395) اِنسانی ذرائعِ علم

اِنسانی ذرائعِ علم

اللہ تعالیٰ کے جاری کردہ نظامِ ربوبیت نے اِنسان کو اپنے گرد و پیش اور ماحول سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے مختلف ذرائعِ علم و ہدایت سے نوازا ہے۔ اُسے سوچنے کے لئے طاقتور دِماغ، دیکھنے کے لئے صاف شفاف آنکھیں، سُننے کے لئے حسّاس کان، چکھنے کے لئے زبان، سُونگھنے کے لئے ناک، چھُونے کے لئے ہاتھ اور اِحساسِ لمس کے لئے اَعصاب بخشے گئے ہیں۔ اِن ذرائعِ علم کو عقل اور حواس کہا جاتا ہے۔ یہ اُس ذاتِ برحق کی عنایت ہے کہ اُس نے اِن ذرائع کو بالعموم ہر اِنسان کے لئے کھلا رکھا ہے، اُنہیں محدُود اور مسدُود نہیں فرمایا۔

اِنسان کو ذرائعِ علم عطا کئے جانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ بھرپور طریقے سے کائنات میں زندگی بسر کر سکے مخلوقات اور اُن کے خواص و اَوصاف کو جانے، اُن کی حقیقتوں کا اِدراک کرے اور اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے مختلف زاویوں سے غور و فکر کر سکے۔

اِس مقصد کے لئے بلا تمیز رنگ و نسل، اِنسان کو جو ذرائع عطا کئے گئے ہیں اُنہیں تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے

۔۔⑴ حواسِ خمسہ ظاہری

۔۔⑵ حواسِ خمسہ باطنی

۔۔⑶ لطائفِ خمسہ قلبی

۔۔🌹 حواسِ خمسہ ظاہری

حواس کی پہلی قسم حواسِ خمسہ ظاہری کہلاتی ہے، جن کی تعداد پانچ ہے اور یہ عمر کے ساتھ ساتھ تکمیلی مراحل طے کرتے چلے جاتے ہیں۔

۔۔① حسِ لامسہ (چھُونے کی قوت)

۔۔② حسِ باصرہ (دیکھنے کی قوت)

۔۔③ حسِ سامعہ (سُننے کی قوت)

۔۔④ حسِ ذائقہ (چکھنے کی قوت)

۔۔⑤ حسِ شامہ (سُونگھنے کی قوت)

یہ وہ پانچ ذرائعِ علم ہیں جن کی بدولت اِنسان اپنے گرد و پیش اور ماحول سے اپنا اِدراکی تعلق قائم کرتا ہے، مگر یہ حواس صرف ظاہری دُنیا کی حقیقتوں کو جاننے اور اُن کا اِدراک کرنے تک محدُود رہتے ہیں۔ یہ حواس اِنسانی ذِہن کو فقط ظاہری خام مواد مہیا کرنے پر مامور ہیں۔ ’قوتِ لامسہ‘ کا کام کسی چیز کو چھُو کر یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ چیز کیسی ہے؟ نرم و گداز ہے یا سخت اور کھردری ہے۔ لیکن اگر کوئی چیز غیر مادّی جسم رکھتی ہے تو ہاتھ کوشش کے باوُجود اُس کے وُجود کا سُراغ نہیں لگا سکتے۔ اِسی طرح ’قوتِ باصرہ‘ کا کام مرئی اشیاء کو دیکھنا اور اُن کے وُجود کا سراغ لگانا ہے۔ لیکن آنکھ اُسی وقت جسم کا سُراغ لگا سکتی ہے جب کوئی چیز دیکھے جانے کے قابل ہو۔ اگر کوئی چیز غیر مرئی ہے تو اُسے ’قوتِ باصرہ‘ معلوم نہیں کر سکتی۔ علیٰ ہٰذا القیاس ’قوتِ سامعہ‘ کا کام آواز کا پتہ لگانا ہے۔ خوشبو یا بدبو کو ’قوتِ شامہ‘ کے ذریعے جانا جاتا ہے۔ مٹھاس یا کڑواہٹ کا اِحساس ’قوتِ ذائقہ‘ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

