انسانی جسم کی حیاتیاتی تشکیل میں قدم قدم پر ربوبیتِ الٰہیہ کے حسّی اور معنوی لاتعداد مظاہر کار فرما ہیں۔ ہر جگہ حسنِ نظم اور حسنِ ترتیب کی آئینہ داری ہے۔ ہر کام اور مرحلے کے لئے مخصوص مدّت اور طریقِ کار متعین ہے۔ ایک مرحلے کے جملہ مقتضیات خود بخود پورے ہو رہے ہیں۔ جو کام اِنسان کے جسمانی پیکر سے بعد میں لیا جانے والا ہے اُس کی تمام تر ضرورتیں رحمِ مادر میں پوری کی جا رہی ہیں۔ ہر مرحلے پر نہ صرف اُن ضرورتوں کی کفالت ہو رہی ہے بلکہ بہرطور اُن کی حفاظت و نگہداشت کے بھی تمام اِنتظامات ساتھ ساتھ ہو رہے ہیں۔ اﷲ ربُّ العزت کی شانِ خلّاقیت کا نظارہ اِس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ مکمل اِنسان کے لئے مطلوبہ تمام صلاحیتوں کا جوہر ایک نطفہ کے اندر پیدا کر دیا گیا ہے۔ پھر اُس کے آثار اور علامات کو اپنے اپنے مقررہ اَوقات پر پورا کر کے ظاہر کیا جاتا ہے۔ اِس اُصول کو نظامِ ربوبیت کے تحت ’تقدیر‘ کے عنوان سے واضح کیا گیا ہے۔ ’تقدیر‘ کے معنی اَندازہ کرنے کے ہیں، خواہ یہ کسی شے کے وُجود میں ہو یا ظہور میں، کمیّت میں ہو یا کیفیت میں، مدّتِ پرورش میں ہو یا تکمیل میں۔
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے
وَ خَلَقَ کُلَّ شَیٍٔ فَقَدَّرَہٗ تَقدیراً (الفرقان، 25.2)
اور اُسی نے ہر چیز کو پیدا فرمایا ہے، پھر اُس (کی بقا و اِرتقاء کے ہر مرحلہ پر اُس کے خواص، اَفعال اور مدّت الغرض ہر چیز) کو ایک مقرّرہ اندازے پر ٹھہرایا ہے
باری تعالیٰ کے نظامِ ربوبیت کے اِس حسنِ تقدیر نے کائنات کے ظاہر و باطن میں ایک عجیب نظم و ترتیب، مطابقت و یگانگت اور توازُن و اِعتدال پیدا کر دیا ہے۔ یہی رنگ ہم بچے کی تشکیل و اِرتقاء کے جملہ مراحل میں کار فرما دیکھتے ہیں۔
اِس خاص موضوع پر اِرشادِ ربانی ہے
مِن أَیِّ شَیٍٔ خَلَقَہٗ مِن نُّطفَۃٍ خَلَقَہٗ فَقَدَّرَہٗ ثُمَّ السَّبِیلَ یَسَّرَہٗ ثُمَّ أَمَاتَہٗ فَأَقبَرَہٗ ثُمَّ إِذَا شآء أَنشَرَہٗ (عبس، 80:18.22)
ﷲ نے اُسے کس چیز سے پیدا فرمایا ہے؟ نطفہ میں سے اُس کو پیدا فرمایا، پھر ساتھ ہی اُس کا (خواص و جنس کے لحاظ سے) تعیّن فرما دیا پھر (تشکیل، اِرتقاء اور تکمیل کے بعد بطنِ مادر سے نکلنے کی) راہ اُس کے لئے آسان فرما دی پھر اُسے موت دی، پھر اُسے قبر میں دفن کر دیا گیا پھر جب وہ چاہے گا اُسے دوبارہ زندہ کر کے کھڑا کر لے گا
۔🌹 اِنسانی وُجود کی تکوین کے چار مراحل
قرآنِ مجید نے اِنسانی تخلیق کے ضمن میں پیش آنے والے چار مراحل کا ذِکر کیا ہے
۔❶ تخلیق ❷ تسویہ ❸ تقدیر ❹ ہدایت
