۔407🌻) سیدنا عزیرؑ علیہ السلام کے لئے طئ زمانی

سیدنا عزیرؑ علیہ السلام اللہ ربّ العزت کے برگزیدہ پیغمبروں میں سے تھے۔ ایک روز آپ ایک ویران اور برباد بستی کے پاس سے گزرے جس کے مکانات منہدم ہو چکے تھے۔ اُس ویرانے کے مُشاہدے کے دوران اُن کے دِل میں یہ خیال وارِد ہوا کہ اللہ تعالیٰ اِس تباہ حال بستی کے مکینوں کو دوبارہ کس طرح زِندہ کرے گا جن کے جسم مٹی میں مٹی ہو چکے ہیں۔ اِس خیال پر اللہ ربّ العزت نے اُنہیں حیات بعد الموت کا نظارہ کروانے کے لئے ایک صدی کے لئے سلا دیا۔ بطورِ مُشاہدہ اُن پر 100 سال کے لئے موت طاری کر دی اور بعد اَزاں قدرتِ خداوندی ہی سے وہ زِندہ ہوئے اور ایک مکالمے میں ﷲ تعالیٰ نے ساری حقیقت اُن پر آشکار کی۔

قرآنِ مجید اِس بارے میں یوں گویا ہوتا ہے

فَأَمَاتَہُ اللہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ قَالَ کَم لَبِثتَ۔ (البقرہ، 2:259)

سو (اپنی قدرت کا مشاہدہ کرانے کے لئے) ﷲ نے اُسے سو برس تک مُردہ رکھا، پھر اُسے زندہ کیا۔ (بعد اَزاں) پوچھا: تو یہاں (مرنے کے بعد) کتنی دیر ٹھہرا رہا (ہے)؟

ایک صدی تک موت کی آغوش میں سوئے رہنے کے بعد جب حضرت عزیرؑ کو دوبارہ زِندگی ملی اور اُن سے پوچھا گیا کہ آپ کتنا عرصہ سوئے رہے ہیں؟

 تو اُنہوں نے جواب دیا

لَبِثتُ یَومًا أَو بَعضَ یَومٍ۔ (البقرہ، 2:259)

میں ایک دن یا ایک دن کا (بھی) کچھ حصہ ٹھہرا ہوں۔

سیدنا عزیرؑ کے اِس جواب پر اللہ تعالی نے تمام بات کھول کر اُن کے سامنے رکھ دی اور اپنی قدرت کا بھرپور نظارہ کروا دیا۔ فرمایا

بَل لَّبِثتَ مِائَۃَ عَامٍ فَانظُر إِلٰی طَعَامِکَ وَ شَرَابِکَ لَم یَتَسَنَّہ وَ انظُر إِلٰی حِمَارِکَ وَ لِنَجعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَ انظُر إِلیَ العِظَامِ کَیفَ نُنشِزُھَا ثُمَّ نَکسُوھَا لَحمًا۔ (البقرہ، 2:259)

(نہیں) بلکہ تُو سو برس پڑا رہا (ہے)، پس (اَب) تُو اپنے کھانے اور پینے (کی چیزوں) کو دیکھ (وہ) متغیر (باسی) بھی نہیں ہوئیں، اور (اَب) اپنے گدھے کی طرف نظر کر (جس کی ہڈیاں بھی سلامت نہیں رہیں) اور یہ اِس لئے کہ ہم تجھے لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنا دیں اور (اَب اُن) ہڈیوں کی طرف دیکھ، ہم اُنہیں کیسے جنبش دیتے (اور اُٹھاتے) ہیں، پھر اُنہیں گوشت (کا لباس) پہناتے ہیں

اِس آیتِ کریمہ میں جہاں اَصحابِ کہف کی طرز پر سیدنا عزیرؑ پر وقت کا اِنتہائی تیز رفتاری سے گزرنا بیان ہو رہا ہے کہ پوری صدی اُن کے محض ایک دِن میں گم ہو گئی، وہاں اُن کے کھانے پینے کی اشیاء پر تو صدی نے گزرنے میں ایک دِن کا وقفہ بھی نہ لگایا۔ اگر وہ صدی اُس خوراک پر حضرت عزیرؑ والی رفتار کے ساتھ محض ایک دِن میں گزرتی تب بھی کھلی فضا میں پڑا کھانا یقینا باسی ہو جاتا جبکہ یہاں اللہ تعالی نے اپنی نشانی کے طور پر اُس میں عفونت اور سڑاند تک پیدا نہ ہونے دی۔ یوں اِس ایک واقعہ میں وقت کی دو مختلف رفتاریں موجود ملتی ہیں۔ علاوہ ازیں اللہ کے پیغمبر کے گدھے کی ہڈیاں بھی گل سڑ کر پیوندِ خاک ہو گئیں۔ ایسا اِس لئے ہوا کہ گدھے پر وقت اپنی اصل رفتار سے گزرا اور ایک صدی گزر جانے کے بعد یقیناً اُسے ختم ہو جانا چاہئے تھے، سو ایسا ہی ہوا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا مُشاہدہ کروانے کے لئے اُس گدھے کو آپؐ کے سامنے زِندہ کیا، اُس کی ہڈیاں اِکٹھی ہوئیں اور وہ زِندہ سلامت کھڑا ہو گیا۔

قرآنِ مجید میں مذکور حضرت عزیرؑ کی اِس مثال میں بھی ’طئ زمانی‘ کا ایک منفرد انداز ملتا ہے جس میں 100 سال کا عرصہ گزر جانے پر اُن کے مادّی جسم کو کوئی گزند نہ پہنچی اور وہ موسموں کے تغیر و تبدل سے پیدا ہونے والے اَثرات سے محفوظ رہے۔ وقت اُن کے کھانے پینے کی اشیاء پر تو گویا ایک لمحے میں گزر گیا اور اُن کی تر و تازگی میں کوئی فرق نہ آیا لیکن وُہی صدی اللہ کے نبی کے گدھے پر اپنی عام رفتار کے ساتھ کچھ اِس طرح گزری کہ اُس کا نام و نشان تک مٹ گیا، حتیٰ کہ اُس کی ہڈیاں تک بکھر گئیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیرؑ کو احیائے موتیٰ کا نظارہ کروانے کے لئے اُن کے گدھے پر تجلی کی تو 100 سالہ مُردہ گدھے کی ہڈیاں اِکٹھی ہوئیں، اُن پر گوشت پوست چڑھ گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ زندہ ہو کر کھڑا ہو گیا۔ قادرِ مطلق نے چشمِ زدَن میں حضرت عزیرؑ کو "طئ زمانی" اور "اِحیائے موتیٰ" کے منظر دِکھلا دیئے۔

اســلام اور جـدیـد ســائنس

Comments