یوں تو سال کے بارہ مہینے اور ہر مہینے کے تیس دن اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے ہیں لیکن اللہ جل شانہ نے اپنے فضل و کرم سے پورے سال کے بعض ایام کو خصوصی فضیلت عطاء فرمائی ہے اور ان ایام میں کچھ مخصوص احکام مقرر فرمائے ہیں یہ محرم کا بھی ایک ایسا مہینہ ہے جس کو قرآن کریم نے حرمت والا مہینہ قرار دیا ہے
۔⭐️عاشورا کا روزہ :/ خاص طور پر محرم کی دسویں تاریخ جس کو عام طور پر عاشورا کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں دسواں دن یہ دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و برکت کا خصوصی طور پر حامل ہے جب تک رمضان کے روزے فرض نہیں ہوئے تھے اس وقت تک عاشورا کا روزہ رکھنا مسلمانوں پر فرض قرار دیا گیا تھا بعد میں جب رمضان کے روزے فرض ہو گئے تو اس وقت عاشورا کے روزے کی فرضیت منسوخ ہو گئی لیکن حضور اکرم ﷺ نے عاشوار کے دن روزہ رکھنے کو سنت اور مستحب قرار دیا ایک حدیث میں
حضور اکرم ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ مجھے اللہ جل شانہ کی رحمت سے یہ امید ہے کہ جو شخص عاشورا کے دن روزہ رکھے گا تو اس کے پچھلے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا عاشورا کے روزے کی اتنی بڑی فضیلت آپ ﷺ نے بیان فرمائی
۔⭐️یوم عاشورا ایک مقدس دن ہے :/ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عاشورا کے دن کی فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ اس دن میں نبی کریم ﷺ کے مقدس نواسے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا اس شہادت کے پیش آنے کی وجہ سے عاشورا کا دن مقدس اور حرمت والا بن گیا ہے یہ بات صحیح نہیں خود حضور اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں عاشورا کا دن مقدس دن سمجھا جاتا تھا اور آپ ﷺ نے اس کے بارے میں احکام بیان فرمائے تھے اور قرآن کریم نے بھی اس کی حرمت کا اعلان فرمایا تھا جبکہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ تو حضور اکرم ﷺ کی وفات کے تقریباً ساٹھ سال کے بعد پیش آیا لہذا یہ بات درست نہیں کہ عاشورا کی حرمت اس واقعہ کی وجہ سے ہے بلکہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا اس روز واقع ہونا یہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی مزید فضیلت کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شہادت کا مرتبہ اس دن میں عطا فرمایا جو پہلے ہی سے مقدس اور محترم چلا آرہا تھا بہر حال یہ عاشورا کا دن ایک مقدس دن ہے
۔⭐️اس دن کی فضیلت کی وجوہات: اس دن کے مقدس ہونے کی وجہ کیا ہے؟ :/ یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں اس دن کو اللہ تعالیٰ نے دوسرے دنوں پر کیا فضیلت دی ہے؟ اور اس دن کا کیا مرتبہ رکھا ہے؟ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں ہمیں تحقیق میں پڑنے کی ضرورت نہیں بعض لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ
جب حضرت آدم علیہ السلام دنیا میں اترے تو وہ عاشورا کا دن تھا
جب حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی طوفان کے بعد خشکی میں اتری تو وہ عاشورا کا دن تھا
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب آگ میں ڈالا گیا اور اس آگ کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے گلزار بنایا تو وہ عاشورا کا دن تھا اور
قیامت بھی عاشورا کے دن قائم ہوگی یہ باتیں لوگوں میں مشہور ہیں لیکن ان کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں کوئی صحیح روایت ایسی نہیں ہے جو یہ بیان کرتی ہو کہ یہ واقعات عاشوراء کے دن پیش آئے تھے
