۔344🌻) سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ(عشرہ مبشرہ)


۔۔1۔ حضور ﷺ کی والدہ سیدہ آمنہ (بنت وہب بن عبد مناف بن زہرہ) اور سیدنا سعد کے دادا ایک ہی تھے۔ ان کے والد وقاص آمنہ کے ماموں زاد تھے

صحیح بخاری ‏‏‏‏3725 ... بنو زہرہ نبی کریم ﷺ کے ماموں تھے، ان کا اصل نام سعد بن ابی مالک ہے۔

۔۔2۔ سیدنا سعد آئے تو حضور ﷺ نے فرمایا: یہ میرے ماموں ہیں، تو مجھے دکھائے کوئی اپنا ماموں (ترمذی 3752)

 سیدنا سعد کا بیان ہے کہ میں اسلام لانے والوں میں 3را مسلمان تھا 

(بخاری 3727) سیدنا ابوبکر کی تبلیغ سے مسلمان ہوئے۔ 

۔۔3۔ قرآن کی آیات جو سیدنا سعد کی وجہ سے نازل ہوئیں

صحیح مسلم 6238: سیدنا سعد  کی ماں نے قسم کھائی تھی کہ ان سے کبھی بات نہ کرے گی جب تک وہ اپنا دین (یعنی اسلام کا دین) نہ چھوڑیں گے اور نہ کھائے گی نہ پیئے گی۔ وہ کہنے لگی: اللہ تعالیٰ نے تجھےحکم دیا ہے ماں باپ کی اطاعت کرنے کا اور میں تیری ماں ہوں تجھ کو حکم کرتی ہوں اس بات کا، پھر تین دن تک یوں ہی رہی کچھ کھایا نہ پیا یہاں تک کہ اس کو غش آ گیا آخر ایک بیٹا اس کا جس نام عمارہ تھا کھڑا ہوا اور اس کو پانی پلایا۔ وہ بد دعا کرنے لگی سیدنا سعد کے لیے، تب یہ آیت اتری ”اور ہم نے حکم دیا آدمی کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کا لیکن وہ اگر زور ڈالیں تجھ پر کہ شریک کرے تو میرے ساتھ اس چیز کو جس کا تجھےعلم نہیں تو مت مان ان کی بات (یعنی شرک مت کر) اور رہ ان کے ساتھ دنیا میں دستور کے موافق۔“ (لقمان)

صحیح بخاری 1295: سیدنا سعد کی سخت بیماری میں عیادت کے لئے رسول اللہ ﷺ حجتہ الوداع کے سال (10 ھ میں) تشریف لائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک تہائی کر دو اور یہ بھی بڑی خیرات ہے یا بہت خیرات ہے اگر تو اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑ جائے تو یہ اس سے بہتر ہوگا کہ محتاجی میں انہیں اس طرح چھوڑ کر جائے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ یہ یاد رکھو کہ جو خرچ بھی تم اللہ کی رضا کی نیت سے کرو گے تو اس پر بھی تمہیں ثواب ملے گا۔ حتیٰ کہ اس لقمہ پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو۔ پھر میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میرے ساتھی تو مجھے چھوڑ کر (حجتہ الوداع کر کے) مکہ سے جا رہے ہیں اور میں ان سے پیچھے رہ رہا ہوں۔ اس پر نبی کریم ﷺ  نے فرمایا کہ یہاں رہ کر بھی اگر تم کوئی نیک عمل کرو گے تو اس سے تمہارے درجے بلند ہوں گے اور شاید ابھی تم زندہ رہو گے اور بہت سے لوگوں کو (مسلمانوں کو) تم سے فائدہ پہنچے گا اور بہتوں کو (کفار و مرتدین کو) نقصان۔ (پھر آپ ﷺ نے دعا فرمائی) اے اللہ! میرے ساتھیوں کو ہجرت پر استقلال عطا فرما اور ان کے قدم پیچھے کی طرف نہ لوٹا۔

