۔ 386) ڈاکٹروں کی رجسٹریشن اور اِمتحانی نظام

اوّلاً اِسلام نے اِنسانیت کے لئے حفظانِ صحت کے ایسے اُصول مرتب کئے ہیں کہ بندہ زیادہ سے زیادہ بیماریوں سے قبل از وقت بچا رہے۔ تاہم اگر کوئی بیماری حملہ آور ہو جائے تو اُس کا مناسب علاج بھی پیش کیا ہے۔طب کو باقاعدہ ایک فن کے طور پر پروان چڑھانے اور اِس فن کے ماہرین پیدا کرنے میں سب سے زیادہ دخل اِسلام کو حاصل ہے۔ دُنیا میں سب سے پہلے ہسپتال مسلمانوں ہی نے قائم کئے اور سب سے پہلے رجسٹرڈ ڈاکٹروں اور سرجنوں کا ایک باقاعدہ نظام بھی اِنہی نے وضع کیا تاکہ مختلف بیماریوں کا صحیح طبی خطوط پر علاج کیا جا سکے۔

اِس سلسلے میں تاجدارِ کائناتﷺ کا فرمان اُمتِ مسلمہ کے لئے مشعلِ راہ بنا۔ اِرشاد ِنبوی ہے

و من تطبّب و لم یعلم منہ الطب قبل ذٰلک فھو ضامنٌ۔ (سنن ابنِ ماجہ : 256)

جس شخص نے علمُ الطب سے ناآگہی کے باوُجود طب کا پیشہ اِختیار کیا تو اُس (کے غلط علاج۔/مضر اثرات) کی ذمہ داری اُسی شخص پر عائد ہوگی۔

اِس فرمان نے جہاں لوگوں کو طب میں تخصیص کے لئے مہمیز دی وہاں اِسلام کی اوّلین صدیوں میں ہی جعل سازوں سے بچنے کے لئے میڈیکل کا ایک باقاعدہ اِمتحانی نظام وضع کرنے میں بھی مدد ملی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں بڑے بڑے ماہرینِ طب اور سرجن پیدا ہوئے۔

دُنیا میں سب سے پہلے ڈاکٹروں اور طبیبوں کے لئے اِمتحانات اور رجسٹریشن کا باقاعدہ نظام عباسی خلافت کے دور میں931ء میں بغداد میں وضع ہوا جسے جلد ہی پورے عالم اِسلام میں نافذ کر دیا گیا۔ واقعہ یوں ہوا کہ ایک جعلی حکیم کے ناقص علاج سے ایک مریض کی جان چلی گئی۔ اُس حادثے کی اِطلاع حکومت کو پہنچی تو تحقیقات کا حکم ہوا۔ پتہ یہ چلا کہ اُس عطائی طبیب نے میڈیکل کی مروّجہ تمام کتب کا مطالعہ نہیں کیا تھا، اور چند ایک کتابوں کو پڑھ لینے بعد مطب کھول کر بیٹھ گیا تھا۔

اُس حادثے کے فوری بعد حکومت کی طرف سے معالجین کی باقاعدہ رجسٹریشن کے لئے ایک بورڈ بنایا گیا، جس کی سربراہی اپنے وقت کے عظیم طبیب ’سنان بن ثابت‘ کے ذمہ ہوئی۔ اُس بورڈ نے سب سے پہلے صرف بغداد شہر کے اطباء کو شمار کیا تو پتہ چلا کہ شہر بھر میں کل 1,000 طبیب ہیں۔ تمام اطباء کا باقاعدہ تحریری اِمتحان اور اِنٹرویو لیا گیا۔ ایک ہزار میں سے 700 معالج پاس ہوئے، چنانچہ رجسٹریشن کے بعد اُنہیں پریکٹس کی اِجازت دے دی گئی اور ناکام ہو جانے والے 300 اطباء کو پریکٹس کرنے سے روک دیا گیا۔

اســلام اور جـدیـد ســائنس

Comments