322) حیا ایمان کا شعبہ ہے



حیا ایمان کا شعبہ ہے
 

 حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جب تم حیادار نہ رہو تو پھر جو چاہے کرو

حیا کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ لباس ایسا زیب تن کیا جائے جو شرافت، حمیت، وقار اور حیا کی عکاسی کر رہا ہو. لباس کا مقصد " ستر پوشی" ہے اگر لباس ایسا ہو جو " ستر پوشی" کے بجائے " ستر کی نمائش" کا کام دے رہا ہو تو اُسے " بے حیائی والا شیطانی لباس" تو کہا جا سکتا ہے لیکن " مہذب اور اسلامی لباس"  نہیں کہا جا سکتا

حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوّا رضی اللہ عنہا جب حکمِ خداوندی کو بھول گئے اور شیطان کی مراد پوری ہو گئی تو اُن دونوں کا لباس اتر گیا اور ستر کُھل گیا. اس سے یہ معلوم ہوا کہ بے لباسی اور برہنگی شیطانی اثرات میں سے ہے. ایک مسلمان کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ شیطان ہمارا بد ترین دشمن ہے تو اس کے اثرات کے نتیجے میں فلاح و بہبود پوشیدہ ہے یا ناکامی و نامرادی

عجیب بات یہ ہے کہ کسی خاتون سے یہ کہا جائے کہ تم پر جِنّات کا اثر ہو گیا ہے تو اس کو کیسی فکر ہوتی ہے، عاملوں کے پاس دوڑی پھرتی ہے، پیسے بھی خرچ کرتی ہے کہ کسی طرح جِنّات کے اثر سے حفاظت ہوجائے. لیکن سب سے خبیث ترین اور ملعون جن شیطان کا اثر خوشی خوشی قبول کر لیتی ہے اور اُسے فیشن اور ماڈرن ازم کے ٹائٹل دیتی ہے.

 نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے 

" کتنی عورتیں دنیا میں لباس پہننے والی ہیں مگر آخرت میں برہنہ ہوں گی

" (صحيح بخاری. کتاب العلم)

محدثین کرام نے مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں فرمایا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں ایسا لباس پہنتی ہیں کہ حقیقت میں وہ لباس ستر پوشی اور حیا دار لباس کی خصوصیات سے خالی ہوتا ہے

 حیادار اسلامی لباس  کی خصوصیات 

۔1- غیر مسلم اور فُساق و فُجّار کے لباس کے مشابہ نہیں ہو.

۔2- باریک نہیں ہو ۔۔۔۔۔ 3- تنگ / چست نہیں ہو.

۔4- مختصر اور ناکافی نہیں ہو.

فی زمانہ مذکورہ خصوصیات کا لباس پہننا کم سے کم ہوتا جا رہا ہے. فیشن کی ایسی اندھی دوڑ لگی ہے کہ عورتوں کی اکثریت اپنی حیا، سنجیدگی اور وقار کو پسِ پشت ڈال کر ماڈرن کہلائے جانے کے غم میں حیران و پریشان نظر آتی ہیں. بہت دکھ کے ساتھ عرض کرنا پڑتا ہے کہ دین دار مستورات بھی اس سیلابی رَو میں بہتی نظر آتی ہیں

بڑی عمر کی مستورات تو پھر احتیاط کرتی بھی ہوں گی لیکن آٹھ، دس، بارہ سال تک کی بچیوں کے بارے میں احتیاط مفقود ہو کر رہ گئی ہے. انہیں عام فیشن زدہ غیر اسلامی لباس پہنانا عام ہوگیا ہے. حالانکہ علماء کرام فرماتے ہیں کہ بچیوں کو بھی باحیا اور شرعی لباس پہنانا ضروری ہے. انہیں چھوٹا کہہ کر غفلت کی گنجائش نہیں ہے

باطل کی منصوبہ بندی نہایت خوفناک ہوتی ہے لیکن مسلمانوں میں اس کا شعور نہیں ہوتا کہ وہ یہ سمجھیں کہ ان کے ساتھ کیسا بھیانک کھیل کھیلا جا رہا ہے چنانچہ باطل نے شلوار کی جگہ تنگ / چست پاجامے کو رواج دے دیا جو عملی طور پر عام ہوتا جا رہا ہے

ارے دنیا والوں کی نگاہ میں فیشن ایبل کہلائے جانے کا غم چھوڑ کر اپنے مالک اللہ تعالٰی کی نگاہ میں جچنے کی تڑپ پیدا کرو. کتنی بھی فیشن کی ماری بن جاؤ لیکن آخر کار کفن کی چادریں پہن کر قبر میں تنہا لیٹنا ہے

اللہ تعالٰی مسلمانوں کو اسلامی زندگی کا شیدائی بنا دے اور گناہوں والی ناپاک اور تعفُّن زدہ زندگی سے عملی طور پر اجتناب کرنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین یا رب العالمین

Comments