حواسِ خمسہ ایک دُوسرے کا بدل نہیں بن سکتے

آنکھ کے دائرۂ بصارت میں آنے والی کوئی چیز کسی اور حسّ کے ذریعے نہیں دیکھی جا سکتی۔ اِسی طرح اگر کسی شخص کی قوّتِ سامعہ مفقود ہو جائے تو وہ بقیہ چاروں حواس کو آزمانے کے باوُجود آواز کا سُراغ لگانے سے قاصِر رہتا ہے۔ اگر زبان ذائقے کا پتہ نہ چلا سکے تو آنکھ، ناک، کان اور ہاتھ پاؤں سلامت ہونے کے باوُجود انسان مختلف ذائقوں میں تمیز نہیں کر سکتا۔ روزمرّہ زندگی میں عام مشاہدے میں آنے والی یہ حقیقت ہمیں یہ تسلیم کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ حواسِ خمسہ ایک دُوسرے کا بدل نہیں بن سکتے۔

حواسِ ظاہری کا محدُود دائرۂ کار

اَب ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ہر حس کا ایک مخصوص دائرہ اور حلقہ ہوتا ہے۔ جو اشیاء حواسِ ظاہری کے ذریعے معلوم کی جاتی ہیں اُنہیں ’اِدراکاتِ حسّی‘ کہتے ہیں۔ جو شئے جس حاسّے کے دائرہ کار میں آتی ہے اُسے ہمیشہ اُسی حاسّے کی مدد سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اگر اُس حاسّے کے بجائے اُس پر دُوسرے حواس آزمائے جائیں تو لاکھ کوشش کے باوُجود اُس چیز کی صحیح ماہیت اور ہیئت کا اِدراک ناممکن ہوتا ہے۔

آواز کو کان کے ذریعے معلوم کیا جائے تو وہ سمجھ میں آسکتی ہے۔ رنگوں کو آنکھوں کے ترازو میں تولا جائے تو اُن میں اِمتیاز کیا جا سکتا ہے۔ خوشبو کو قوتِ شامّہ کے ذریعے معلوم کیا جائے تو وہ اِنسانی اِدراک میں سما سکتی ہے، لیکن مذکورہ بالا حواس کے علاوہ اُسی چیز کو کسی دُوسرے حاسّے کی مدد سے جاننے کی کوشش بے کار ثابت ہو گی۔ طے یہ پایا کہ اگر کوئی وُجود دُنیا میں موجود ہے مگر اُسے معلوم کرنے والی خاص حس موجود نہیں تو پھر باقی سارے حواس آزمانے کے باوُجود اُس وُجود کا سُراغ نہیں لگایا جا سکتا۔

 ایک لطیف تمثیل ۔۔۔ مولانا رومؒ نے اِس بات کو ذِہن نشین کرانے کے لئے بڑی عمدہ مثال پیش کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ کسی جگہ پانچ اندھے تھے۔ اُنہوں نے ساری زندگی ہاتھی نہیں دیکھا تھا۔ ایک مرتبہ ہاتھی کو اُن کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا گیا اور ہر ایک سے کہا گیا کہ باری باری ہاتھ سے چھُو کر بتاؤ کہ ہاتھی مجموعی طور پر کیسا ہوتا ہے۔ ہر ایک نے اپنے ہاتھوں کی مدد سے اُس ہاتھی کو جاننے کی کوشش کی۔ چنانچہ اِس کوشش کے نتیجے میں ایک نابینا کا ہاتھ ہاتھی کے پیٹ پر پڑا، اُس نے کہا ہاتھی تو دیوار کی طرح ہوتا ہے۔ ایک نابینا نے اپنا ہاتھ ہاتھی کی ٹانگوں پر رکھا تو اُس نے خیال کیا کہ ہاتھی تو ستونوں کی طرح ہوتا ہے۔ ایک نے ہاتھی کے کان کو ٹٹولا تو اُس نے گمان کیا کہ ہاتھی تو پنکھے کی طرح ہوتا ہے۔ اِسی طرح ایک نے سُونڈ پر ہاتھ لگایا تو اُس نے کہا کہ ہاتھ تو رَسّے کی مانند ہوتا ہے۔