اِن مراحل کا ذِکر سورۃ الاعلیٰ میں یوں کیا گیا ہے
سَبِّحِ اسمَ رَبِّکَ الأَعلَی الَّذِی خَلَقَ فَسَوّٰی وَ الَّذِی قَدَّرَ فَھَدٰی
اپنے ربّ کے نام کی تسبیح کریں جو سب سے بلند ہے جس نے (کائنات کی ہر چیز کو) پیدا کیا، پھر اُسے (جملہ تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ) درُست توازُن دیا اور جس نے (ہر ہر چیز کے لئے) قانون مقرّر کیا، پھر (اُسے اپنے اپنے نظام کے مطابق رہنے اور چلنے کا) راستہ بتایا
ہم دیکھتے ہیں کہ تکوینِ وُجود کے تمام مرحلے نظامِ ربوبیت کی پوری جلوہ سامانیوں کے ساتھ تکمیل پذیر ہوتے ہیں۔ ہر مرحلے کو ایک خاص حکمت و تدبر اور نظم کے ساتھ مکمل کیا جاتا ہے۔
کس طرح اِنسانی وُجود نطفے سے باقاعدہ خلق کے مرتبے تک پہنچتا ہے۔ ہر مرحلے میں اُس کی ایک مدّت مقرر ہے جس میں بعض خاص اُمور کی تکمیل ہوتی ہے، پھر اُسے اگلے مرحلے میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔
اِرشادِ الٰہی ہے
أَلَم نَخلُقکُم مِّن مّآء مَّھِینٍ فَجَعَلنَاہُ فِی قَرَارٍ مَّکِینٍ إِلٰی قَدَرٍ مَّعلُومٍ فَقَدَرنَا فَنِعمَ القَادِرُونَ (المرسلات، 77:20.23)
کیا ہم نے تمہیں ایک بے قدر پانی سے پیدا نہیں فرمایا پھر ہم نے اُسے ایک محفوظ جگہ (رحمِ مادر) میں رکھا ایک معلوم و معین انداز سے (مدت ) تک پھر ہم نے (اگلے ہر ہر مرحلے کے لئے) اندازہ فرمایا، پس ہم کیا ہی اچھے قادر ہیں
قرآن مجید میں ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا گیا ہے
وَ ھُوَ الَّذِی أَنشَأکُم مِّن نَّفسٍ وَّاحِدَۃٍ فَمُستَقَرٌّ وَّ مُستَودَعٌ قَد فَصَّلنَا الاٰیَات لِقَومٍ یَّفقَھُونَ (الانعام،9:86)
اور وُہی (ﷲ) ہے جس نے تمہیں ایک جان (سیل) سے پیدا فرمایا ہے، پھر (تمہارے لئے) ایک جائے اِقامت (ہے) اور جائے اَمانت (مراد رحمِ مادر اور دُنیا ہے یا دُنیا اور قبر)، بیشک ہم نے سمجھنے والوں کے لئے (اپنی قُدرت کی) نشانیاں کھول کر بیان کر دی ہیں
اِس آیتِ کریمہ میں دو اَلفاظ قابل توجہ ہیں: مُستَقَر اور مُستَودَع۔
مُستَقَرّ: قرار، إِستَقَرَّ سے ہے اور مُستَودَع: ودع، إِستَودَعَ سے ہے۔ "مستقر" میں عارضی طور پر ایک مقام پر ایک حالت میں رہنے کی طرف اِشارہ ہے جبکہ "مستودع" میں وہاں اپنا وقت گزارنے اور اگلی حالت میں منتقل ہونے کی طرف اِشارہ ہے۔ اِنسانی تکوینِ وُجود کے مرحلۂ تخلیق میں سپرم باپ کی پشت سے آتا ہے اور رحمِ مادر کے اندر اووم سے اپنا رابطہ قائم کرتا ہے
