332) اصل جہاد کیا ہے ؟



اصل جہاد کیا ہے ؟ 

 جہاد اسلام کا ایک حصہ اور فرض عین ہے. امام مالک فرماتے ہیں جس شخص نے نہ جہاد کیا نہ جہاد کی نیت کی اور جہاد میں سے کیڑے نکالے وہ گمراہ ترین شخص ہے . قرآن پاک میں جہاد کی فرضیت اور جہاد کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے 484 آیات نازل کی ... قلم کا جہاد،بچے پالنے والا جہاد،ظالم کے خلاف آواز بلند کرنا یہ جہاد ضرور ہے مگر یہ اسکے لفظی معانی ہیں. اصل میں جہاد کو قتال فی سبیل اللہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے مثال دیتا ہوں جب مدینہ کی گلیوں میں جہاد کے لئے آواز لگائی جاتی تهی تو مطلب میدان جنگ ہی سمجها جاتا تها. اگر قلم والا جہاد،بچے پالنے والا جہاد وغیرہ مراد تهے تو ان صحابی کا نام بتائیں جنہوں نے ایسا کہا ہو کہ آقا یہ قلم میرے ہاتھ میں ہے بتائیں کس کے خلاف جہاد کرو ... قلم سے دوسری مثال دیتا ہوں اسلام میں نماز کو کیا کہتے ہیں "صلاۃ" اور دورد شریف پڑهنے کو بهی "صلاۃ" ہی کہتے ہیں. اب اگر عشاء کی نماز کا وقت آئے اور میں کہو میں ایک ہزار بار بلکہ صبح تک درود شریف پڑهوں گا کیونکہ وہ بهی "صلاۃ" ہے تو کیا میری نماز عشاء(صلاۃ) کیا ادا ہو جائے گی.یقیناً نہیں ہوگی دورد شریف صلاۃ ضرور ہے مگر یہ اسکا لفظی معانی ہے. اگر دورد شریف والے صلاۃ سے میری نماز عشاء(صلاۃ) ادا نہیں ہوتی تو قلم والے جہاد سے میرا اصل میدان جنگ والا جہاد کیسے ادا ہوگا

قرآن مجید میں جہاد کی فرضیت کا حکم ہی نہیں بلکہ جہادی کے گهوڑے کی بات بهی ہے ان گهوڑوں سے اٹهنے والی غبار کی باتیں بهی موجود ہیں. قرآن مجید میں جہاد کے بارے میں بہت ہی زبردست طریقے سے اللہ تعالیٰ نے آیات نازل کی ہیں

جہاد فرض ہے اسکا انکار کرنے والا مسلم نہیں ہو سکتا اسکو بغیر عذر کے چهوڑنے والا فاسق ہے. نبی کریم صلی الله عليه وسلم نے جنت کا راستہ دکھایا ہے، جنت تلوار کے سایے کے نیچے ہے. اللہ کی خاطر جہاد کرتے ہوئے شہید ہونے والے پر جنہم کی آگ حرام ہے. اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کو قرآن نے کہا انکو مردہ کہنا تو دور کی بات مردہ گمان بهی نہ کرو. ایک شہید وہ ہی ہوتا ہے جو اللہ کی راہ میں شہید ہوتا ہے اور اسکی فضیلت ہی قرآن نے بیان کی ہے

باقی شہادت کی اقسام ہیں ناحق قتل،حادثاتی موت وغیرہ وغیرہ.مگر اصل شہید جسکی فضلیت قرآن پاک میں بیان یوئی وہ اللہ کی راہ میں شہید ہونے کا نام ہے

منافق کھبی جہاد نہیں کرتا جہاد قرآن کا حکم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے قرآن منافقین کے بارے میں کہتا ہے کہ جب احکام جہاد آئے تو وہ ناخوش ہو گئے کہ اللہ نے جہاد کا حکم کیوں دے دیا آج بھی منافقیں کو جہاد کا نام سن کر چڑ ہوتی ہے لیکن منافقین یاد رکھیں 