۔⭐️حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون سے نجات ملی صرف ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ فرعون سے ہوا اور پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام دریا کے کنارے پر پہنچ گئے اور پیچھے سے فرعون کا لشکر آگیا تو اللہ تعالیٰ نے اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ اپنی لاٹھی دریا کے پانی پر ماریں اس کے نتیجے میں دریا میں بارہ راستے بن گئے اور ان راستوں کے ذریعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا لشکر دریا کے پار چلا گیا اور جب فرعون دریا کے پاس پہنچا اور اس نے دریا میں خشک راستے دیکھے تو وہ بھی دریا کے اندر چلا گیا لیکن جب فرعون کا پورا لشکر دریا کے بیچ میں پہنچا تو وہ پانی مل گیا اور فرعون اور اس کا پورا لشکر غرق ہوگیا یہ واقعہ عاشورا کے دن پیش آیا اس کے بارے میں ایک روایت موجود ہے جو نسبتا بہتر روایت ہے لیکن اس کے علاوہ جو دوسرے واقعات ہیں ان کے عاشوراء کے دن میں ہونے پر کوئی اصل اور بنیاد نہیں
۔⭐️فضیلت کے اسباب کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اس تحقیق میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ کس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس دن کو فضیلت بخشی؟ بلکہ یہ سب اللہ جل شانہ کے بنائے ہوئے ایام ہیں وہ جس دن کو چاہتے ہیں اپنی رحمتوں اور برکتوں کے نزول کے لئے منتخب فرما لیتے ہیں وہی اس کی حکمت اور مصلحت کو جاننے والے ہیں ہمارے اور آپ کے ادراک سے ماوراء بات ہے اس لئے اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں
۔⭐️اس روز سنت والے کام کریں :/ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس دن کو اپنی رحمت اور برکت کے نزول کے لئے منتخب کر لیا تو اس کا تقدس یہ ہے کہ اس دن کو اس کام میں استعمال کیا جائے جو کام نبی کریم ﷺ کی سنت سے ثابت ہو سنت کے طور پر اس دن کے لئے صرف ایک حکم دیا گیا ہے کہ اس دن روزہ رکھا جائے، چنانچہ ایک حدیث میں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اس دن میں روزہ رکھنا گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا بس یہ ایک حکم سنت ہے اس کی کوشش کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطاء فرمائے ! آمین یا رب العالمین
۔⭐️یہودیوں کی مشابہت سے بچیں :/ اس میں ایک مسئلہ اور بھی ہے وہ یہ کہ حضور اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں جب بھی عاشورا کا دن آتا تو آپ ﷺ روزہ رکھتے لیکن وفات سے پہلے جو عاشورا کا دن آیا تو آپ ﷺ نے عاشورا کا روزہ رکھا اور ساتھ میں یہ ارشاد فرمایا کہ دس محرم کو ہم مسلمان بھی روزہ رکھتے ہیں اور یہودی بھی روزہ رکھتے ہیں اور یہودیوں کے روزہ رکھنے کی وجہ وہی تھی کہ اس دن میں چونکہ بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ فرعون سے نجات دی تھی اس کے شکرانے کے طور پر یہودی اس دن روزہ رکھتے تھے بہر حال حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہم بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں اور یہودی بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے ساتھ ہلکی سی مشابہت پیدا ہو جاتی ہے اس لئے اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو صرف عاشورا کا روزہ نہیں رکھوں گا بلکہ اس کے ساتھ ایک روزہ اور ملاؤں گا، 9 محرم یا 11 محرم کا روزہ بھی رکھوں گا تاکہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت ختم ہو جائے