الغرض پانچوں نابینا اپنے تمام تر حواس آزمانے کے باوُجود اِتنے بڑے ہاتھی کے صحیح اِدراک سے قاصر رہے۔ وجہ صرف یہ تھی کہ جس حاسّے کی مدد سے اُس وُجود کو جانا جاسکتا تھا، یہ لوگ اُس سے محروم تھے اور اُس کی عدم موجودگی میں دُوسرے تمام حواس آزمانے کے باوُجود اُنہیں ہاتھی کی شکل و صورت معلوم نہ ہو سکی۔

اِس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ

اولاً : حواس خمسہ ظاہری صرف طبیعی دُنیا (فزیکل ورلڈ) کی اشیاء کا اِدراک کر سکتے ہیں، جس میں مادّہ اور توانائی دونوں شامل ہیں۔

ثانیاً: ہر حس کا ایک مخصوص دائرہ کار ہے۔ جو چیز اُس دائرے میں آ جائے وہ حس فقط اُسی کو محسوس کر سکتی ہے، لیکن جو چیز اُس حس کے دائرے سے باہر ہو اُس شے کا صحیح اِدراک باقی تمام حواس مل کر بھی نہ کر سکتے

۔🏵 حواسِ خمسہ باطنی ۔۔۔ جس طرح محسوساتِ ظاہری کے لئے قدرت نے پانچ حواس تخلیق فرمائے ہیں، اِسی طرح عقلِ اِنسانی میں بھی پانچ مُدرِکات پیدا کئے گئے ہیں جنہیں حواسِ خمسہ باطنی‘ کہا جاتا ہے۔ اُن کی تفصیل درج ذیل ہے

۔1۔ حسِ مشترک   2۔ حسِ واہمہ  3۔ حسِ متصرفہ  4۔ حسِ خیال 5۔ حسِ حافظہ

۔⑴ حسِ مشترک ... اِنسانی عقل کا یہ گوشہ حواسِ ظاہری کے تأثرات کو وصول کرتا ہے۔ حواس کے اوّلین تأثرات اِس حصۂ عقل میں پہنچ کر جذب ہو جاتے ہیں۔ مثلاً جب ہم اپنی آنکھ سے کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو اِنسانی عقل کے اُس حصے پر اُس کی تصویر مرتسم ہو جاتی ہے۔ اِسی لئے اِسے ’لوحُ النفس‘ بھی کہتے ہیں۔

۔⑵ حسِ خیال ... حسِ خیال کا کام یہ ہے کہ وہ حسِ مُشترک میں پہنچنے والی مُدرِکات اور محسوسات کی تصاویر اور شکلوں کی ظاہری صورت کو اپنے اندر محفوظ کر لیتی ہے۔ مثلاً جب ہم لفظ "میں" بولتے ہیں، تو اُس لفظ کی ظاہری صورت یعنی ’میم‘، ’ی‘ اور ’نون غنہ‘ ہے۔ چنانچہ اُس کے ظاہر کا یہ تأثر حسِ مشترک پر منعکس ہوتا ہے اور یہ تأثر بصورتِ تصویر ’حسِ خیال‘ میں محفوظ ہو جاتا ہے۔

۔⑶ حسِ واہمہ ... جس طرح محسوسات کی ظاہری شکل و صورت کو ’حسِ مشترک‘ نے حواسِ ظاہری سے وُصول کیا تھا اور ’حسِ خیال‘ نے اُسے اپنے ریکارڈ میں محفوظ کر لیا تھا، اُسی طرح ’حسِ واہمہ‘ مدرِکات حِسّی کے معنٰی و مفہوم یعنی اُن کی باطنی شکل و صورت کا اِدراک کرتی ہے اور محفوظ رکھنے کے لئے اُن تاثرات کو اپنے سے اگلی حس میں منتقل کر دیتی ہے، جسے ’حافظہ‘ کہتے ہیں۔۔