یہاں نظامِ ربوبیت کا کیسا شاندار اِہتمام ہے کہ ایک اوسط درجے کے آدمی کا ایک بار خارج شدہ مادۂ تولید اپنے اندر . 40,00,00,000 سپرم رکھتا ہے جس سے چالیس کروڑ عورتوں کے حمل واقع ہو سکتے ہیں، مگر نظامِ قدرت کی کرشمہ سازیاں دیکھئے کہ جب پہلا سپرم عورت کے رحم میں اووم سے پیوست ہوتا ہے تو اُسی وقت اووَم پر ایک جھلی آ جاتی ہے، جو دُوسرے سپرم کو اُس میں داخل ہونے سے روک دیتی ہے۔ اُسے فرٹلائزنگ ممبرنس کہتے ہیں۔ چنانچہ اُن دونوں کے ملاپ سے تکوینِ وُجودِ انسانی کے کام کا آغاز ہو جاتا ہے
بعد ازاں مختلف تخلیقی مرحلوں میں سے گزر کر ایمبریو وُجود میں آتا ہے۔ ربِّ کریم کی شانِ پروردگاری دیکھئے کہ اُس کے ہر مرحلے کے لئے خاص مدت مقرر ہے، جس میں بعض تخلیقات وُجود میں آتی ہیں، جن کے اندر تدریجاً اِرتقاء ہوتا رہتا ہے اور وہ ایمبریو یکے بعد دیگرے مختلف مرحلوں اور حالتوں میں منتقل ہوتا چلا جاتا ہے۔ اُس کی حالت میں ہفتہ وار تبدیلی آتی رہتی ہے۔ اُس کے اعضاء کا تخلیقی اور تکوینی عمل جاری رہتا ہے، حتیٰ کہ چھ ہفتے کے بعد بچے کی سی شکل دِکھائی دینے لگتی ہے۔ پھر اُس میں نظامِ اُستخوان اور بعد ازاں گوشت پوست کے ساتھ نظامِ اَعصاب کی تکمیل ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ مقامِ خلق کو پا لیتا ہے اور
ھُوَ الَّذِی یُصَوِّرُکُم فِی الأَرحَامِ کَیفَ یَشآء
وہ تمہیں ماؤں کے رحموں کے اندر ہی جسمانی شکل و صورت اور اندازِ ساخت عطا کر دیتا ہے، جیسے وہ چاہتا ہے
لَقَد خَلَقنَا الإِنسَانَ فِی أَحسَنِ تَقویمٍ
بیشک ہم نے اِنسان کو بہترین (اِعتدال اور توازُن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے
قرآنی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مرحلۂ تقدیر کی رحمِ مادر کے اندر مزید تین قسم کی تفصیلات ہیں:
۔① تعدیل ۔② تصویر ۔③ ترکیب
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے
یَا أَیُّھَا الإِنسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الکَرِیمِ الَّذِی خَلَقَکَ فَسَوّٰکَ فَعَدَلَکَ فِی أَیِّ صُورَۃٍ مَّاشآء رَکَّبَکَ (الانفطار82:6.8)
اے انسان! تجھے کس چیز نے اپنے ربّ کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا جس نے (رحمِ مادر کے اندر ایک نُطفہ میں سے) تجھے پیدا کیا، پھر اُس نے تجھے (اعضاء سازی کے لئے) درُست اور سیدھا کیا، پھر وہ تیری ساخت میں متناسب تبدیلی لایا جس صورت میں بھی چاہا اُس نے تجھے ترکیب دے دیا
اِس آیتِ کریمہ میں تخلیق و تسویہ کے بعد مذکورہ بالا تینوں مراتب کا ذِکر ہے۔ تعدیل، تصویر اور ترکیب۔ یہ تمام مرحلۂ تقدیر ہی کی تفصیلات ہیں۔