قال النبی صلی اللہ علیہ و سلم الجھاد ماض الی یوم القیامہ

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جہاد قیامت تک جاری رہے گا

  مومن اللہ کی رضا کو ہر چیز پر مقدم رکھتا ہے

اور مسلمانوں (اللّٰہ کی راہ میں جہاد کرو اور جان رکھو کہ اللّٰہ سب کچھ جانتا ہے 

 سورۃ بقرۃ 244

اے نبی ﷺ مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو۔اور اگر تم میں 20 آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو 200 کافروں پر غالب رہیں گے۔ اور اگر (100 ایسے ہونگے) تو 1000 پر غالب رہیں گے۔ اس لیئے کہ کافر ایسے لوگ ہیں کہ کچھ بھی سمجھ نہیں رکھتے 

 (سورة انفال: 65)

اے ایمان والو! اللّٰہ سے ڈرتے رہو اور اسکا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کرتے رہو اور اسکے رستے میں جہاد کرو تاکہ رستگاری پاؤ ... (سورۃ المائدۃ: 35)

وہ یہ کہ اللّٰہ پر اور اسکے رسول پر ایمان لاؤ اور اللّٰہ کی راہ میں اپنے مال اور (جان سے جہاد کرو۔) اگر سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے ... (سورۃ صف: 11)

اے جہاد سے ڈرنے والو تم کہیں رہو موت تو تمہیں آکر رہے گی خواہ بڑے بڑے مضبوط محلوں میں رہو ... (سورة نساء: 78)

جہاد کی برکت  🏵

علامہ ابن اثیر جزری رحمۃ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ایرانی آتش پرستوں سے جہاد کرنے کے لیے قادسیہ پہنچے تو انہوں نے اپنے لشکر کے ایک افسر عاصم بن عمرو رضی اللہ عنہ کو کسی کام سے میان کے مقام پر بھیجا، یہ دشمن کے ملک میں ایک چھوٹی سی جگہ تھی . حضرت عاصم رضی اللہ عنہ یہاں پہنچے تو رسد کا سارا ذخیرہ ختم ہو گیا ۔ اور ساتھیوں کے پاس کھانے کو کچھ نہ رہا انہوں نے آس پاس تلاش شروع کی کہ شاید کوئی گائے بکری مل جائے مگر کافی جستجو کے باوجود کوئی جانور ہاتھ نہ آیا . اچانک انہیں بانس کے ایک چھپر کے پاس ایک شخص کھڑا نظر آیا انہوں نے اس سے جا کر پوچھا کیا یہاں آس پاس کوئی گائے بکری مل جائے گی ؟

 اس شخص نے کہا ... مجھے معلوم نہیں،، حضرت عاصم رضی اللہ عنہ ابھی واپس نہیں لوٹے تھے کہ چھپر کے اندر سے ایک آواز سنائی دی۔

یہ خدا کا دشمن جھوٹ بولتا ہے ہم یہاں موجود ہیں ... حضرت عاصم چھپر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہاں کئی گائے بیل کھڑے ہیں۔ مگر وہاں کوئی آدمی نہیں تھا اور یہ آواز ایک بیل کی تھی۔ حضرت عاصم وہاں سے گائے بیل لے کر آئے اور انہیں لشکر میں تقسیم کیا۔ یہ واقعہ کسی نے حجاج بن یوسف کو سنایا تو اسے یقین نہ آیا۔ اس نے جنگ قادسیہ کے شرکاء کے پاس پیغام بھیج کر اس کی تصدیق کرنی چاہی تو بہت سے حضرات نے گواہی دی کہ اس واقعے کے وقت ہم موجود تھے حجاج نے ان سے پوچھا"اس زمانے میں اس واقعے کے بارے میں لوگوں کا تاثر کیا تھا ؟

"انہوں نے کہا"اس واقعے کو اس بات کی دلیل سمجھا جاتا تھا کہ اللہ ہم سے راضی ہے اور وہ ہمیں دشمنوں پر فتح عطا فرمائے گا یہ بات اسی وقت ہو سکتی ہے جب لوگوں کی اکثریت متقی و پرہیز گار ہو" حجاج نے کہا۔ دلوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے" انہوں نے کہا۔ " لیکں اتنا ہم بھی جانتے ہیں کہ دنیا سے اس قدر بے نیاز قوم ہم نے ان کے بعد نہیں دیکھی۔

(کامل ابن اثیر-ص175ج2طبع قدیم)

Comments