صحیح بخاری 3862: سیدنا سعید فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! مجھے وہ وقت یاد ہے جب حضرت عمر نے اسلام قبول کرنے سے پہلے، مجھے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے باندھ رکھا تھا۔ اور سیدنا عثمان کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اگر اس کی وجہ سے احد (کا پہاڑ) اپنی جگہ سے ہٹ جاتا تو یہ اس کے مستحق تھا کہ ہٹ جائے۔
سیدنا سعید بن زید سورہ توبہ 100 میں شامل ہیں: وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ وَالَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحْسٰنٍ ۙ رَّضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوۡا عَنْہُ وَ اَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیۡ تَحْتَہَا الۡاَنْہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیۡمُ ترجمہ : اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔
آپ سابقین اولین اور بدری صحابیوں میں سے تھےجن سے اللہ راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔ آپ (تمام) غزوات میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک رہے۔ آپ دمشق کے محاصرے اور فتح کے وقت (وہاں) موجود تھے۔ آپ کو سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح نے دمشق کا والی بنایا اور اس امت میں دمشق کے سب سے پہلے نائب آپ رہے تھے
(سیر اعلام النباء ج 1 ص 124، 125)
والد گرامی: سیدنا سعید کے والد صاحب دین ابراہیمی پر تھے اور لڑکیوں کو زندہ درگور ہونے سے بچانے کے لئے ان لڑکیوں کی پرورش اپنے ذمے لے لیتے۔
۔ (بخاری 3282) زید بن عمرو کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ قیامت کے دن ایک امت (کی حیثیت سے) ہو کر آئے گا۔ (المستدرک للحاکم 4956) البتہ حضرت زید نبی کریم کی نبوت کے اعلان سے پہلے دنیا سے چلے گئے ہوئے تھے۔
نکاح: سیدنا سعید کا نکاح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بہن فاطمہ بنت الخطاب سے ہوا، بہن اور بہنوئی کو مارنے والا واقعہ بھی کتابوں میں لکھا ہوا ہے، مارنے کے بعد قرآن لے کر نبی اکرم کے پاس مسلمان ہونے چلے گئے تھے۔
سیدنا سعید بن زید غزوۂ بدر کے موقع پر مدینہ میں حاضر نہیں تھے بلکہ شام میں تھے۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ) لیکن غزوۂ بدر کے مالِ غنیمت میں آپ کا حصہ مقرر کیا گیا تھا (جس کی وجہ سے آپ کو بدری کہا جاتا ہے )۔ (معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم الاصبہانی)
غالباً اسی وجہ سے امام نافع (مولیٰ ابن عمر) کی روایت میں آیا ہے کہ :”وکان بدریاً ” اور وہ (سعید بن زید) بدری تھے۔ (معرفۃ الصحابۃ ص 143)
مستجاب الدعوات: اَروٰی نامی ایک عورت نے سیدنا سعید بن زید پر مروان بن الحکم الاموی کی عدالت میں جھوٹا دعویٰ کردیا کہ انہوں نے میری زمین پر قبضہ کرلیا ہے ۔ عدالت میں سعید بن زید نے نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث سنا کر فرمایا:اے میرے اللہ ! اگر یہ عورت جھوٹی ہے تو اسے اندھا کردے اور اسے اس کی زمین میں ہلاک کر ۔ راویٔ حدیث (عروہ) کہتے ہیں کہ: وہ عورت مرنے سے پہلے اندھی ہوگئی اور پھر وہ ایک دن اپنی زمین پر چل رہی تھی کہ ایک گڑھے (کنویں) میں گر کر مر گئی۔ (صحیح مسلم 4134)
محبت اہلبیت: ایک دفعہ کوفہ کی بڑی مسجد میں کسی (ظالم اور بد نصیب) شخص نے سیدنا علی کو برا کہا تو سیدنا سعید بن زید نے اس پر سخت انکار کیا اور وہاں نبی کریم ﷺ کی وہ حدیث سنائی جس میں عشرہ مبشرہ کے جنتی ہونے کا ذکر ہے۔ پھر فرمایا: اللہ کی قسم ! جو شخص رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی معرکے میں حاضر رہا ہے اور اس کے چہرے پر غبار پڑا ہے وہ تمہارے تمام (نیک ) اعمال سے افضل ہے اگرچہ تمہیں سیدنا نوح کی عمر بھی مل جائے۔
( مسند احمد 1629)
وفات: آپ (50 یا 52 ھ میں) عقیق (مدینہ سے باہر ایک مقام) پر فوت ہوئے، پھر آپ کو مدینہ لایا گیا اور آپ (مدینہ میں ) دفن کئے گئے۔
(طبقات ابن سعد ج 3 ص 384)
آپ جمعہ کے دن فوت ہوئے تھے، آپ کی وفات کی خبر پہنچی تو (سیدنا) ابن عمر عقیق چلے گئے اور (مصروفیت کی وجہ سے) نماز جمعہ چھوڑ دی۔ (ابن سعد) سیدنا عبداللہ بن عمر نے انہیں حنوط (خوشبو) لگایا اور اُٹھا کر مسجد لے گئے ، پھر آپ کا جنازہ پڑھا اور دوبارہ وضوء نہ کیا۔(طبقات ابن سعد) سیدنا زید کی بیوی سیدنا عبداللہ بن عمر کی پھوپھی تھیں۔ سیدنا زید کی قبر انور جنت البقیع میں ہے۔
Comments
Post a Comment