صحیح مسلم 6241:‏‏‏‏ سیدنا سعد فرماتے ہیں، مشرکوں نے کہا: آپ ﷺ  ان لوگوں کو اپنے پاس سے بھیج دیجئیے یہ جرأت نہ کریں گے ہم پر، ان لوگوں میں میں بھی تھا، سیدنا ابن مسعود تھے اور ایک شخص ہذیل کا تھا اور سیدنا بلال اور دو شخص اور تھے جن کا میں نام نہیں لیتا۔ آپ ﷺ  کے دل میں جو اللہ نے چاہا وہ آیا۔ آپ ﷺ  نے دل ہی دل میں باتیں کیں، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ» (الأنعام: 52) ”مت ہٹا ان لوگوں کو جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح اور شام اور چاہتے ہیں اس کی رضامندی۔

۔۔4۔ مشرکین نے مسلمانوں کو چُھپ کر نماز ادا کرتے دیکھا تو مارنے لگے تو حضرت سعد نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی مار کر کئی افراد کو زخمی کیا جو اسلام کی طرف سے پہلا وار تھا۔ حبشہ کی طرف سے ہجرت کرکے واپس آئے حضرت عثمان بن مظعون کو مغیرہ کے بیٹے نے تھپڑ مارا تو حضرت سعد نے اس کے ناک کی ہڈی توڑ دی

(اسد الغابہ : 2/191، سیر الصحابہ: 2/601)

۔۔5۔ سب سے پہلے ہجرت کر کے مدینہ پاک سیدنا مصعب بن عمیر اور ابن ام مکتوم (نابینا) آئے یہ دونوں (مدینہ کے) مسلمانوں کو قرآن پڑھنا سکھاتے تھے۔ اس کے بعد سیدنا بلال، سعد اور عمار بن یاسر۔ پھر سیدنا عمر بن خطاب نبی کریم ﷺ کے بیس صحابہ کو ساتھ لے کر آئے اور نبی کریم ﷺ (ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عامر بن فہیرہ کو ساتھ لے کر) تشریف لائے۔ مدینہ کے لوگوں کو جتنی خوشی اور مسرت آپ ﷺ کی تشریف آوری سے ہوئی میں نے کبھی انہیں کسی بات پر اس قدر خوش نہیں دیکھا۔ (بخاری 3925)

صحیح بخاری 2328: مدینہ میں مہاجرین کا کوئی گھر ایسا نہ تھا جو تہائی یا چوتھائی حصہ پر کاشتکاری نہ کرتا ہو۔ سیدنا علی اور سعد بن مالک اور عبداللہ بن مسعود، اور عمر بن عبدالعزیز اور قاسم اور عروہ اور ابوبکر کی اولاد اور عمر کی اولاد اور علی رضی اللہ عنہ کی اولاد اور ابن سیرین سب بٹائی پر کاشت کیا کرتے تھے۔

صحیح مسلم 6230: قرآن کریم کی آیت ”واللہ یعصمک من الناس“ اُترنے سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضورﷺ کی کافروں سے حفاظت کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ کوئی نہیں تھا تو حضورﷺ نے فرمایا کہ کوئی بھلا انسان آ جاتا جو پہرے داری کرتا تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ اسلحہ سمیت آ گئے تو حضور ﷺ مسکرائے، دعا دی اور آرام سے سو گیے

۔۔6۔ غزوہ بدر میں دو کافروں کو حضرت سعد نے قیدی بنایا (ابو داود: 3388) اور سیدنا سعد کے بھائی سیدنا عمیر نے بھی اسی وقت شہادت پائی۔ یہ وہی کم عمر تھے جن کو سرکار نے فرمایا تو واپس چلا جا تو رونا شروع کر دیا تو سرکار نے فوج میں شامل کرلیا اور سیدنا سعد نے اپنی تلوار کی حمائل لڑنے کے لئے انہیں دے دی۔