۔⭐️ایک کے بجائے دو روزے رکھیں :/ لیکن اگلے سال عاشوراء کا دن آنے سے پہلے حضور اکرم ﷺ کا وصال ہوگیا اور آپ ﷺ کو اس پر عمل کرنے کی نوبت نہیں ملی لیکن چونکہ حضور اکرم ﷺ نے یہ بات ارشاد فرما دی تھی اس لئے حضرات صحابہ کرام ﺭﺿﻮﺍﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﻢ ﺍﺟﻤﻌﯿﻦ نے عاشوراء کے روزے میں اس بات کا اہتمام کیا اور 9 محرم یا 11 محرم کا ایک روزہ اور ملا کر رکھا اور اس کو مستحب قرار دیا اور تنہاء عاشوراء کے روزہ رکھنے کو حضور اکرم ﷺ کے اس ارشاد کی روشنی میں مکروہ تنزیہی اور خلاف اولیٰ قرار دیا یعنی اگر کوئی شخص صرف عاشوراء کا روزہ رکھ لے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا بلکہ اس کو عاشوراء کے دن روزہ کا ثواب ملے گا لیکن چونکہ آپ ﷺ کی خواہش دو روزے رکھنے کی تھی اس لئے اس خواہش کی تکمیل میں بہتر یہ ہے کہ ایک روزہ اور ملا کر دو روزے رکھے جائیں
۔⭐️عبادت میں بھی مشابہت نہ کریں :/ رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد میں ہمیں ایک سبق اور ملتا ہے وہ یہ کہ غیر مسلموں کے ساتھ ادنی مشابہت بھی حضور اکرم ﷺ نے پسند نہیں فرمائی حالانکہ وہ مشابہت کسی برے اور ناجائز کام میں نہیں تھی بلکہ ایک عبادت میں مشابہت تھی کہ اس دن جو عبادت وہ کر رہیں ہم بھی اس دن وہی عبادت کر رہیں لیکن آپ ﷺ نے اس کو بھی پسند نہیں فرمایا کیوں؟ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جو دین عطا فرمایا ہے وہ سارے ادیان سے ممتاز ہے اور ان پر فوقیت رکھتا ہے لہذا ایک مسلمان کا ظاہر و باطن بھی غیر مسلم سے ممتاز ہونا چاہیے اس کا طرز عمل، اس کی چال ڈھال، اس کی وضع قطع، اس کا سراپا، اس کے اعمال، اس کے اخلاق، اس کی عبادتیں وغیرہ ہر چیز غیر مسلموں سے ممتاز ہونی چاہیے، چنانچہ احادیث میں یہ احکام جابجا ملیں گے جس میں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ غیر مسلموں سے الگ طریقہ اختیار کرو
۔⭐️مثلا فرمایا خالفواالمشرکین (صحیح بخاری کتاب اللباس باب فی العمائم)
ترجمہ : یعنی مشرکین جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھیراتے ہیں ان سے اپنا ظاہر و باطن الگ رکھو
۔⭐️مشابہت اختیار کرنے والا انہی میں سے ہے :/ جب عبادت کے اندر اور بندگی اور نیکی کے کام میں بھی نبی کریم ﷺ نے مشابہت پسند نہیں فرمائی تو دوسرے کاموں میں اگر مسلمان ان کی مشابہت اختیار کریں تو یہ کتنی بری بات ہوگی اگر یہ مشابہت جان بوجھ کر اس مقصد سے اختیار کی جائے تاکہ میں ان جیسا نظر آؤں تو یہ گناہ کبیرہ ہے
۔⭐️حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا من تشبه بقوم فهو منهم (ابوداؤد شریف کتاب الباس باب فی لبس الشهرة)
ترجمہ : جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ اسی قوم کے اندر داخل ہے
۔⭐️مثلاً : اگر کوئی شخص انگریزوں کا طریقہ اس لئے اختیار کرے تاکہ میں دکھنے میں انگریز نظر آؤں تو یہ گناہ کبیرہ ہے لیکن اگر دل میں یہ نیت نہیں ہے کہ میں ان جیسا نظر آؤں بلکہ ویسے ہی مشابہت اختیار کرلی تو یہ مکروہ ضرور ہے
۔⭐️غیر مسلموں کی نقالی چھوڑ دیں :/ افسوس ہے کہ آج مسلمانوں کو اس حکم کا خیال اور پاس نہیں رہا اپنے طریقہ کار میں، وضع قطع میں، لباس پوشاک میں، اٹھنے بیٹھنے کے انداز میں، کھانے پینے کے طریقوں میں، زندگی کے ہر کام میں ہم نے غیر مسلموں کے ساتھ مشابہت اختیار کرلی ہے، ان کی طرح کا لباس پہن رہے ہیں، ان کی زندگی کی طرح اپنی زندگی کا نظام بناتے ہیں، ان کی طرح کھاتے پیتے ہیں، ان کی طرح بیٹھتے ہیں، زندگی کے ہر کام میں ان کی نقالی کو ہم نے ایک فیشن بنا لیا ہے، آپ اندازہ کریں کہ حضور اکرم ﷺ نے عاشوراء کے دن روزہ رکھنے میں یہودیوں کے ساتھ مشابہت کو پسند نہیں فرمایا اس سے سبق ملتا ہے کہ ہم زندگی کے دوسرے شعبوں میں غیر مسلموں کی جو نقالی اختیار کر رکھی ہے خدا کے لئے اس کو چھوڑیں اور جناب رسول اللہ ﷺ کے طریقوں کی اور حضرات صحابہ کرام ﺭﺿﻮﺍﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﻢ ﺍﺟﻤﻌﯿﻦ کی نقالی کریں ان لوگوں کی نقالی مت کریں جو روزانہ تمہاری پٹائی کرتے ہیں جنہوں نے تم پر ظلم اور استبداد کا شکنجہ کسا ہوا ہے جو تمہیں انسانی حقوق دینے کو تیار نہیں ان کی نقالی کر کے آخر تمہیں کیا حاصل ہوگا؟ ہاں دنیا میں بھی ذلت ہوگی اور آخرت میں رسوائی ہوگی اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس سے محفوظ رکھے ! آمین یا رب العالمین
