سلیمانؑ علیہ السلام کا صحابی
سیدنا سلیمانؑ کے ایک برگزیدہ صحابی "آصف بن برخیا" نے پلک جھپکنے سے بھی کم مدّت میں تختِ بلقیس 900 میل کی دُوری سے لا کر حاضر کر دیا۔ یہ طئ مکانی کی ایک بہترین قرآنی مثال ہے جس میں فاصلے سمٹ گئے اور دُوسری طرف یہ طئ زمانی کی بھی نہایت جاندار مثال ہے کہ پلک کا جھپکنا یقیناً وقت کا ایک قلیل ترین لمحہ ہوتا ہے۔ اُس قلیل ترین ساعت میں اِتنی مسافت طے کرنا اور اِتنا وزن اُٹھا کر واپس پہنچنا طئ زمانی و مکانی دونوں کا جامع ہے۔
یہاں ایک توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ طئ زمانی و مکانی پر مشتمل اِس محیرالعقول واقعہ کا صدُور سیدنا سلیمانؑ کے ایک مقرب اُمتی سے ہو سکتا ہے تو اِس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُمتِ مصطفوی کے نفوسِ قدسیہ کے کمالات کی حد کیا ہوگی! مردِ مومن کے اِشارۂ ابرو سے ہزاروں میل کی مسافت اُس کے ایک قدم میں سمٹ آتی ہے اور اُس کے قدم اُٹھانے سے پہلے شرق و غرب کے مقامات زیرِپا آ جاتے ہیں۔
مذکورہ بالا قصصِ قرآنی میں جہاں اَصحابِ کہف اور حضرت عزیرؑ کی مثالوں میں حالتِ سکون میں طئ زمانی کی ایک صورت سامنے آئی وہاں سیدنا سلیمانؑ کے صحابی آصف بن برخیا کی مثال میں طئ مکانی کے ساتھ ساتھ حرکت کی حالت میں طئ زمانی کی ایک صورت بھی پائی گئی۔ جدید سائنسی تحقیقات اور اُن کے نتیجے میں حاصل ہونے والے مسلّمات و نظریات کی رُو سے حالتِ سکون میں وقت کا اِنتہائی تیزی سے گزر جانا محال ہے، البتہ روشنی کے قریب قریب رفتار حاصل کر لینے والے مادّی جسم کے لئے ایسا ممکن ہے۔
چنانچہ جہاں پہلی دو مثالوں کی سائنسی توجیہ موجودہ نظریات کی رُو سے ناممکن قرار پاتی ہے وہاں تیسری مثال جس میں طئ زمانی و مکانی کسی قدر اِکٹھی ہو گئی ہیں وہاں بھی سائنسی نظریات کاملاً تفہیم دینے سے قاصر ہیں اور ’آصف بن برخیا‘ کا کرۂ ارضی پر ہی رہتے ہوئے روشنی کی سی رفتار سے سفر کرنا اور 900 میل سے زیادہ فاصلہ طے کرتے ہوئے منوں وزنی تخت اُٹھا لانا عقلاً محال نظر آتا ہے۔ وجہ اِس کی یہ ہے کہ قوانینِ طبیعیات کی رُو سے زمین کے کرۂ ہوائی میں اِتنی محیر العقول رفتار سے کیا جانے والا سفر یقینا اُس مادّی جسم (یعنی آصف بن برخیا) کو اُسی طرح جلا کر بھسم کر دیتا جیسے خلا سے زمینی حدود میں داخل ہونے والے سیارچے اپنی تیز رفتاری کی وجہ سے جونہی ہوا سے رگڑ کھاتے ہیں، شہاب ثاقب کے طور پر جل کر راکھ ہو جاتے ہیں۔
’آصف بن برخیا‘ کا اِن سائنسی قوانین کو شکست دینا اور نہ صرف اِس حیران کن رفتار پر اپنا جسم ہوا کی رگڑ کے باوُجود جلنے سے بچائے رکھنا بلکہ تختِ شاہی کو بھی آنچ نہ آنے دینا یقیناً اُن کی بہت بڑی کرامت ہے جو فقط اِلہامی کتاب کے علم ہی کی بدولت اُنہیں میسر آئی تھی۔
اســلام اور جـدیـد ســائنس
Comments
Post a Comment