صحیح مسلم 6233:‏‏‏‏ رسول اللہ ﷺ نے  احد کے دن سیدنا سعد کو خوش ہو کر فرمایا ”تیر مار اے سعد! فدا ہوں تجھ پر ماں باپ میرے۔“ صحیح مسلم 6237: ‏‏‏‏ ایک شخص مشرکوں میں سے تھا جس نے احد والے دن مسلمانوں کو مارا تھا اور اس کے تیر مارنے سے ایک مسلمان عورت کی شرم گاہ ظاہر ہو گئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تیر مار اے سعد“ میں نے اس کے لیے ایک تیر نکالا جس میں پیکان نہ تھا وہ اس کی پسلی میں لگا اور گرا اور اس کی شرمگاہ کھل گئی۔ رسول اللہ ﷺ یہ دیکھ کر ہنسے یہاں تک کہ میں نے آپﷺ کی کچلیوں کو دیکھا

صحیح مسلم 6004:  سیدنا سعد نے احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داہنے اور بائیں حضرات جبرئیل اور میکائیل علیھما السلام کو لڑتے دیکھا۔ سبحان اللہ

۔۔7۔ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی:“اللھم ادخل من ھذا الباب عبداً یحبک و تحبہ“ اے اللہ ! اس دروازے سے اس شخص کو داخل کر جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور تو اس سے محبت کرتا ہے ۔ تو اس دروازے سے سعد (رضی اللہ  تعالیٰ عنہ) داخل ہوئے

(المستدرک للحاکم 499/3 ح 6117، تاریخ دمشق 223، 224/22)

۔۔8۔ صلح حدیبیہ میں معاہدہ کی گواہی میں حضرت سعد کی گواہی بھی ڈالی گئی۔ صحیح مسلم 3613: فتح مکہ پرسیدنا سعد نے ایک بچے کے متعلق عرض کی کہ یا رسول اللہ یہ میرے بھائی عتبہ کا ہے، شکل بھی دیکھ لیں اس سے ملتی ہے۔ دوسری طرف  سیدنا عبداللہ بن زمعہ نے کہا کہ یارسول اللہ! یہ لڑکا میرا بھائی ہے۔ میرے باپ کے فراش پر اس کی لونڈی کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے، رسول اللہ نے فیصلہ سنایا کہ جس کے بستر پر بچہ پیدا ہو، اسی کا ہے اور زانی کے لئے پتھر ہے۔

صحیح بخاری 3700: سیدنا عمر کے نزدیک سیدنا سعد خلافت کے حقدار تھے۔

فاتح ایران: قادسیہ آپ کے ہاتھ پر فتح ہوا اور اللہ تعالیٰ نے کِسریٰ کو نیست و نابود کر دیا۔(سر اعلام النبلاء (115/1)

بیعت: سیدنا سعد سے سیدنا عثمان کے بعد سیدنا علی کی بیعت کر لی مگر جب پوچھا گیا کہ آپ کس گروہ کے ساتھ ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا:”ما أنا مع واحدۃ منھما” میں کسی ایک کے ساتھ بھی نہیں ہوں 

(المستدرک 501 ،502/3 ح 6126)

صحیح مسلم 7432:‏‏‏ سیدنا سعد اپنے اونٹوں کے پاس تھے، اتنے میں ان کا بیٹا عمر آیا (یہ عمر بن سعد وہی ہے جو سیدنا حسین سے لڑا اور جس نے دنیا کے لیے اپنی آخرت برباد کی) جب سیدنا سعد نے ان کو دیکھا تو کہا: پناہ مانگتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کی اس سوار کے شر سے۔ پھر وہ اترا اور بولا: تم اپنے اونٹوں اور بکریوں میں اترے ہو اور لوگوں کو چھوڑ دیا وہ سلطنت کے لیے جھگڑ رہے ہیں (یعنی خلافت اور حکومت کے لیے) سیدنا سعد نے اس کے سینہ پر مارا اور کہا: چپ رہ میں نے رسول اللہ  سے سنا، آپ  فرماتے تھے: ”اللہ دوست رکھتا ہے اس بندہ کو جو پرہیز گار ہے، مالدار ہے۔ چھپا بیٹھا ہے ایک کونے میں (فساد اور فتنے کے وقت) اور دنیا کے لیے اپنا ایمان نہیں بگاڑتا۔

  اس کے بعد اپنی وفات 55 ھ تک خانہ نشین رہے۔

Comments