۔342🌻) ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ


۔۔1۔ سیدنا ابو عبیدہ سیدنا ابو بکر صدیق کی دعوت سے مسلمان ہوئے۔ ابن سعد کہتے ہیں:”نبی ﷺ کے دارالارقم میں تشریف لے جانے سے پہلے ابوعبیدہ مسلمان ہوئے اور حبشہ کی طرف ہجرت کے دوسرے سفر میں ہجرت فرمائی پھر (مدینہ) واپس آئے تو بدر، احد، خندق اور تمام غزوات میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک رہے ” (طبقات ابن سعد 384/7)

۔۔2۔ سورہ مجادلہ آیت 22 سیدنا عبیدہ کے بارے میں نازل ہوئی جب انہوں نے غزوہ بدر میں محبت اسلام میں اپنے مشرک باپ کو مار دیا۔ آپ کی والدہ امیمہ نے اسلام قبول کیا تھا۔ سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح سورہ توبہ آیت 100 کے مطابق سابقون الاولون میں بھی شامل ہیں جن سے اللہ راضی ہو چُکا اور جن کو جنت ملے گی۔

۔۔3۔ غزوہ احد میں حضور ﷺ کے پاس پہنچے اور  نبی ﷺ کے رخسار مبارک میں مشرکین کے حملے سے لوہے کی ٹوپی کی دو کڑیاں دھنس گئیں تھیں،  اُس کو اس محبت سے نکالنے کی کوشش کی کہ رسول اللہ ﷺ کو کوئی تکلیف نہ ہو اور اس زور سے نکالا کہ پہلے اوپر والا دانت اور پھر نیچے والا دانت نکلوا کر محبت کا حق ادا کیا۔  سیدنا ابوبکر ان کا ایثار دیکھ کر دنگ رہ گئے اور کہا، ابوعبیدہ بوڑوں (ٹوٹے ہوئے دانت والوں) میں سے بہترین ہیں۔

۔۔4۔ چھ ھ میں صلح حدیبیہ ہوئی، سیدنا ابوعبیدہ معاہدۂ صلح کی دستاویز پر بطور گواہ دستخط کرنے والے7 کبار صحابہ میں سے ایک تھے۔

۔۔5۔ جمادی الثانیہ 8ھ، میں سریہ ذات سلاسل میں سیدنا ابو عبیدہ اور سیدنا عمرو بن العاص شامل تھے کیونکہ اس جگہ پر سلسل نامی کنواں تھا ۔ دوسری وجۂ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ غنیم نے اپنے سپاہیوں کو فرار سے روکنے کے لیے زنجیروں سے باندھ رکھا تھا۔

۔۔6۔ رجب ۸ ھ،صحیح بخاری 4362 ،4361،4360: حضور ﷺ نے غزوہ سیف البحر میں 300 کا لیڈر ابوعبیدہ کو بنا کر بھیجا جنہوں نے قریش کے قافلے کا معلوم کرنا تھا، راستے میں راشن ختم،  ایک ایک کھجور سے گذارہ کیا، پھر ببول کے پتے کھا کر گذارا کیا جس سے نام پتوں والی فوج پڑ گیا،  سمندر کے کنارے بہت بڑی مچھلی ملی جس کو 18 دن تک کھاتے رہے، پھر مدینہ جب واپس آئے تو حضور ﷺ نے بھی اس مچھلی سے کھایا۔

۔۔7۔ رمضان 8 ھ، سیدنا ابوعبیدہ بن جراح غزوۂ فتح مکہ میں شریک ہوئے، تب رسول ﷲ ﷺ نے انھیں پیادہ دستے کی کمان سپرد فرمائی جو شہر میں داخلہ کے وقت آپ کے آگے چل رہا تھا۔

۔۔8۔ اٹھ ھ میں آپ ﷺ نے سیدنا ابو عبیدہ کوتبلیغ اسلام کے لیے نصاریٰ کے ایک وفد کے ساتھ نجران بھیجا۔ یہی وہ موقع تھا جب آپ نے انھیں امینِ امت کے لقب سے نوازا۔