۔⑷ حسِ حافظہ ۔۔۔ یہاں محسوسات کے مفہوم یعنی معنوی وُجود کو اِس طرح سے محفوظ کیا جاتا ہے جیسے اُن کی ظاہری شکل کو ’حسِ خیال‘ میں محفوظ کیا گیا تھا۔

۔⑸ ۔حسِ متصرّفہ ... پانچویں اور آخری باطنی حس ’متصرّفہ‘ کہلاتی ہے۔ اُس کا کام یہ ہے کہ ’حسِ مشترک‘ میں آنے والی ظاہری صورت کو ’حسِ واہمہ‘ میں حاصل ہونے والے معنی سے اور ’حسِ خیال‘ میں محفوظ شکل و صورت کو ’حسِ حافظہ‘ میں محفوظ مفہوم کے ساتھ جوڑ دیتی ہے۔ یوں اِنسان مختلف اَلفاظ سن کر اُن کا مفہوم سمجھنے، مختلف رنگ دیکھ کر اُن میں تمیز کرنے اور مختلف ذائقے چکھ کر اُن میں فرق معلوم کرنے پر قادِر ہو جاتا ہے۔

اِس طرح یہ پانچوں حصے باہم مل کر ایک خاص نقطے تک پہنچتے ہیں۔ جسے ’علم‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں اِدراک ’علم‘ میں بدل جاتا ہے۔ اگر یہاں ’حسِ مشترک‘ موجود نہ ہو تو یہ پانچوں حواس بے بس ہو کر رہ جائیں۔ اگر اُن میں ’حسِ واہمہ‘ صحیح نہ ہو، تو ہم سب کچھ دیکھیں گے لیکن جان کچھ نہ سکیں گے۔ آواز تو سنائی دے گی مگر اُس کا مفہوم سمجھ میں نہیں آ سکے گا۔ چیز کو ہاتھوں سے چُھوا تو جا رہا ہو گا مگر نرم اور سخت چیزوں میں کوئی اِمتیاز نہیں کیا جا سکے

 حواسِ خمسہ باطنی‘ کی بے بسی

اِس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ’حواسِ خمسہ ظاہری‘ علم تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ’حواسِ خمسہ باطنی‘ کے محتاج ہیں۔ جب تک حواسِ ظاہری کے مدرِکات اِن پانچوں حواسِ باطنی سے گزر کر ایک صحیح نتیجے تک نہ پہنچیں اُس وقت تک حواسِ ظاہری کے ذریعے محسوس کئے جانے والے تمام مادّی حقائق علم کی شکل اِختیار نہیں کر سکتے۔ گویا حواسِ خمسہ ظاہری کسی شئے کو محسوس تو کرتے ہیں، اُسے معلوم نہیں کر سکتے۔

دُوسری طرف عقل اور اُس کے پانچوں باطنی حواس مکمل طور پر ’حواسِ خمسہ ظاہری‘ کے محتاج ہیں۔ اگر آنکھ دیکھنے سے، کان سننے سے، ناک سونگھنے سے اور زبان چکھنے سے محروم ہو تو تمام عقلی حواس مل کر بھی کوئی نتیجہ اَخذ نہیں کر سکتے۔ لہٰذا جہاں حواس عقل کے محتاج ہیں وہاں خود عقل بھی حواس کی محتاج ہے۔

اگر کسی بچے کی پرورش کا آغاز اُس کی پیدائش کے معاً بعد ایسے مقام پر کیا جائے جہاں کوئی آواز اُس کے کان میں نہ پڑنے پائے تو وہ پچاس سال کی عمر کو پہنچ جانے پربھی کچھ بول سکے گا اور نہ سمجھ سکے گا۔ وجہ فقط یہ ہے کہ ہم جو کچھ اپنی زبان سے بولتے ہیں یہ دراصل اُن آوازوں کا نتیجہ ہوتا ہے جو کانوں نے سنیں اور جنہیں عقل نے حافظے میں محفوظ کر لیا۔ جب کوئی شخص اپنے کان سے کچھ سن ہی نہیں سکا اور اُس کی عقل الفاظ، حروف، لہجوں اور آوازوں کو محفوظ ہی نہ کر سکی تو جس طرح اُس کا دِماغ الفاظ کے معاملے میں سفید کاغذ کی طرح کورا رہا اِسی طرح اُس شخص کو اپنی کیفیات، حاجات اور خواہشات کے بیان پر بھی قدرت حاصل نہ ہو سکی۔