باری تعالیٰ نے آغازِ حمل سے اِختتامِ ضرورتِ رضاعت تک کا عرصہ بھی مقرر فرما دیا ہے، جو کم از کم 30 ماہ پر مشتمل ہے۔ جس طرح بچہ رحمِ مادر میں پرورش پا کر عالمِ آب و گل میں رہنے کے قابل ہو جائے تو اُسے تولّد کے ذریعے دُنیا میں منتقل کر دیا جاتا ہے اِسی طرح بچے کا معدہ عام غذاؤں کو ہضم کرنے کی اِستعداد حاصل کر لے تو تدریجاً ماں کا دُودھ خود بخود خشک ہونے لگتا ہے اور یہ تبدیلی اِس امر کی طرف اِشارہ ہوتا ہے کہ اَب بچے کو رضاعت کی ضرورت نہیں رہی، اُسے دُوسری غذاؤں کی طرف منتقل کیا جائے۔
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے
حَمَلَتہُ أُمُّہٗ کُرھاً وَّ وَضَعَتہُ کُرھاً وَ حَملُہٗ وَ فِصٰلُہٗ ثَلاثُونَ شَھراً۔ (الاحقاف 46:15)
اُس کی ماں نے اُسے تکلیف اٹھا کر پیٹ میں رکھا اور اِس طرح تکلیف سے جنا اور اُس کے حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت کم از کم تیس ماہ ہے۔
دورانِ حمل نظامِ ربوبیت کے مظاہر🌴
جب تک بچہ رحمِ مادر میں اپنے تشکیلی اور تکوینی مراحل طے کرتا ہے باری تعالیٰ کا نظامِ ربوبیت اُس کی جملہ ضروریات کی کفالت کے ساتھ ساتھ درج ذیل چار اُمور کا بڑے حسن و خوبی سے اِنتظام کرتا ہے۔ اِس کا ایک ایک پہلو ہمیں اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کی نشانیوں میں غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
۔❶ تغذِیہ ... بچے کی نشوونما کے لئے ہر قسم کا ضروری مواد رحمِ مادر میں فراہم ہوتا ہے۔
۔❷ حفاظت ۔۔۔ ماں کو پیش آنے والے جسمانی صدمات اور ضربات وغیرہ کے اثر سے بالعموم اُس کی حفاظت کی جاتی ہے تاکہ اُسے چوٹ نہ آئے۔
۔❸ نقل و حرکت ۔۔۔ رحمِ مادر میں اُس کے مناسبِ حال ضروری نقل و حرکت کا اِنتظام کر دیا جاتا ہے۔
۔❹ تکیّفِ حرارت ۔۔۔ طبی ضرورت کے مطابق رحمِ مادر کے اندر بچے کو مطلوبہ حرارت مہیا ہوتی رہتی ہے۔
ماں کے خون میں سے جو مواد بچے کے لئے مفید اور ضروری ہے اُسے خودبخود میسر آتا رہتا ہے اور جو مواد مضر اور نقصان دہ ہو وہ خود بخود ضائع ہو جاتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایک خلّاقِ عالم اور قادرِ مطلق کی باقاعدہ منصوبہ بندی کے بغیر یہ سب کچھ ایک نظم و ترتیب کے ساتھ کیسے ممکن ہے۔ فاعتبروا یا أولی الأبصار
۔🌴 اِنسانی زندگی کا شعوری اِرتقاء
