اسلام اور جینیاتی انجینئرنگ
دورِ جدید کی طبی تحقیقات میں جینیاتی انجینئرنگ کو خاص مقام حاصل ہے ۔ کسی شخص کے جینز کے مطالعہ سے اُس کا نسب، اُس کی زندگی کی تمام بیماریاں اور اُس سے متعلق بے شمار ایسے حقائق جنہیں عام حالات میں معلوم کرنا ناممکن ہے، جینیاتی انجینئرنگ ہی کی بدولت طشت از بام ہو رہے ہیں۔ ڈی این اے کی تھیوری سے یہ بات بھی ثابت ہوئی ہے کہ اِنسانی جسم کے ہر خلۓ میں انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا کے دس کروڑ صفحات کے برابر معلومات تحریر کی جا سکتی ہیں۔ یہ دریافت جہاں سائنسی تحقیقات میں ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے، وہاں اِسلامی عقائد کی تصدیق و تائید بھی کرتی جا رہی ہے۔ آج کی طبی تحقیق جن ڈی این اے کوڈز کو بے نقاب کر رہی ہے، ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ یہی تحقیق جب اپنے نکتۂ کمال کو پہنچے گی اور ہم ایسے آلات اِیجاد کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جن سے کسی بھی اِنسان کی گزری ہوئی زندگی کے اچھے بُرے اعمال طشت از بام کئے جا سکیں گے۔
یوں طبی میدان میں کی جانے والی سائنسی پیش رفت کا فرسِ تحقیق اِس رُخ پر گامزن ہے اور جس دن اِس ممکن نے حقیقت کا رُوپ دھار لیا ، دینِ اسلام کا ایک اور بنیادی ستون ’عقیدۂ آخرت‘ سائنسی توجیہ سے مزین ہو کر غیر مسلم محققین پر بھی اِسلام کی حقانیت آشکار کردے گا۔
روزِ قیامت جب تمام اِنسان جِلائے جائیں گے اور اُن سے حساب کتاب کیا جائے گا تو اُن کے ہاتھ اور پیر اِس بات کی گواہی دیں گے کہ اُنہوں نے اپنی دُنیوی زندگی میں کیسے اَعمال سرانجام دئیے۔ سادہ لوح عقل اِسلام کے پیش کردہ اِس نظریئے پر ہنگامہ کھڑا کر دیتی ہے کہ ہاتھ، پاؤں یا دیگر اعضائے جسمانی آخر کس طرح ہمارے خلاف گواہی دے سکتے ہیں اِس ضمن میں اور بھی ہزاروں سوالات انسانی ذہن میں سر اُٹھاتے ہیں جن کا جواب ڈی این اے تھیوری میں مل سکا ہے ۔ خالقِ کائنات اپنے آخری اِلہامی صحیفے قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں فرماتا ہے
اَلیَومَ نَختِمُ عَلٰی أَفوَاھِھِم وَ تُکَلِّمُنَا أَیدیھِم وَ تَشھَدُ أَرجُلُھُم بِمَا کَانُوا یَکسِبُونَ (یٰسین،36:65)
آج (کا دن وہ دن ہے کہ) ہم اُن (مجرموں) کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور اُن کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور اُن کے پاؤں اُس کی گواہی دیں گے جو وہ لوگ کیا کرتے تھے
اِسی آیتِ کریمہ کی تشریح و توضیح میں سرورِ دوجہاںﷺ کا ارشادِ گرامی ہے
فیُختم علی فیہ، و یُقال لفخذِہ و لحمِہ و عظامِہ "انطقی"، فتنطق فخذُہ و لحمُہ و عظامُہ بعملِہ۔(الصحیح لمسلم،2:409)
پس اُس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اُس کی ٹانگ ، گوشت اور ہڈیوں کو بولنے کا حکم ہو گا ۔ پس اُس کی ٹانگ، گوشت اور ہڈیاں اُس کے اَعمال بتائیں گے۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے بھی اِسی مضمون میں ایک حدیثِ مبارکہ مروی ہے ۔ سرورِ کائنات ﷺ نے اِرشاد فرمایا
إنّ أوّلَ عظم من الإنسان یتکلّم یومَ یختم علٰی الأفواہ فخذُہ من الرِّجل الشمالِ۔ (الدرالمنثور،5:62)
(جس روز منہ پر مہریں لگائی جائیں گی) اِنسان کے جسم کی سب سے پہلی ہڈی جو بولے گی وہ بائیں ٹانگ کی ران کی (ہڈی) ہو گی۔
یہ مضمون متعدّد احادیثِ مبارکہ میں اِسی طرح درج ہے اور اِسے قرآنی تائید بھی حاصل ہے ۔آج سے چودہ سو سال پہلے عرب کے اُس جاہل معاشرے میں اِسلام نے یہ عقیدہ پیش کیا جہاں اَذہان جہالت کی گرد میں لپٹے ہوئے تھے اور اپنی جہالت پر فخر کرتے تھے ۔ وہ اِس اِسلامی تصوّر کو بآسانی قبول نہیں کر سکتے تھے۔ وہ تو مرنے کے بعد دوبارہ جی اُٹھنے کی مطلق حقیقت کو بھی جھٹلاتے تھے، چہ جائیکہ وہ اعضائے اِنسان کی گواہی دینے کی صلاحیت کو تسلیم کر لیتے اور اُس پر ایمان لے آتے۔
اســلام اور جـدیـد ســائنس
Comments
Post a Comment