اَب یہ طے پا گیا کہ انسانی عقل کی پرواز صرف وہیں تک ہوتی ہے جہاں تک حواس اپنا کام کرتے ہیں۔ چنانچہ جو حقیقت ہماری باصرہ، سامعہ، لامسہ، ذائقہ اور شامہ قوتوں کی دسترس سے باہر ہو اُس کا اِدراک عقل بھی نہیں کر سکتی۔ حواس کے خام مال کے بغیر عقل ایک عضوِ معطل ہے اور عقل کے بغیر سارے کے سارے حواس عبث و بے کار ہیں۔ پس انسان کو جو ذرائع عطا کئے گئے ہیں، وہ ایک دُوسرے کے محتاج ہیں۔ اس لئے ’حواسِ خمسہ ظاہری‘ اور ’حواسِ خمسہ باطنی‘ (عقل) کی فعّالیت کے باوُجود اِنسانی زندگی کی حقیقت سے متعلق اکثر سوالات تشنۂ طلب رہتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ

 اِنسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ 

اِنسان کو کس نے پیدا کیا؟ 

اِنسان کی تخلیق کیسے ہوئی؟

 آغازِ کائنات کیسے ہوا اور اُس کا اِختتام کیسے اور کب ہو گا؟

 اِس کائنات سے اُس کا تعلق کیا ہے؟ 

اِس کائنات میں زندگی گزارنے کے لئے کون سے قانون کی پاسداری کی جائے؟

 کون سی چیز اچھی ہے اور کون سی بری؟ 

ظلم کیا ہے اور اِنصاف کیا؟

 مرنے کے بعد اِنسان کہاں جاتا ہے؟

 آیا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا ہے یا ایک نئی زندگی کا آغاز کرتا ہے؟

 اگر وہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا ہے تو اِس نظامِ زندگی کا مفہوم کیا ہوا اور اگر مرنے کے بعد نئی زندگی میں داخل ہوتا ہے تو اُس کی کیفیت کیا ہے؟

 مزید یہ کہ مرنے کے بعد اُس سے کوئی جواب طلبی بھی ہو گی یا نہیں

یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جو اِنسانی ذِہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ علیٰ ہٰذا القیاس اگر اِنسانی زندگی با مقصد ہے تو اِنسان کو اِن سوالوں کے تسلی بخش جواب چاہئیں۔ جب یہ تمام سوالات اِنسانی عقل پر دستک دیتے ہیں

 تو اِنسان اُن کے جواب کے لئے اپنی ’آنکھوں‘ کی طرف رُجوع کرتا ہے۔ وہ جواب دیتی ہیں کہ ہم تو خود تیرے باعث معرضِ وجود میں آئی ہیں۔ ۔ ۔ ہم تیری تخلیق سے پہلے کا حال کیونکر جان سکتی ہیں

 اِنسان اپنے ’کانوں‘ سے پوچھتا ہے۔ ۔ ۔ کان گویا ہوتے ہیں کہ ہمارا وُجود خود تیری ہستی کا رہینِ منت ہے۔ ۔ ۔ جو اشیاء ہمارے دائرۂ اِدراک سے ماوراء ہیں، ہم اُن کا جواب کیسے دے سکتے ہیں

 اِنسان اپنی ’قوتِ شامہ‘ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ ۔ ۔ وہ جواب دیتی ہے کہ یہ حقائق سونگھنے سے معلوم نہیں ہوتے۔ ۔ ۔ میں اِن سوالات کا جواب کس طرح دُوں

 اِنسان اپنی ’قوتِ ذائقہ‘ سے پوچھتا ہے تو وہ کہتی ہے کہ اِن ماورائی حقیقتوں کو چکھا نہیں جا سکتا۔ ۔ ۔ میں بھی مجبور ہوں