جس طرح اِنسان کے جسمانی وُجود کی تکوین و تکمیل کے لئے نظامِ ربوبیّت کے حسین و جمیل جلوے پوری آب و تاب کے ساتھ ہر جگہ اور ہر مرحلے پر کار فرما نظر آتے ہیں، یہی رنگ اور ڈھنگ اِنسان کے شعوری ارتقاء کے نظام میں بھی نظر آتا ہے۔ خلّاقِ عالم کے حسنِ ربوبیت نے اِنسان کی جسمانی ساخت اور پرورِش کی ذِمہ داری نبھانے کے ساتھ ساتھ اُس کی مختلف ضرورتوں کی تکمیل کے لئے اُسے ایک مرحلہ وار نظامِ ہدایت سے بھی نوازا ہے، جس سے وہ اپنے ہر مرحلۂ حیات پر نہ صرف مختلف ضروریات و مقتضیات کو جانتا اور پہچانتا ہے بلکہ اُن کی تسکین و تکمیل کے لئے مختلف راستے اور وسائل بھی تلاش کرتا ہے۔ وہ جوں جوں عمر کے مختلف اَدوار طے کرتا چلا جاتا ہے اُس کی ضرورتیں بدلتی چلی جاتی ہیں، اُن میں تنوّع اور تسوّع کے ساتھ ساتھ مسلسل اِضافہ بھی ہوتا چلا جاتا ہے۔ پہلے سے موجود طبعی ذرائعِ ہدایت اُس کی نئی حاجات اور تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ سو خود بخود اگلی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے نئے دروازے کھل جاتے ہیں اور یوں اِنسان کا شعوری سفر اپنی منزل کی طرف جاری رہتا ہے۔ اِس شعوری پرورِش کی ذِمہ داری بھی ربِّ کائنات نے اپنے ذِمہ لے رکھی ہے اور وہ اُس کا آغاز بھی زمانۂ حمل سے کر دیتا ہے۔
رحمِ مادر میں اَعضائے جسمانی کی تشکیل و تکمیل کے ساتھ ساتھ مختلف ذرائعِ ہدایت کی تکوین کا سلسلہ بھی ایک خاص نظم و ترتیب سے شروع کر دیا جاتا ہے۔ پھر یہ سلسلہ پیدائش کے بعد بھی ایک خاص نظم کے تحت مختلف مراحل سے گزرتا ہوا جاری رہتا ہے۔
۔🌴 اِنسانی زِندگی اور اَقسامِ ہدایت
باری تعالیٰ نے اپنے نظامِ ربوبیت کا جلوۂ کمال اِنسانی زندگی کو مختلف قسم کی ہدایتوں سے سرفراز فرما کر دِکھایا ہے۔ اگر ماحولیاتی ضرورتیں، تقاضے اور حقائق کی نوعیتیں جدا جدا ہوں مگر ذریعۂ ہدایت اور ماہیتِ ہدایت ایک ہی ہو تو صاف ظاہر ہے کہ یہ تقاضائے پرورِش ہے اور نہ روِشِ بندہ پروری۔
ربّ کائنات نے اِنسان کو۔ ۔ ۔ بلکہ ہر ذِی رُوح کو۔ ۔ ۔ اُس کے حسبِ حال ذرائعِ ہدایت سے نوازا ہے۔ مطالعۂ قرآن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ہدایت بنیادی طور پر درج ذیل پانچ اَقسام پر مشتمل ہے، جبکہ آخری قسمِ ہدایت مزید تین صورتوں میں پائی جاتی ہے
۔① ہدایتِ فطری (ہدایتِ وِجدانی)۔② ہدایتِ حسی
۔③ ہدایتِ عقلی۔④ ہدایتِ قلبی
۔⑤ ہدایتِ ربانی (ہدایت بالوحی)
ا) ہدایتِ عامہ (ہدایتُ الغایہ)
ب) ہدایتِ خاصہ (ہدایتُ الطریق)
پ) ہدایتِ اِیصال (ہدایتُ الایصال)
