۔۔1۔ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں جب صحابہ کرام کے درمیان انتخاب ہوتا تو سب سے افضل اور بہتر حضرت ابوبکر، پھر حضرت عمر اور پھر حضرت عثمان قرار پاتے (بخاری 3655)
۔۔2۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ جو شخص بئررومہ (کنواں) کو خرید کر سب کے لیے عام کر دے، اس کے لیے جنت ہے تو حضرت عثمان نے اسے خرید کر عام کر دیا تھا اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جیش عسرہ (غزوہ تبوک کے لشکر) کو سامان سے لیس کرے اس کے لیے جنت ہے تو حضرت عثمان نے ایسا کیا تھا۔ (صحیح بخاری 3695)
نبی اکرم ﷺ جیش عسرہ (غزوہ تبوک) کے سامان کی لوگوں کو ترغیب دے رہے تھے، تو حضرت عثمان بن عفان کھڑے ہوئے اور بولے: اللہ کے رسول! میرے ذمہ اللہ کی راہ میں سو اونٹ ہیں مع ساز و سامان کے، آپ نے پھر اس کی ترغیب دلائی، تو عثمان پھر کھڑے ہوئے اور بولے: اللہ کے رسول! میرے ذمہ اللہ کی راہ میں دو سو اونٹ ہیں مع ساز و سامان کے، آپ نے پھر اسی کی ترغیب دی تو عثمان پھر کھڑے ہوئے اور بولے اللہ کے رسول! میرے ذمہ اللہ کی راہ میں تین سو اونٹ ہیں مع ساز و سامان کے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ منبر سے یہ کہتے ہوئے اتر رہے تھے کہ ”اب عثمان پر کوئی مواخذہ نہیں جو بھی کریں، اب عثمان پر کوئی مواخذہ نہیں جو بھی کریں۔ (ترمذی 3700) غزوہ تبوک کے وقت میں سیدنا عثمان نے کچھ درہم و دینار نبی اکرم ﷺ کی گود میں ڈال دئے جس کو آپ ﷺ الٹ پلٹ کر کے دو بار فرمایا کہ آج کے بعد سے عثمان کو کوئی بھی برا عمل نقصان نہیں پہنچائے گا (ترمذی 3701)
۔۔3۔ مصر سے ایک نامعلوم آدمی نے حج بیت اللہ کیا اور حضرت عبداللہ بن عمر سے کہا: کیا آپ بتانا پسند کریں گے
۔۔(۱) کیا حضرت عثمان نے احد کی لڑائی سے راہ فرار اختیار کی تھی؟ حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ ہاں ایسا ہوا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا ہے۔
۔۔(۲) کیا حضرت عثمان بدر کی لڑائی میں شریک تھے؟ جواب دیا کہ بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نکاح میں رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی تھیں جو اس وقت وہ بیمار تھیں اور نبی کریم ﷺ نے ہی فرمایا تھا کہ تمہیں میری بیٹی کے پاس رہنا ہے اور اے عثمان، تمہیں اتنا ہی اجر و ثواب ملے گا جتنا اس شخص کو جو بدر کی لڑائی میں شریک ہو گا اور اسی کے مطابق مال غنیمت سے حصہ بھی ملے گا
۔۔(۳) کیا بیعت رضوان میں شریک تھے تو جواب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے انہیں سفیر بنا کر مشرکین مکہ کے پاس بھیجا تھا، اس موقع پر نبی کریم ﷺ نے اپنے داہنے ہاتھ کو اٹھا کر فرمایا تھا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور پھر اسے اپنے دوسرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا تھا کہ یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے۔ اس کے بعد ابن عمر رضی اللہ عنہما نے سوال کرنے والے شخص سے فرمایا کہ جا، ان باتوں کو ہمیشہ یاد رکھنا۔
نبی کریم ﷺ جب احد پہاڑ پر چڑھے اور آپ کے ساتھ حضرات ابوبکر، عمر اور عثمان بھی تھے تو پہاڑ کانپنے لگا۔ آپ ﷺ نے اس پر فرمایا احد ٹھہر جا میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے اسے اپنے پاؤں سے مارا بھی تھا کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہی تو ہیں۔ (صحیح بخاری 3699)