۔⭐️عاشوراء کے روز دوسرے اعمال ثابت نہیں :/ بہر حال اس مشابہت سے بچتے ہوئے عاشوراء کا روزہ رکھنا بڑی فضیلت کا کام ہے عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کا حکم تو برحق ہے لیکن روزے کے علاوہ عاشوراء کے دن لوگوں نے جو اور اعمال اختیار کر رکھے ہیں ان کی قرآن کریم اور سنت میں کوئی بنیاد نہیں، مثلاً : بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ عاشوراء کے دن کھچڑا پکنا ضروری ہے اگر کھچڑا نہیں پکایا تو عاشوراء کی فضلیت ہی حاصل نہیں ہوگی اس قسم کی کوئی بات نہ تو حضور اکرم ﷺ نے بیان فرمائی اور نہ ہی حضرات صحابہ کرام ﺭﺿﻮﺍﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﻢ ﺍﺟﻤﻌﯿﻦ نے اور حضرات تابعین رحمتہ اللہ علیہ نے اور بزرگان دین نے اس پر عمل کیا صدیوں تک اس عمل کا کہیں وجود نہیں ملتا
۔⭐️عاشوراء کے دن گھر والوں پر وسعت کرنا :/ ہاں ایک ضعیف اور کمزور حدیث ہے مضبوط حدیث نہیں ہے اس حدیث میں حضور اکرم ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ جو شخص عاشوراء کے دن اپنے گھر والوں پر اور ان لوگوں پر جو اس کے عیال میں ہیں، مثلاً : اس کے بیوی بچے، گھر کے ملازم وغیرہ، ان کو عام دنوں کے مقابلے میں عمدہ اور اچھا کھانا کھلائے اور کھانے میں وسعت اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی روزی میں برکت عطا فرمائیں گے یہ حدیث اگرچہ سند کے اعتبار سے مضبوط نہیں ہے لیکن اگر کوئی شخص اس پر عمل کرے تو کوئی مضائقہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ اس عمل پر جو فضیلت بیان کی گئی ہے وہ انشاء اللہ حاصل ہوگی، لہذا اس دن گھر والوں پر کھانے میں وسعت کرنی چاہیے اس کے آگے لوگوں نے جو چیزیں اپنی طرف سے گھڑلی ہیں ان کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں
۔⭐️گناہ کر کے اپنی جانوں پر ظلم مت کرو :/ قرآن کریم نے جہاں حرمت والے مہینوں کا ذکر فرمایا ہے، اس جگہ پر ایک عجیب جملہ یہ ارشاد فرمادیا کہ فلا تظلمو فیهن انفسکم (سورہ التوبۃ آیت نمبر 36)
ترجمہ : یعنی ان حرمت والے مہینوں میں تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو
۔⭐️ظلم نہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ ان مہینوں میں گناہوں سے بچو بدعات اور منکرات سے بچو چونکہ اللہ تعالیٰ تو عالم الغیب ہیں جانتے تھے کہ ان حرمت والے مہینوں میں لوگ اپنی جانوں پر ظلم کریں گے اور اپنی طرف سے عبادت کے طریقے گھڑ کر ان پر عمل کرنا شروع کر دیں گے اس لئے فرمایا کہ اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو
۔⭐️دوسروں کی مجالس میں شرکت مت کرو :/ شیعہ حضرات اس مہینے میں جو کچھ کرتے ہیں وہ اپنے مسلک کے مطابق کرتے ہیں لیکن بہت سے اہل سنت حضرات بھی ایسی مجلسوں میں اور تعزیوں میں اور ان کاموں میں شریک ہو جاتے ہیں جو بدعت اور منکر کی تعریف میں آجاتے ہیں قرآن کریم نے تو صاف حکم دیدیا کہ ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو بلکہ ان اوقات کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اور اس کے ذکر میں اور اس کے لئے روزہ رکھنے میں اور اس کی طرف رجوع کرنے میں اور اس سے دعائیں کرنے میں صرف کرو اور ان فضولیات سے اپنے آپ کو بچاؤ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس مہینے کی حرمت اور عاشوراء کی حرمت اور عظمت سے فائدہ اٹھانے کی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے اور اپنی رضا کے مطابق اس دن کو گزارنے کی توفیق عطا فرمائے ! آمین یا رب العالمین ۔۔۔
Comments
Post a Comment