڑکے کے پاس پہنچا ہی تھا کہ بچھو آگے بڑھا، اور سانپ کے سر سے چمٹ کر بیٹھ گیا، یہاں تک کہ تھوڑی دیر میں سانپ مرگیا، اور بچھو واپس کنارے کی طرف لوٹا، وہاں کچھوا اس کا منتظر تھا، اس کی پیٹھ پر سوار ہو کر دوباره اس پار جا پہنچا، میں یہ عجیب ماجرا دیکھ کر یہ شعر پڑھنے لگا 

ياراقدا والجليل يحفظه 

من كل سوء يكون في الظلم 

كيف تنام العين عن ملك

تاتيه منك فوائد النعم 

میری آواز سن کر نوجوان جاگ اٹھا، میں نے اسے تمام قصہ سنایا ۔اس پر اس واقعہ کا اتنا اثر ہوا کہ اس نے اپنی لہو و لعب کی زندگی سے توبہ کی، اور تمام عمر سیاحت میں بسر کر دی ... (تفسیر کبیر و تاریخ الیافعیؒ)

Comments