۔9۔ نو ھ میں، جزیہ کی وصولی کے لیے بحرین گئے جہاں نبی کریم ﷺ  نے علا بن حضرمی کو عامل مقررکر رکھا تھا۔

صحیح بخاری 3744: ہر امت میں امین ہوتے ہیں اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں۔  

صحیح بخاری 3745: نبی کریم ﷺ  نے اہل نجران سے فرمایا کہ میں تمہارے یہاں ایک امین کو بھیجوں گا جو حقیقی معنوں میں امین ہوگا۔ یہ سن کر تمام صحابہ کرام کو شوق ہوا لیکن آپ ﷺ نے سیدنا ابوعبیدہ  کو بھیجا۔ 

ترمذی 3795: سیدنا ابوبکر، عمر، ابوعبیدہ بن جراح، اسید بن حضیر، ثابت بن قیس بن شماس، معاذ بن جبل اور معاذ بن عمرو بن جموح“ اچھے لوگ ہیں۔

 ترمذی 3657: سیدہ عائشہ نے بتایا: صحابہ میں سے رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب سیدنا ابوبکر اور پھر سیدنا عمر اور پھر سیدنا ابوعبیدہ  تھے۔

۔۔10۔ سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح نے ہی سیدنا سعد بن عبادہ کے متعلق آ کر بتایا کہ بنو ثقیفہ میں خلافت کا مسئلہ چل رہا ہے۔ سیدنا عمر نے پہلے وہاں سیدنا ابو عبیدہ کو فرمایا کہ آپ امین الامت ہیں۔ آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لیتے ہیں لیکن بعد میں سیدنا ابوبکر کی خلافت پر سب نے بیعت کر لی اور سیدنا  ابوعبیدہ خلیفہ اول کے بہترین خیرخواہ اور معاون ثابت ہوئے۔

ُُ۔۔11۔ اپنی خلافت کے اگلے روز سیدنا ابوبکر کندھے پر کپڑے کے تھان رکھ کر بیچنے نکلے۔راستے میں سیدنا عمر ملے اور کہا ، آپ کے کندھوں پر مسلمانوں کی سرداری کا بار آن پڑا ہے۔ یہ کام اس کے ساتھ نہیں نبھ سکتا۔ چلیے، ناظم بیت المال ابوعبیدہ سے مل کر بات کرتے ہیں۔ابو عبیدہ نے کہا،ہم آپ کے لیے ایک عام مہاجر کی آمدنی کے بقدر وظیفہ معین کر دیتے ہیں ۔اس طرح سیدنا ابوبکر کے لیے 4 ہزار درہم سالانہ وظیفہ مقرر ہوا۔

امارت:  سیدنا خالد بن ولید دمشق کے گورنر تھے لیکن 17ھ میں سیدنا عمر نے یہ عہدہ بھی سیدنا ابوعبیدہ کو دے دیا۔'سیدنا خالد بن ولید نے کہا: تم پر اس امت کے امین کو نگران بنا کر بھیجا گیا ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے: اس امت کا امین ابو عبیدہ بن جراح ہے۔ سیدنا ابو عبیدہ نےکہا کہ: میں نے رسول اللہ  ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: خالد سیف اللہ ہے اور قبیلے کا بہترین جوان ہے۔  (مصنف ابن أبي شيبه 3401)

قحط: 18ھ میں جب عرب میں قحط پڑا تو نہایت سرگرمی کے ساتھ شام سے چار ہزار اونٹ غلے سے لدے ہوئے بھیجے۔ اشاعت اسلام کا بھی ان کو خاص خیال تھا، چنانچہ قبیلہ تنوخ، بنوسلیج اور عرب کے دوسرے بہت سے قبائل جو مدت سے شام میں آباد ہو گئے تھے اور عیسائی مذہب کے پیرو تھے، صرف سیدنا ابوعبیدہ  کی کوشش سے حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے، بعض شامی اور رومی عیسائی بھی ان کے اخلاق سے متاثر ہوکر اسلام لائے۔

Comments