 پھر اِنسان اپنی ’قوتِ لامسہ‘ سے سوال کرتا ہے تو وہ جواب دیتی ہیں کہ میں اِن اَحوال کو چھو نہیں سکتی۔ ۔ ۔ اُن کی نسبت کیا بتاؤں۔ ۔ ۔ 

الغرض اِنسان نے ’حواسِ خمسہ ظاہری‘ میں سے ہر ایک کے دروازے پر دستک دی اُن میں سے ہر ایک سے پوچھا کہ بتاؤ ہمارا خالق کون ہے ؟ 

زِندگی کا مقصد کیا ہے ؟ 

مجھے مرنے کے بعد کہاں جانا ہے ؟

 اچھائی اور برائی کا معیار کیا ہے ؟

 مگر اِنسانی حواس اِنتہائی درماندگی کا اِظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ حقائق کوئی آواز نہیں کہ ہم سُن کر بتا سکیں، کوئی رنگ نہیں کہ دیکھ کر جواب دے سکیں، مادّی اَجسام نہیں کہ چُھو کر فیصلہ صادِر کر سکیں۔ یوں اِنسانی حواس کی بے بسی اور عاجزی پوری طرح نمایاں ہو جاتی ہے۔ اور جب یہ واضح ہو جاتا ہے کہ وہ تمام حقائق جن سے اِنسان کی اَخلاقی و رُوحانی اور اِعتقادی و نظریاتی زِندگی تشکیل پاتی ہے، وہ پانچوں حواس کی زد سے ماوراء ہیں، تب اِنسان اپنی عقل کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اُس کا دامن جھنجھوڑ کر کہتا ہے، اے میرے وُجود کے لئے سرمایۂ اِفتخار چیز

میری زندگی کے بنیادی حقائق سے متعلق مجھے تمام حواس نے مایوس کر دیا۔ ۔ ۔ اَب تو ہی اِس سلسلے میں میری رہنمائی کر۔ ۔ ۔ مگر عقل بھی اپنے پانچوں حواسِ باطنی کی بے بسی کا اِظہار کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اے اِنسان میں تو خود تیرے ’حواسِ ظاہری‘ کی محتاج ہوں۔ ۔ ۔جو چیز حواسِ خمسہ ظاہری کے اِدراک میں نہیں آسکتی اُس کے متعلق میں کیسے فیصلہ صادِر کر سکتی ہوں ۔ ۔ اگر ظاہری حواس خاموش ہیں تو میرے باطنی حواس کو بھی بے بس و مجبور سمجھ۔ ۔ ۔ اور یوں اِنسان کے ظاہری و باطنی تمام حواس قطعی طور پر اپنی تنگ دامانی کا اِعتراف کر لیتے ہیں۔

۔🏵  اِنسانی قلب کے لطائفِ خمسہ

اِن تمام حواسِ ظاہری و باطنی کے علاوہ بھی اللہ ربُّ العزت نے اِنسان کو ذریعۂ علم کے طور پر ایک اور باطنی سرچشمہ بھی عطا کر رکھا ہے، جسے ’وِجدان  کہتے ہیں۔ ’وِجدان‘ بعض ایسے حقائق کا اِدراک کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتا ہے جن میں حواسِ ظاہری و باطنی ناکام رہ جاتے ہیں۔

وِجدان کے بھی پانچ ہی گوشے ہیں جنہیں ’لطائفِ خمسہ‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے

۔1  لطیفۂ قلب۔2  لطیفۂ رُوح۔3  لطیفۂ سِرّ ۔4  لطیفۂ خفی۔5  لطیفۂ اَخفی

اِن لطائف کے ذریعے اِنسان کے دِل کی آنکھ بینا ہو جاتی ہے، حقائق سے پردے اُٹھنا شروع ہو جاتے ہیں، رُوح کے کان سننا شروع کر دیتے ہیں اور یوں اِنسانی قلب بعض اَیسی حقیقتوں کا اِدراک کرنے لگتا ہے جو حواس و عقل کی زد میں نہیں آ سکتے لیکن اِنسانی وِجدان کی پرواز بھی محض طبیعی کائنات تک ہی محدُود ہے۔

