اگر اِسلامی طرزِ زندگی کو مکمل طور پر اپنایا جائے تو انسان بہت سی نفسیاتی بیماریوں پر قابو پا سکتا ہے۔ اِسلامی طرزِ حیات اِنسان کو ذہنی تناؤ اور بوجھ سے آزاد کرتا ہے اور اِنسان کو زندگی کی دلچسپیوں کو برقرار رکھنے کے قابل بناتا ہے۔ اِسلام نے انسان کو نفسیاتی دباؤ اور اُلجھنوں سے دُور رہنے اور خوشحال زندگی بسر کرنے کے مواقع فراہم کرنے پر بہت زور دیا ہے۔
قرآنِ حکیم میں ارشاد ہوتا ہے
اَلَّذِینَ یُنفِقُونَ فی السَّرّآء وَ الضَّرّآء وَ الکَاظِمِینَ الغَیظَ وَ العَافِینَ عَنِ النَّاسِ۔
(آل عمران، 3:134)
یہ وہ لوگ ہیں جو (معاشرے سے مفلسی کے خاتمے کے لئے) فراخی اور تنگی (دونوں حالتوں) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (اُن کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں۔
سرکارِ مدینہﷺ نے فرمایا
إنّ الغضبَ من الشیطانِ، و إن الشیطان خُلِق من النار، و إنما تطفئ النار بالماء، فإذا غضب أحدکم فلیتوضّاء۔ (ابوداؤد، 2:312)
غصہ شیطانی عمل ہے اور شیطان کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے، جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو وہ وضو کرے (تاکہ غصہ جاتا رہے)۔
غضب و غصہ پر قابو پانے سے اعصابی تناؤ اور ذہنی کھنچاؤ پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے جو دِل کے امراض سے بچاؤ کی بھی ایک اہم صورت ہے۔ اِسی طرح غریبوں اور ضرورت مندوں کی فلاح کے لئے روپیہ خرچ کرنے سے اور دُوسروں کو معاف کر دینے کے عمل سے اِنسان کو رُوحانی خوشی و سرمستی حاصل ہوتی ہے۔ جس سے زندگی کی مسرّتیں اور رعنائیاں دوبالا ہو جاتی ہیں۔
حسد بہت سی ذہنی پریشانیوں کا منبع ہے، اِسلام نے اپنے ماننے والوں کو سختی سے حسد سے روکا ہے۔ تاجدارِ رحمت ﷺ کا اِرشادِ گرامی ہے
إیاکم و الحسد، فإن الحسد یأکل الحسنات کما تأکل النار الحطب۔ (سنن ابی داؤد، 2:324)
اپنے آپ کو حسد سے بچاؤ، بیشک حسد تمام نیکیوں اور ثواب کو اِس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو۔
اِسی طرح لالچ اور خود غرضی بھی بہت سا ذِہنی تناؤ اور پریشانیاں پیدا کرتی ہے۔ اِن نفسانی آلائشوں سے بھی اسی طرح منع کیا گیا ہے اور اُن کی بجائے اطمینان و سکون کی تلقین کی گئی ہے۔
اِسلام کی یہی تعلیم خوشگوار زندگی کی اَساس ہے جو پُر امن معاشرے اور صحت مند ماحول کے قیام کے لئے لابدّی ہے۔ علاوہ ازیں زندگی کے ہر معاملے میں توازن پیدا کرنا چاہئے اور معمولاتِ حیات میں شدّت پیدا کرنے یا ضرورت سے زیادہ نرمی سے گریز بھی نہایت لازمی ہے۔
قرآنِ حکیم میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے
یُرِیدُ اللہُ بِکُمُ الیُسرَ وَ لَا یُرِیدُ بِکُمُ العُسرَ۔ (البقرہ، 2:185)
اللہ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور وہ تمہارے لئے دُشواری نہیں چاہتا۔
آقائے دوجہاںﷺ کا ارشادِ گرامی ہے
"ھلک المتنطّعون"، قالھا ثلاثاً۔ (الصحیح لمسلم، 2:339)
"مشکلات پر اِصرار کرنے والے تباہ ہو جاتے ہیں"۔ آپ نے یہ الفاظ تین مرتبہ فرمائے۔
اِسلام ہر مسلمان کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیت اور طاقت سے زیادہ بوجھ اپنے سر نہ لے۔ قرآن مجید میں ایک دعا کی صورت میں ارشاد ہوتا ہے:
رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ۔(البقرہ، 2:286)
اے ہمارے پروردگار! اور ہم پر اِتنا بوجھ (بھی) نہ ڈال جسے اُٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں۔
اگرچہ اِسلام نے جسمانی محنت و مشقت کی بھرپور تائید کی ہے، تاہم اُس کی ساری تائید صرف اور صرف توازن اور میانہ روی کے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے ہے۔ اسلامی طرز حیات میں سے یہ وہ چند مثالیں تھیں جو اِسلام کی تجویز کردہ، اَعصابی تناؤ سے آزاد اور متوازن زندگی کی تفصیل و توجیہہ بیان کرتی ہیں۔
اســلام اور جـدیـد ســائنس
Comments
Post a Comment