۔۔4۔ رسول اللہ ﷺ اپنے گھر رانیں یا پنڈلیاں کھولے لیٹے تھے کہ سیدنا ابوبکر اور عمر آئے اور حضور ﷺ ان سے باتیں کرتے رہے مگر سیدنا عثمان جب آئے تو حضور ﷺ بیٹھ گئے اور کپڑے برابر کر لئے، پھر وہ آئے اور باتیں کیں۔ حضرت عثمان کے جانے کے بعد سیدہ عائشہ نے پوچھا کہ سیدنا ابوبکر و عمر کے وقت میں تو رانوں پر کپڑا نہیں تھا تو آپ نے کچھ خیال نہ کیا مگر سیدنا عثمان کے وقت کپڑے درست کر لئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں اس شخص سےحیا نہ کروں جس سے فرشتے حیاکرتے ہیں؟ (صحیح مسلم 6209) عثمان انتہائی حیادار ہیں، مجھے ڈر تھا کہ میں نے اسی حالت میں ان کو آنے کی اجازت دی تو وہ اپنی ضرورت کے بارے میں مجھ سے بات نہیں کرسکیں گے۔ (صحیح مسلم 6210)
۔۔5۔ ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے، اور میرے رفیق یعنی جنت میں عثمان ہوں گے۔ (ترمذی 3698) ایک دفعہ نبی اکرم ﷺ، حضرات ابوبکر، عمر اور عثمان احد پہاڑ پر چڑھے تو پہاڑ ہلنے لگا۔ آپ ﷺ نے اس پر اپنا پاؤں مار کر فرمایا: اے احد رک جا، تیرے اوپر نبی، صدیق اور دو شہید موجود ہیں (بخاری 3686)
۔۔6۔ نبی اکرم ﷺ نے فتنوں کے ظہور کا بیان کیا اور سیدنا عثمان کے متعلق فرمایا کہ یہ شخص اس دن ہدایت پر ہو گا۔ (ترمذی 3704) اے عثمان! شاید اللہ تمہیں کوئی کرتا پہنائے، اگر لوگ اسے اتارنا چاہیں تو تم اسے ان کے لیے نہ اتارنا (ترمذی 3705) رسول اللہ ﷺ نے ایک فتنہ کا ذکر کیا تو فرمایا: ”اس فتنہ میں یہ عثمان بھی مظلوم قتل کیا جائے گا (ترمذی 3708) اے عثمان! اگر اللہ تعالیٰ کبھی تمہیں اس امر یعنی خلافت کا والی بنائے، اور منافقین تمہاری وہ قمیص اتارنا چاہیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں پہنائی ہے، تو اسے مت اتارنا (ابن ماجہ 112)
۔۔7۔ سیدنا عثمان محافظ قرآن
۔۔۱۔ صحیح بخاری 2287،صحیح مسلم 818 کے مطابق قرآن کریم سات لغات و لہجات میں اتارا گیا۔ سیدنا عثمان کے دور میں صحابہ کرام پھیل گئے، سات قراءت یا حروف پر تکرار شروع ہو گئی۔ ایک کہتا تو غلط ہے اور دوسرا کہتا تو غلط ہے۔ اس پر یہ مشورہ ہوا کہ اس فتنے کو دور کرنے کے لئے قرآن پاک کو قریش کے لہجہ میں جمع کر دیا جائے۔
۔۔۲۔ سیدہ حفصہ سے مصحف منگوا کر سیدنا زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، سعید بن عاص اور عبدالرحمن بن حارث بن ھشام رضی اللہ عنھم نے ورکنگ کر کے ”قریش“ کے لہجے میں مصحف تیار کیا اورجس جس ملک میں مسلمان تھے، بھیج دیا گیا اور اصل مصحف سیدہ حفصہ کو واپس کر دیا۔ ساری دنیا کے نسخے جو اختلاف کا باعث تھے، نسخوں سے سیاہی دھو کر علیحدہ دفن کر دی گئی اور صرف کاغذ جلا دیا گیا تاکہ اختلاف ابھر کر سامنے نہ آئے۔ (صحیح البخاری 4988)
۔8۔ حضرت ابو موسی اشعری کہنے لگے کی ایک دن میں حضور ﷺ کی تلاش میں نکلا تو دیکھا کہ آپ (قباء کے قریب) بئر اریس کی منڈیر پر اپنی پنڈلیاں کھولے، اپنے پاؤں کنویں میں لٹکائے بیٹھے ہیں، میں نے آپ ﷺ کو سلام کر کے دروازے پر آ کر دربان بن کر بیٹھ گیا۔ اتنے میں حضرت ابوبکر آئے، دروازہ کھولنا چاہا، میں نے پوچھا کون؟ انہوں نے فرمایا: ابوبکر۔ میں نے حضور ﷺ سے حضرت ابوبکر کو اندر آنے کی اجازت دینے کے متعلق پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ انہیں اجازت بھی دو اور جنت کی بشارت بھی۔ میں نے ایسے ہی کیا۔ حضرت ابوبکر بھی کنویں کی منڈیر پر دائیں طرف حضور ﷺ کے ساتھ پاؤں لٹکا پر بیٹھ گئے۔۔ پھر دروازے پر دستک ہوئی، حضرت عمر تھے، پھر حضور ﷺ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ آنے دو اور جنت کی بشارت بھی دو، وہ حضور ﷺ کے بائیں طرف بیٹھ گئے۔ پھر دستک ہوئی، پوچھا توآواز آئی، عثمان، پھر حضور ﷺ سے اجازت مانگی، آپ ﷺ نے فرمایا آنے دو اور جنت کی بشارت بھی دو اور ایک مصیبت بھی پہنچے گی وہ بھی بتا دو۔ میں نے ایسا ہی کہا۔ وہ جب داخل ہوئے تو چبوترے پر جگہ نہیں تھی اسلئے دوسری طرف حضور ﷺ کے سامنے بیٹھ گئے۔ شریک نے بیان کیا کہ سعید بن مسیب نے کہا میں نے اس سے ان کی قبروں کی تاویل لی (ساتھ ساتھ اور جنت البقیع) (بخاری 3674، مسلم 2403)
Comments
Post a Comment