قیامت کا ایک دن کتنا ہوگا
سفرِ معراج میں اِس محیر العقول رفتار سے روانگی کا راز عقلِ اِنسانی میں نہیں سما سکتا۔ یہ اللہ ربّ العزت کی قدرتِ کاملہ ہی کا ظہور تھا جس کی بدولت ایسا ممکن ہوا۔
مکان و زمان (سپیس ٹائم) کے نظریئے میں وقت کی اِضافیت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ مختلف اَفراد یا مختلف مکان پر وقت کا مختلف رفتار سے گزرنا باقاعدہ ایک علمی حیثیت میں تسلیم کیا جا چکا ہے۔ اِضافیتِ زمان پر اللہ ربّ العزت کی آخری و حتمی وحی میں بہت سی آیات موجود ہیں۔ طئ زمانی و مکانی کے ضمن میں آنے والی اَمثلہ کا تعلق بھی اِضافیتِ زماں ہی سے ہے۔ تاہم یہاں ہم ان کے علاوہ کچھ اور آیاتِ مبارکہ کا ذِکر بھی کریں گے جن میں واضح طور پر یہ بیان ہوا ہے کہ وقت اور اُس کے گزرنے کی رفتار کی حیثیت محض ہمارے اِدراک تک محدود ہے۔ ہمارا اِدراک ہی وقت کی تعریف کرتا ہے اور یہی اُس کی رفتار کو تیز یا آہستہ قرار دیتا ہے۔ دراصل وقت محض ایک ایسا اِدراک ہے جس کا اِنحصار واقعات کی ترکیب پر ہوتا ہے اور واقعات کی ترتیب ہی وقت کے ایک سلسلے کا باعث بنتی ہے۔
روزِ قیامت۔ ۔ ۔ اِضافیتِ زمان ۔۔۔ قیامت کا دن بھی طئ زمانی ہی کی ایک صورت میں برپا ہوگا، جس میں وقت کے گزرنے کی شرح مختلف ہوگی۔ وہ دن بعض لوگوں کے لئے محض پلک جھپکنے میں گزر جائے گا اور بعض دُوسرے لوگوں کے لئے ایک ہزار یا پچاس ہزار سال تک طویل ہو جائے گا۔ دراصل وقت محض ایک نفسی اِدراک ہے جسے ہر فرد اپنے مخصوص حالات کے پس منظر میں محسوس کرتا ہے۔ اللہ کے برگزیدہ و محبوب بندوں کے لئے وہ دن مشاہدۂ حق کے اِستغراق میں نہایت تیزی سے گزر جائے گا جبکہ دُوسری طرف عام لوگوں پر مشاہدۂ حق کی بجائے کرب و اذیت کا اِحساس غالب ہوگا، جس کی بدولت اُن کے لئے وہ دِن حسبِ حالت ایک ہزار یا پچاس ہزار سال پر محیط ہوگا۔
مادّی کائنات میں طبیعی قوانین کے تحت روشنی کی رفتار کے تناسب سے تیز رفتاری سے سفر کرنے والے اَجسام پر وقت نہایت تیزی سے گزر جاتا ہے جبکہ مشاہدۂ حق میں مصروف اللہ کے محبوب بندوں پر حالتِ سکون میں ہی وقت یوں گزرتا ہے کہ صدیاں لمحوں میں تبدیل ہوتی دِکھائی دیتی ہیں
مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اُڑتے جاتے ہیں
مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں
قرآنِ مجید میں روزِ قیامت کے مختلف رفتاروں سے گزرنے کا ذِکر آیا ہے۔ اللہ کے نیکو کاروں پر وہ دِن پلک جھپکنے میں ختم ہو جائے گا، اِرشاد فرمایا
وَ مَآ أَمرُ السَّاعَۃِ إِلَّا کَلَمحِ البَصَرِ أَو ھُوَ أَقرَبُ إِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَي قَدیرٌ (النحل، 16:77)اور قیامت کے بپا ہونے کا واقعہ اِس قدر تیزی سے ہوگا جیسے آنکھ کا جھپکنا یا اُس سے بھی تیز تر، بیشک اللہ ہر چیز پر بڑا قادر ہے
اِسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا
وَ مَا أَمرُنَا إِلَّا وَاحِدَۃٌ کَلَمحٍم بِالبَصَرِ (القمر،54:50)
اور ہمارا حکم تو یکبارگی ایسے (واقع) ہو جائے گا جیسے آنکھ کا جھپکنا (کہ اُس میں دیر ہی نہیں لگتی)
وُہی دِن جو اللہ کے نیکو کار اور اِطاعت گزار بندوں پر پلک جھپکنے میں گزر جائے گا دُوسرے لوگوں پر اُس کی طوالت ہزار برس ہوگی۔
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے
إِنَّ یَومًا عِندَ رَبِّکَ کَأَلفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ (الحج، 22:47)
(جب عذاب کا وقت آئے گا) تو (عذاب کا) ایک دن آپ کے رب کے ہاں ایک ہزار سال کی مانند ہے (اُس حساب سے) جو تم شمار کرتے ہو
ایک اور مقام پر فرمایا
ثُمَّ یَعرُجُ إِلَیہِ فِی یَومٍ کَانَ مِقدَارُہٗ أَلفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ (السجدہ، 32:5)
پھر امر اُس کے پاس پہنچ جائے گا ایک ایسے دِن میں جو تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال کا ہوگا
یومِ قیامت کسی پر پلک جھپکنے میں گزر جاتا ہے اور کسی پر وہ ہزار برس کے برابر ہوگا، کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن پر اُس دِن وقت کی رفتار اِنتہائی آہستہ ہوگی اور وہ اُس ایک دِن کو پچاس ہزار سال کے برابر خیال کریں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کے نامۂ اعمال اُن کے بائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے اور وہ عذاب کی وحشت سے اِس قدر دہشت زدہ ہوں گے کہ ایک ایک پل اُن پر اجیرن ہو جائے گا اور وہ ایک دِن اُن کے لئے پچاس ہزار برس کے مساوی ہو گا۔
اِرشادِ ربُّ العالمین ہے
تَعرُجُ المَلَائِکَۃُ وَالرُّوحُ إِلَیہِ فِی یَومٍ کَانَ مِقدَارُہٗ خَمسِینَ أَلفَ سَنَۃٍ (المعارج، 70:4)
(روزِ قیامت وہ وقت ہو گا جب) فرشتے اور جبرئیل اُس کی طرف عروج کریں گے (اور یہ) اُس دن (ہو گا) جس کا اندازہ (دنیا کے) پچاس ہزار سال ہے
اســلام اور جـدیـد ســائنس
Comments
Post a Comment