۔① ۔ ہدایتِ فطری (ہدایتِ وِجدانی) ۔۔۔ شبلی نعمانی اور ابوالکلام آزاد اِسے ہدایتِ وجدانی سے تعبیر کرتے ہیں۔ بقول ابوالکلام وجدان کی ہدایت یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں ہر مخلوق کی طبیعت میں کوئی ایسا اندرونی اِلہام موجود ہے جو اُسے زندگی اور پرورِش کی راہوں پر خود بخود لگا دیتا ہے اور وہ خارجی رہنمائی و تعلیم کی محتاج نہیں ہوتی۔ بچہ اِنسان کا ہو یا حیوان کا، جونہی شکمِ مادر سے باہر آتا ہے خودبخود معلوم کر لیتا ہے کہ اُس کی غذا ماں کے سینے میں ہے اور جب پستان منہ میں لیتا ہے تو جانتا ہے کہ اُسے چوسنا چاہئے۔ بلی کے بچوں کو ہمیشہ دیکھتے ہیں کہ ابھی ابھی پیدا ہوئے ہیں، اُن کی آنکھیں بھی نہیں کھلی ہیں لیکن ماں جوشِ محبت میں اُنہیں چاٹ رہی ہے، وہ اُس کے سینے پر منہ مار رہے ہیں۔ یہ بچہ جس نے اِس دُنیا میں ابھی ابھی قدم رکھا ہے، جسے خارِج کے مؤثرات نے چُھوا تک نہیں، وہ کس طرح معلوم کر لیتا ہے کہ اُسے پستان منہ میں لے لینا چاہئیں اور اُس کی غذا کا سرچشمہ یہیں ہے؟ وہ کون سا فرشتہ ہے جو اُس وقت اُس کے کان میں پھونک دیتا ہے کہ اِس طرح اپنی غذا حاصل کر لے؟ یقیناً وہ فطری ہدایت کا فرشتہ ہے اور یہی وہ فطری ہدایت ہے جو حواس و اِدراک کی روشنی نمودار ہونے سے بھی پہلے ہر مخلوق کو اُس کی پرورش و زِندگی کی راہوں پر لگا دیتی ہے۔
بلاشبہ یہ ربوبیتِ اِلٰہی کی فطری ہدایت ہے، جس کا اِلہام ہر مخلوق کے اندر اپنی نمود رکھتا ہے اور جو اُن پر زندگی اور پرورِش کی تمام راہیں کھول دیتا ہے۔ یہ ہدایت ہر ذِی رُوح کو پیدائش کے ساتھ ہی عطا کر دی جاتی ہے۔
اِس کا ذِکر قرآنِ مجید میں اِس طرح آیا ہے
رَبُّنَا الَّذِی أَعطٰی کُلَّ شَیٍٔ خَلقَہٗ ثُمَّ ھَدٰی (طہٰ،20:50)
ہمارا ربّ وہی ہے جس نے ہر چیز کو (اُس کے لائق) وُجود بخشا، پھر (اُس کے حسبِ حال) اُس کی رہنمائی کی
۔② ہدایتِ حسّی ۔۔۔ ہدایت کا دُوسرا مرتبہ حواس اور مدرِکاتِ حسّی کی ہدایت ہے اور وہ اِس درجہ واضح و معلوم ہے کہ تشریح کی ضرورت نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اگرچہ حیوانات اُس جوہرِ دِماغ سے محروم ہیں جسے فکر و عقل سے تعبیر کیا جاتا ہے تاہم قدرت نے اُنہیں اِحساس و اِدراک کی وہ تمام قوّتیں دے رکھی ہیں جن کی زِندگی و معیشت کے لئے ضرورت تھی اور اُن کی مدد سے وہ اپنے رہنے سہنے، کھانے پینے، تولد و تناسل اور حفاظت و نگرانی کے تمام وظائف حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیتے رہتے ہیں۔ پھر حواس و اِدراک کی یہ ہدایت ہر حیوان کے لئے ایک ہی طرح کی نہیں ہے بلکہ ہر وُجود کو اُتنی ہی اور ویسی ہی اِستعداد دی گئی ہے جتنی اور جیسی اِستعداد اُس کے اَحوال و ظروف کے لئے ضروری تھی۔ چیونٹی کی قوتِ شامّہ نہایت دُور رس ہوتی ہے، اِس لئے کہ اُسی قوت کے ذریعے وہ اپنی غذا حاصل کر سکتی ہے۔ چیل اور عقاب کی نگاہ تیز ہوتی ہے کیونکہ اگر اُن کی نگاہ تیز نہ ہو تو بلندی میں اُڑتے ہوئے اپنا شکار دیکھ نہ سکیں۔
