363💥) انسانی اعضاء کی قیمت
انسانی اعضاء کی قیمت
اوناسس ایک یونانی تاجر تھا. دنیا کی سب سے بڑی جہاز رانی کمپنی کا مالک تھا. زیتون کا کاروبار کرتا تھا.. اسے دنیا کے امیر ترین شخص کا اعزاز حاصل تھا. اسکو ایک عجیب بیماری لگی تھی جس وجہ سے اسکے اعصاب جواب دے گۓ تھے...یہاں تک کہ آنکھوں کی پلکیں بھی خود نہیں اٹھا سکتے تھے ڈاکٹر آنکھیں کھولنے کے لیے پلکوں پر سولیشن لگا کر اوپر چپکا دیتے تھے..رات کو جب آرم کرتے تو سولیشن اتار دیتے تو پلکیں خود بخود نیچے گر جاتی صبح پھر سولیشن لگا دیتے، ایک دن اس سے سب سے بڑی خواھش پوچھی گئی تو کہا کہ" صرف ایک بار اپنی پلکیں خود اٹھا سکوں چاھے اس پر میری ساری دولت ھی کیوں نہ خرچ آجاۓ
اللہ اکبر . صرف ایک بار پلکیں خود اٹھانے کی قیمت دنیا کا امیر ترین شخص اپنی ساری دولت دیتا ہے؟
ھم مفت میں ان گنت بار پلکیں خود اٹھا سکتے ھیں
دل ایک خودکار مشین کی طرح بغیر کسی چارجز کے دن میں ایک لاکھ 3 ھزار 680 مرتبہ دھڑکتا ہے...آنکھیں 1کروڑ 10لاکھ رنگ دیکھ سکتی ھیں
زبان، کان، ناک، ھونٹ، دانت ، ھاتھ ،پاؤں، جگر ،معدہ ، دماغ پھیپھڑے پورے جسم کے اعضاء آٹومیٹک کام کرتے ھیں
میرا اللہ مجھے اتنے سال سے کھلا رہا ہے ، پلا رہا ہے، سُلا رہا ہے، اُٹھا رہا ہے، بِٹھا رہا ہے دنیا کی ہر نعمت دے رہا ہے ۔ لیکن ہم کیوں اس کے قدموں میں اپنا آپ نذر نہیں کر دیتے؟؟
ہم کیوں اس کے در پر جا کر اس کے ممنون و مشکور نہیں بن جاتے؟ اسی لیئے تو اللہ پاک نے فرمایا تھا
اور اللہ کی ذات وہ ہے جس نے بنائے تمہارے لیئے کان، آنکھیں اور دل، لیکن تم بہت کم شکر ادا کرتے ہو۔۔۔۔ سورہ مومنون آیۃ 78
ایسے کریم رب کی ھر نعمت کا شکر کیوں ادا نہ کریں
مفتی محمد تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ کراچی میں گردے کے ایک اسپیشلسٹ ہیں، ان سے ایک مرتبہ میرے بھائی نے پوچھا کہ آپ ایک انسان کے جسم سے گردہ نکال کر دوسرے انسان کو لگا دیتے ہیں، لیکن اب تو سائنس نے بہت ترقی کرلی ہے تو کوئی مصنوعی گردہ کیوں نہیں بنا لیتے، تاکہ دوسرے انسان کے گردے کو استعمال کرنے کی ضرورت ہی نہ پیش آئے؟
وہ ہنس کر جواب دینے لگے، کہ اول تو سائنس کی اس ترقی کے باوجود مصنوعی گردہ بنانا بڑا مشکل ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے گردے کے اندر جو ایک چھلنی لگائی ہے وہ اتنی لطیف اور باریک ہے کہ ابھی تک کوئی ایسی مشین ایجاد نہیں ہوئی جو اتنی لطیف اور باریک چھلنی بنا سکے۔ اگر بالفرض ایسی مشین ایجاد ہو بھی جائے اور ایسی چھلنی بنا بھی لی جائے تو اس پر اربوں روپے خرچ ہوں گے، اور اگر اربوں روپے خرچ کر کے ایسی چھلنی بنا لی جائے تب بھی گردے کے اندر ایک چیز ایسی ہے جو ہماری قدرت سے باہر ہے، وہ چیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے گردے کے اندر ایک دماغ بنایا ہے جو فیصلہ کرتا ہے کہ اس آدمی کے جسم کو کتنا پانی ضرورت ہے ، کتنا پانی جسم میں رکھنا ہے اور کتنا پانی باہر پھینکنا ہے۔ ہر انسان کا گردہ اس انسان کے حالات کے مطابق ، اس کے جسم کے مطابق اور اس کے وزن کے مطابق یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کتنا پانی اس کے جسم میں رہنا چاہیے اور کتنا باہر پھینکنا چاہیے۔ اور اس کا فیصلہ سو فیصد درست ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ اتنا پانی جسم میں روکتا ہے جتنے پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور ضرورت سے زائد پانی پیشاب کی شکل میں جسم سے باہر پھینک دیتا ہے۔ لہذا اگر ہم اربوں روپے لگا کر مصنوعی گردہ بنا بھی لیں تب بھی ہم اس کا وہ دماغ نہیں بنا سکتے جو اللہ تعالیٰ ہر انسان کے گردے میں پیدا فرمایا ہے۔۔۔۔۔
"تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟"
(اسلام اور ہماری زندگی، 2 / 26 - 27)
انسان کے دو گردے جو کہ 4۔5 انچ لمبے اور 4 سے 6 اونس وزنی ہوتے ہیں۔ اور انہیں محفوظ کرنے کے لیے پسلیوں کا پنجرہ لگایا گیا ہے۔۔۔۔ گردوں میں خون کا بہاؤ دل جگر اور دماغ سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔۔۔ خون کو فلٹر کرنے کے لیے ایک چھوٹے سے گردے میں 10 لاکھ نیفرون ہوتے ہیں ۔۔۔ اگر نیفرون کو سرے سے سرا ملا کر رکھا جائے تو اس کی لمبائی 16 کلومیٹر بنتی ہے۔۔۔ یہ بغیر رکے 120 پائنٹ خون ایک گھنٹے میں صاف کردیتے ہیں۔۔۔
اور یہ 400 گیلن خون روزانہ صاف کرتے ہیں۔۔۔ 400 گیلن سے مراد پانی والی بڑے سائز کی ٹینکی۔۔۔ اسطرح یہ خون کو دوبارہ استمال کے قابل بناتے ہیں۔۔۔ فلٹر کے عمل کے لیے گردے میں رکھی گئی صلاحیت ضرورت سے ٪266 زیادہ ہے۔۔۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہوسکتا۔۔۔
کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے۔

Comments
Post a Comment