امام غزالیؒ اِس سلسلے میں اِرشاد فرماتے ہیں

وَ وراءُ العقل طورٌ أخر، تنفتح فیہ عین أُخریٰ، فیبصربھا الغیب و ما سیکون فی المستقبل و أُموراً أخر، العقل معزول عنھا۔ (المنقذ من الضلال: 54)

اور عقل کے بعد ایک اور ذریعہ ہے جس میں باطنی آنکھ کھل جاتی ہے۔ اُس کے ذریعے غیبی (اوجھل اور مخفی) حقائق اور مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والے واقعات کو دیکھا جا سکتا ہے اور اُن دیگر اُمور کو بھی جن کے اِدراک سے عقل قاصر رہتی ہے۔

وِجدان طبیعی کائنات کے مخفی حقائق کا اِدراک کرنے پر قادِر ہے لیکن وہ حقائق جو طبیعی کائنات کی وُ سعتوں سے ماوراء ہیں، جو خدا کی ذات و صفات سے متعلق ہیں اور اِنسانی تخلیق اور اُس کے مقصدِ تخلیق، نیز اُس کی موت اور مابعدالموت سے تعلق رکھتے ہیں، اُن کے بارے میں حتمی اور قطعی علم کے سلسلے میں وِجدان بھی ’حواس خمسہ ظاہری‘ اور ’عقل‘ کی طرح قاصر ہے۔ اِنسان نے یکے بعد دیگرے تینوں ذرائعِ علم کے دروازوں پر دستک دی، اُن میں سے ایک ایک کو پکارا مگر ہر ایک نے اُسے مایوس کر دیا۔ کوئی بھی ذریعہ اُس کے علم کو حتمیت اور قطعیت نہ دے سکا۔ اب اِنسان خدا کی ذات کو پکارتا اُٹھتا ہے

اے ربِّ کائنات! میں خود اپنی ذات، اِس کائنات اور تیری ذات کو یقینی طور پر سمجھنا چاہتا ہوں مگر میرے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں جو مجھے مطمئن کر سکے۔ اس لئے اس کائنات میں میرے لئے علم کا کوئی ایسا سرچشمہ پیدا کر دے، علم کا کوئی ایسا منبع تخلیق کر دے، جو مجھے اِن حقائق کے بارے میں حقیقی آگہی بخش سکے۔ جہاں تمام حواس ناکام ہو جائیں، وہاں اُسے پکارا جا سکے، جہاں اِنسانی عقل خیرہ ہو جائے وہاں اُس سے مدد کی درخواست کی جا سکے، جہاں اِنسانی وِجدان بھی نامراد لوٹ آئے وہاں اُس سرچشمۂ علم سے فیضان کی بھیک مانگی جائے۔

اِنسانی علوم کی بے بسی اور علمِ نبوّت کی ضرورت

اِنسان جب پوری طرح اپنی علمی بے بسی اور فکری کم مائیگی کا اِعتراف کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے ندا آتی ہے

اَے اِنسان۔ ۔ ۔ تو نے اپنے علم اور اپنے ذرائع کی بے بسی کا اِعتراف کر لیا۔ ۔ ۔ ہم تجھے یہی سمجھانا چاہتے تھے کہ تو کہیں اپنے حواس و عقل اور کشف و وجدان کی بدولت یہ تصوّر نہ کر بیٹھے کہ میرا علم درجۂ کمال کو پہنچ گیا ہے۔۔ ۔ ۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرا علم ابھی کائنات کی حقیقتوں کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکا۔۔ ۔ ۔ اِسی لئے قرآنِ مجید میں رُوح کی حقیقت پر بحث کے دوران میں اِرشاد فرمایا گیا

