۔323🌻) خواتین کے ذریعہ علم کی سرپرستی


فروغِ علم کا ایک اہم ذریعہ یہ ہے کہ تعلیم و تربیت کے لیے مکاتب، مدارس، رباطات، ادارے اور مراکز قائم کیے جائیں، ان کے لیے اوقاف خاص کیے جائیں، ان میں تعلیم دینے والوں کے لیے وظائف مقرر کیے جائیں اور تعلیم حاصل کرنے والوں کے  مصارف برداشت کیے جائیں۔جن لوگوں نے خود کو علمی کاموں کے لیے وقف کر رکھا ہو انہیں معاشی پریشانی سے آزاد رکھا جائے۔ اسلامی تاریخ بتاتی ہے کہ حکم راں طبقے سے تعلق رکھنے والی اور دولت و ثروت سے بہرہ ور خواتین نے ہر دور میں یہ خدمات انجام دی ہیں۔

 ۔📌 زمرّد خاتون(۵۵۷ھ)، جو دمشق کے حکم راں الملک دقّاق کی بہن تھیں، انھوں نے ایک مدرسہ قائم کیا تھا، جو المدرسۃ الخاتونیۃ البرانیۃ کے نام سے معروف تھا۔[الزرکلی، الاعلام،3/49 ]

۔📌 عائشہ ہانم ( بارہویں صدی ہجری) نے1154ھ میں ایک مسافر خانہ تعمیر کرایا تھا جس کو ’ سبیل عائشہ ہانم ‘ کہا جاتا تھا۔ اس کے اوپر انھوں نے قرآن کی تعلیم کے لیے ایک مکتب قائم کیا تھا اور ان دونوں کے مصارف کے لیے بہت سی جائیدادیں وقف کر دی تھیں اور اپنے ورثاء کو ان کا متولّی بنا دیا تھا

[ عمر رضا کحالۃ،اعلام النساء،3/194]

۔📌یمن کے سلطان الملک المظفر کی بیوی مریم نے زبید میں المدرسۃ المجاھدیۃ قایم کیا، اس میں یتیم اور غریب بچوں اور دیگر طالب علموں کو داخل کیا، اس میں امام، مؤذن اور معلّم کو رکھا اوراس کے مصارف کے لیے وقف کا معقول نظم کیا۔[عمر رضا کحالۃ،اعلام النساء،5/40

۔📌السیدۃ ملکۃ بنت ابراھیم البعلیۃ الدمشقیۃ نے خواتین کے لیے مخصوص ایک رباط قائم کیا، جس میں قرآن مجید کے حفظ اور حدیث نبوی کی تعلیم کا نظم کیا۔[ عمر رضا کحالۃ،اعلام النساء،2/3]

۔📌 مغل حکم راں اورنگ زیب ( ۱۱۱۸ھ )کی صاحب زادی زیب النساء نے شیخ صفی الدین ولی قزوینی سے قرآن مجید کا فارسی زبان میں ترجمہ کروایا تھا ۔ ساتھ ہی امام رازی (م 606ھ) کی تفسیر کبیر کا بھی فارسی ترجمہ کروایا تھا۔[ڈاکٹر علاؤ الدین خاں، عہد اورنگ زیب میں علماء کی خدمات،ص۱۷۳۔۱۷۴،ڈاکٹر ظفر الاسلام ،مقالہ: عہد وسطیٰ کے ہندوستان کی فارسی تفسیریں۔ ایک تعارفی مطالعہ، سہ ماہی علوم القرآن، علی گڑھ، جولائی۔ دسمبر ۱۹۸۵ء،ص۱۳۳]

۔📌 ماضی قریب میں ریاست بھوپال کی حکم راں نواب خواتین نے علمی سرپرستی کی مثال قائم کی ہے۔انہوں نے خوب فیاضی سے تعلیمی اداروں کی مالی امداد کی ہے اور خطیر سرمایہ صرف کرکے علمی کام کرایے ہیں

  ۔۔📌نواب سکندر جہاں بیگم(1808ء) نے شیخ احمد داغستانی سے ترکی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کروایا۔

   ۔۔۔ 📌ان کی صاحب زادی اور جانشین نواب شاہ جہاں بیگم نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج علی گڑھ کا بھر پور مالی تعاون کیا۔ انہوں نے مولانا جمال الدین وزیر ریاست بھوپال سے پشتو زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کروایا۔[ عبدالصمد صارم الازھری،تاریخ التفسیر، ادارۂ علمیہ لاہور ، ۱۹۶۶ئ]

 ۔۔۔📌 ان کی صاحب زادی اور جانشین نواب سلطان جہاں بیگم نے بہت سی دینی درس گاہوں اور تعلیمی اداروں کو مالی امداد فراہم کی، جن میں علی گڑھ، دیوبند اور ندوہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔[مولانا محمداسلم جیراج پوری ،خواتین ، ص۲۲۹۔۲۳۶]انہوں نے ہی سیرۃ النبی کی تالیف کے لیے علامہ شبلی نعمانیؒ کو گراں قدر مالی تعاون دیا۔[ ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی، آثار شبلی، دار المصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ،]

۔📌 جس زمانے میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی مرکزی عمارت زیر تعمیر تھی،ریاست بہاول پور کی خاتون محترمہ فلک احتجاب نے اس مد میں اپنے جیبِ خاص سے پچاس ہزار روپے عطا کیے تھے _ علامہ شبلی نعمانیؒ نے انہیں ’زندہ زبیدہ خاتون‘ کا لقب دیا ہے اور ان کی فیاضی اور علم دوستی کی تحسین کی ہے

 [مقالات شبلی، ۸؍۸۸]

Comments