378) اکابر دیوبند کیا تھے


اکابر دیوبند کیا تھے 

حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ مولانا محمد انوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ مقدمہ بھاولپور کے موقع پر جب حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے قادیانیوں کے کفر پر بے نظیر تقریر فرمائی اور اس میں یہ بھی فرمایا کہ ’’جو چیز دین میں تواتر سے ثابت ہو اُس کا منکر کافر ہے‘‘ تو قادیانیوں کے گواہ نے اس پر اعتراض کیا

آپ کو چاہیے کہ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ پر کفر کا فتویٰ دیں کیونکہ فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت میں علامہ بحرالعلوم رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے متواتر معنوی کا انکار کیا ہے۔

اس وقت بڑے بڑے علماء کا مجمع تھا، سب کو پریشانی ہوئی کہ فواتح الرحموت اس وقت پاس نہیں ہے، اس اعتراض کا جواب کس طرح دیا جائے؟

 مولانا محمد انوری رحمۃ اللہ علیہ جو اس واقعے کے وقت موجود تھے، فرماتے ہیں 

ہمارے پاس اتفاق سے وہ کتاب نہ تھی۔ مولانا عبد اللطیف صاحب ناظم مظاہر العلوم سہارنپور اور مولانا مرتضی حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ حیران تھے کہ کیا جواب دیں گے؟

لیکن اسی حیرانی کے عالم میں حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی آواز گونجی: ’’جج صاحب! لکھیے، میں نے بتیس سال ہوئے، یہ کتاب دیکھی تھی، اب ہمارے پاس یہ کتاب نہیں ہے۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ دراصل یہ فرماتے ہیں کہ حدیث( لاتجتمع امتی علی الضلالۃ) تواتر معنوی کے رُتبے کو نہیں پہنچی، لہٰذا انھوں نے اس حدیث کے متواتر معنوی ہونے کا انکار فرمایا ہے، نہ کہ تواتر معنوی کے حجت ہونے کا۔ ان صاحب نے حوالہ پیش کرنے میں دھوکے سے کام لیا ہے۔ ان کو کہو کہ عبارت پڑھیں ۔ ورنہ میں ان سے کتاب لے کر عبارت پڑھتا ہوں ۔

چنانچہ قادیانی شاہد نے عبارت پڑھی۔ واقعی اس کا مفہوم وہی تھا جو حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا۔ مجمع پر سکتہ طاری ہو گیا اور حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا

جج صاحب! یہ صاحب ہمیں مُفحم (لاجواب) کرنا چاہتے ہیں ۔ میں چونکہ طالب علم ہوں، میں نے دو چار کتابیں دیکھ رکھی ہیں، میں ان شاء اللہ مُفحم نہیں ہونے کا   

ایک طرف علم و فضل اور قوت حافظہ کا یہ محیرالعقول کارنامہ دیکھیے کہ بتیس سال پہلے دیکھی ہوئی کتاب کا ایک جزوی حوالہ کتنی جز رسی کے ساتھ یاد رہا، دوسری طرف اس موقع پر کوئی اور ہوتا تو نہ جانے کتنے بلند بانگ دعوے کرتا، لیکن خط کشیدہ جملہ ملاحظہ فرمائیے کہ وہ تواضع کے کس مقام کی غمازی کر رہا ہے؟ اور یہ محض لفظ ہی نہیں ہیں، وہ واقعتاً اپنے تمام کمالات کے با وصف اپنے آپ کو ایک معمولی طالب علم سمجھتے تھے اور اس دعائے نبوی کے مظہر تھے کہ 

اللّٰہم اجعلنی فی عینی صغیرا وفی أعین النّاس کبیرا

۔🌹 حضرت مولانا محمد انوری رحمۃ اللہ علیہ ہی راوی ہیں کہ ایک دفعہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کشمیر تشریف لے جا رہے تھے، بس کے انتظار میں سیالکوٹ اڈّے پر تشریف فرما تھے، ایک پادری آیا اور کہنے لگا کہ آپ کے چہرے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ مسلمانوں کے بڑے عالم دین ہیں ۔ فرمایا ’’نہیں ! میں طالب علم ہوں ‘‘ اس نے کہا ’’آپ کو اسلام کے متعلق علم ہے؟‘‘ فرمایا ’’کچھ کچھ‘‘

 پھر اُن کی صلیب کے متعلق فرمایا کہ ’’تم غلط سمجھے ہو۔ اس کی یہ شکل نہیں ہے۔‘‘ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر چالیس دلائل دیے۔ دس قرآن سے دس تورات سے، دس انجیل سے اور دس عقلی۔ وہ پادری آپ کی تقریر سن کر کہنے لگا کہ اگر مجھے اپنے مفادات کا خیال نہ ہوتا تو میں مسلمان ہو جاتا، نیز یہ کہ مجھے خود اپنے مذہب کی بہت سی باتیں آپ سے معلوم ہوئیں

Comments