وَ مَا أُوتِیتُم مِّنَ العِلمِ إِلَّا قَلِیلاً ۔۔۔ الاسراء،17:85

اور تمہیں بہت ہی تھوڑا سا علم دیا گیا ہے

اے اِنسان! تُجھے جس سرچشمۂ علم کی تلاش تھی وہ ہم نے نظامِ نبوّت و رسالت کی صورت میں اِس کائنات میں قائم کر دیا ہے۔ ۔ ۔ جا دروازۂ نبوّت پر دستک دے۔ ۔ ۔ اُسی چوکھٹ سے رہنمائی طلب کر۔ ۔ ۔ علمِ نبوّت کے فیضان سے یہ تمام حقیقتیں بے نقاب ہو جائیں گی۔۔ ۔ ۔ چنانچہ علمِ نبوّت اور ہدایتِ ربانی نے بالآخر اِنسان پر وہ عظیم اِحسان کیا ہے کہ جس کی بدولت اُس کے شعوری، علمی اور فکری اِرتقاء کا سفر اپنی منزلِ مقصود تک جا پہنچا۔ یہ سب کچھ ربوبیتِ اِلٰہیہ کا پرتو تھا، جس نے اِنسان کی جسمانی نشو و نما کے ساتھ ساتھ اُس کی شعوری اور فکری و علمی نشو و نما کا بھی سامان مہیا کر دیا، ورنہ وہ ہمیشہ ہمیشہ حقیقت مطلقہ سے لاعلمی اور جہالت کا شکار رہتا۔ اُسی ربِّ کریم کی شانِ ربوبیت نے اُسے سنبھالا دیا اور اُس کا فکر و شعور اپنے ساحلِ مراد تک پہنچنے کے قابل ہوا۔ اِس آخری ہدایت کے بغیر اِنسانی فکر و شعور ’حسیت‘، ’عقلیت‘ اور ’تشکیک‘ کے بھنوروں سے نکل کر بالآخر ’لااَدریت‘ کے دامن میں اِعترافِ ناکامی کر کے سستانے لگا تھا اور اِس امر کا برملا اِعلان کر رہا تھا کہ  انسان حقیقتِ علیا کو نہیں جان سکتا اور حسنِ مطلق کی جلوہ ریزیوں سے شادکام نہیں ہو سکتا کہ اُسے یکایک ندا سنائی دی

"لَا تَقنَطُوا مِن رَّحمَۃِ ﷲِ" 

ﷲ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو

تمہاری جبلی، طبعی، حسی، عقلی اور قلبی و وِجدانی اِستعداد نے تمہیں جواب نہ دیا تو کیا ہوا، ربِّ کریم کی رحمت کا دروازہ تو بند نہیں ہوا۔ آ ہم تجھ پر اپنی ہدایت کا دروازہ کھولتے ہیں اور وہ ہے "بابِ نبوّت" جس کی دہلیز پر سرِ تسلیم خم کرنے سے تجھے وحی اِلٰہی کے نورِ علم سے یوں سرفراز اور منوّر کیا جائے گا کہ تیرے فکر و شعور کی ساری منزلیں قیامت تک اُسی روشنی میں طے ہوتی رہیں گی۔

اس فیضانِ نبوت کے ذریعے تیری تمام مایوسیاں ہمیشہ کے لئے ختم کر دی جائیں گی۔ پھر تیرا فکری اِرتقاء اِس ’علم بالوحی‘ کی روشنی میں ہمیشہ صحیح سمت میں اِس طرح جاری رہے گا کہ اُس میں کبھی تعطل نہ آ سکے گا۔

اِنسانی زندگی کا فکری و شعوری اِرتقاء کے سلسلے میں ﷲ ربّ العزت نے حواسِ خمسہ ظاہری، عقل کے حواسِ خمسہ باطنی اور وِجدان کے لطائفِ خمسہ کو پروان چڑھایا اور اُنہیں حقیقت تک پہنچنے کے لئے ذریعہ بنایا۔ تاہم جو حقائق اُن کی حدود سے ماوراء ہیں اُن کے لئے علم کی ضرورت اپنی جگہ مسلّم ہے۔ اُن حقائق سے آگہی کے لئے ﷲ تعالیٰ نے انبیاء کے ذریعے اِنسانیت کو ہدایت بخشی۔

Comments