حسینؓ رضی اللہ عنہ کا ایک دیہاتی سے مکالمہ
امام فخر الدین ابو عبد اللہ محمد بن عمر القرشی الشافعیؒ المتوفٰی ۶۰۶ھ لکھتے ہیں
’’ ایک دیہاتی حضرت حسین بن علیؓ کے پاس گیا ، ان کو سلام کیا اور ان سے حاجت کا سوال کیا ، اور اس نے کہا میں نے آپ کے نانا سے سنا ہے ، انہوں نے فرمایا کہ جب تم کسی حاجت کا سوال کرو تو وہ چار (صفات والے آدمیوں) میں سے ایک سے مانگو ۔
۔[۱] یا تو وہ شریف عربی ہو ۔
۔[۲] یا سخی مددگار ہو ۔
۔[۳] یا حامل قرآن ہو ۔
۔[۴] یا خوبصورت چہرے والا ہو ۔
بہرحال عرب ہونا ، تو وہ آپ کو آپ کے نانا سے شرف حاصل ہے
اور سخاوت ، تو وہ آپ سے اور آپ کی سیرت سے شروع ہوئی ہے
اور قرآن ، تو وہ آپ کے گھروں میں نازل ہوا ہے
اور خوبصورت چہرہ ، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنا ، انہوں نے فرمایا کہ جب تم مجھے دیکھنے کا ارادہ کرو ، تو حسن اور حسین کی طرف دیکھو
(یعنی بقول حضورؐ ﷺ کے آپ میں یہ چاروں صفات پائی جاتی ہیں ۔)
حضرت حسینؓ نے فرمایا ، تیری کیا حاجت ہے؟
تو اس نے وہ حاجت زمین پر لکھ دی ۔ تو حضرت حسینؓ نے فرمایا میں نے اپنے والد حضرت علیؓ سے سنا ہے انہوں نے فرمایا کہ ہر آدمی کی قیمت اتنی ہے جتنا وہ احسان کرے ، اور میں نے اپنے نانا سے سنا ، انہوں نے فرمایا نیکی معرفت کے بقدر ہوتی ہے ۔ لہٰذا میں تجھ سے تین مسائل پوچھوں گا ، اگر تو نے ایک کا جواب اچھا دیا تو جو کچھ میرے پاس ہے اس کا ایک ثلث تیرا ہوگا اور اگر تو نے دو کا جواب دیا تو تیرے لئے میرے پاس موجود کا دو ثلث ہو گا ، اور اگر تو نے تینوں کا جواب دیا تو میرے پاس موجود سب تیرا ہو گا ، اور حال یہ ہے کہ میری طرف عراق سے ایک مُہر زدہ تھیلی (ہدیہ) بھجوائی گئی ہے ۔
اس دیہاتی نے کہا کہ پوچھئے ، ولا حول ولا قوۃ الا باللہ ۔
۔[۱] حضرت حسینؓ نے پوچھا ، اعمال میں سے افضل کیا ہے؟
اعرابی نے کہا ، اللہ پر ایمان لانا
۔[۲] حضرت حسینؓ نے پوچھا ، بندہ کی ہلاکت سے نجات کیا ہے؟
اعرابی نے کہا ، اللہ پر بھروسہ کرنا
۔[۳] حضرت حسینؓ نے پوچھا ، کونسی چیز آدمی کو زینت بخشتی ہے؟
دیہاتی نے کہا ، علم جس کے ساتھ برد باری ہو
۔[۴] حضرت حسینؓ نے پوچھا ، اگر یہ اس سے خطا چلی جائے تو؟
اعرابی نے کہا پھر مال (سے تلافی ہو سکتی ہے ) جس کے ساتھ سخاوت ہو
۔[۵] حضرت حسینؓ نے پوچھا ، اگر یہ اس سے خطا چلی جائے تو؟
دیہاتی نے کہا ، پھر فقر ہے جس کے ساتھ صبر ہو
۔[۶] حضرت حسینؓ نے پوچھا اگر یہ بھی اس سے خطا چلی جائے تو؟
اعرابی نے کہا ، پھر تو آسمان سے اتاری جانے والی بجلی ہی ہے جو اس کو جلا کر رکھ دے گی ۔ (یعنی پھر اس کے بچنے کی کوئی سبیل نہیں ہے ۔)
حضرت حسینؓ رضی اللہ عنہ ہنسنے لگے اور وہ تھیلی اس کی طرف پھینک دی ۔‘‘
(التفسیر الکبیر عربی ج ۲ ص ۱۹۸ طبع مصر)
Comments
Post a Comment