اس خط کے مندرجات سے انداز لگا جاسکتا ہے کہ امت مسلمہ کے نظام خلافت کی بیخ کنی کے لیے صہیونی طاقتوں نے کیسی سازشیں کی تھیں اور ان سازشوں میں کون کون شریک تھا؟
خلیفہ عبدالحمید کے خط کا اردو ترجمہ پیش ہے
میں انتہائی نیاز مندی کے ساتھ طریقہ شاذلیہ کے اس عظیم المرتبت شیخ ابو آفندی کی خدمت میں بعد تقدیم احترام عرض گزار ہوں کہ مجھے آپ کا ۲۲ مئی ۱۹۱۳ ء کا لکھا ہوا گرامی نامہ موصول ہوا۔
جناب والا! میں یہ بات صاف صاف بتانا چاہتا ہوں کہ میں مسلمانوں کی خلافت کی ذمے داریوں سے از خود دست بردار نہیں ہوا، بلکہ مجھے ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا ۔یونینسٹ پارٹی نے میرے راستے میں بے شمار رکاوٹیں پیدا کر دی تھی۔ مجھ پر بہت زیادہ اور ہر طرح کا دباؤ ڈالا گیا، صرف اتنا ہی نہیں مجھے دھمکیاں بھی دی گئیں اور سازشوں کے ذریعے مجھے خلافت چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔
یونینسٹ پارٹی’ جو’’ نوجوانانِ ترک (ترکس ینگ)‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہے‘ نے پہلے تو مجھ اس بات کے لیے دباؤ ڈالا کہ میں مقدس سرزمین فلسطین میں یہودیوں کی قومی حکومت کے قیام سے اتفاق کرلوں۔ مجھے اس پر مجبور کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں، لیکن تمام دباؤ کے باوجود میں نے اس مطالبے کو ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ میرے اس انکار کے بعد ان لوگوں نے مجھے ایک سو پچاس ملین اسٹرلنگ پاؤنڈ سونا دینے کی پیش کش کی۔ میں نے اس پیش کش کو بھی یہ کہہ کر رد کر دیا کہ یہ ایک سو پچاس ملین اسڑلنگ پاؤنڈ تو ایک طرف، اگر تم یہ کرۂ ارض سونے سے بھر کر پیش کرو تو بھی میں اس گھناؤنی تجویز کو نہیں مان سکتا۔
تیس سال زیادہ عرصے تک امت محمدیہ کی خدمت کرتا رہا ہوں۔ اس تمام عرصے میں، میں نے کبھی اس امت کی تاریخ کو داغ دار نہیں کیا۔ میرے آباؤاجداد نے خلافت عثمانیہ کے حکمرانوں اور ملت اسلامیہ کی خدمت کی ہے، لہٰذا میں کسی بھی حالت اور کسی بھی صورت میں اس تجویز کو نہیں مان سکتا۔
میرے اس طرح سے صاف انکار کرنے کے بعد مجھے خلافت سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس فیصلے سے مجھے مطلع کر دیا گیا اور بتایا گیا کہ مجھے سالونیکا (اب یونان کا حصہ ہے) میں جلا وطن کیا جا رہا ہے۔ مجھے اس فیصلے کو قبول کرنا پڑا، کیوں کے میں خلافت عثمانیہ اور ملت اسلامیہ کے چہرے کو داغ دار نہیں کر سکتا تھا۔ خلافت کے دور میں فلسطین میں یہودیوں کی قومی حکومت کا قیام ملت اسلامیہ کے لیے انتہائی شرمناک حرکت ہوتی اور دائمی رسوائی کا سبب بنتی ۔.. خلافت ختم ہونے کے بعد جو کچھ ہونا تھا ہو گیا۔ میں اللہ کی بارگاہ میں سربسجود ہوں اور ہمیشہ اس کا شکر بجا لاتا ہوں کہ اس رسوائی کا داغ میرے ہاتھوں نہیں لگا۔ بس اس عرض کے ساتھ اپنی تحریر ختم کرتا ہوں ۔.. (واسلام)
Comments
Post a Comment