یہ ہدایت جو حواسِ خمسہ کے ذریعے میسر آتی ہے، اس کا ذِکر قرآنِ مجید ’سمع‘ و ’بصر‘ کے حوالے سے یوں کرتا ہے
إِنَّ السَّمعَ وَ البَصَرَ وَ الفُؤادَ کُلُّ أُولٰئِکَ کَانَ عَنہُ مَسؤلاً (بنی اسرائیل، 17:36)
بیشک کان اور آنکھ اور دل، ان میں سے ہر ایک سے باز پرس ہوگی
وَ جَعَلَ لَکُمُ السَّمعَ وَ الأَبصَارَ وَ الأَفئِدَۃَ۔ (ملک، 23:68
اور اُس نے تمہاری رہنمائی کے لئے کان، آنکھیں اور دِل و دماغ پیدا فرمائے۔
۔③ ۔ ہدایتِ عقلی ۔۔۔ ہدایتِ عقلی عقل اور فہم و تدبّر سے میسر آتی ہے۔ اِس کا ذِکر قرآنِ مجید قلب، عقل، فؤاد اور تعقّل و تدبّر کے الفاظ میں کرتا ہے۔ چنانچہ جا بجا اِرشاد ہوتا ہے:
أَفَلاَ تَعقِلُونَ؟ تم غور و فکر کیوں نہیں کرتے؟
أَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ؟ وہ تدبر اور بصیرت سے کام کیوں نہیں لیتے؟
۔④ ہدایتِ قلبی ۔۔۔ ہدایتِ قلبی تزکیۂ نفس کے ذریعے دِل کی صفائی اور باطنی روشنی سے میسر آتی ہے۔ اس کا ذِکر قرآنِ مجید ’علمِ لدُنی‘ کے اَلفاظ میں کرتا ہے۔ جیسا کہ حضرت خضرؑ علیہ اسلام کے بارے میں فرمایا گیا ہے
أٰ تَینَاہُ رَحمَۃً مِّن عِندِنَا وَ عَلَّمنَاہُ مِن لَّدُنَّا عِلمَاً (الکہف، 18:65
ہم نے اُسے اپنی بارگاہ سے (خصوصی) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اُسے اپنا علمِ لدُنی (یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم) سکھایا تھا
یہاں تک ہدایت اور رہنمائی کی جتنی صورتیں بھی بیان ہوئیں سب ظنّی تھیں اور اُن میں خطا کا اِحتمال باقی تھا۔ اُن سے حاصل ہونے والا علم یقینی اور قطعی نہیں ہو سکتا۔ اُس سے حاصل ہونے والے نتائج خواہ کتنے ہی صحیح کیوں نہ ہوں لیکن غلطی کا اِمکان پھر بھی باقی رہتا ہے کیونکہ اُن میں اِنسانی کسب کو دخل حاصل ہے۔
۔5۔ ہدایتِ ربانی (ہدایت بالوحی)
اس کی مزید تین قسمیں ہیں
- ۔1 ۔۔۔ ہدایتِ عامہ (ھدایۃُ الغایۃ)
یہ وہ یقینی ہدایت ہے جو انبیائے کرام کو بصورتِ وحی عطا ہوتی ہے اور اُن کے ذریعے وہ عام اِنسانوں تک پہنچائی جاتی ہے۔
اِس کا ذِکر قرآنِ مجید میں یوں ملتا ہے
وَ جَعَلنَا مِنھُم أَئِمَّۃً یَّھدُونَ بِأَمرِنَا۔ (السجدہ، 32:24)
اور ہم نے ان میں سے پیشوا یعنی انبیاء مبعوث کر دیئے جو انہیں ہمارے حکم کی رہنمائی عطا کرتے ہیں۔
اِسی طرح اِرشاد فرمایا گیا
قَد تَبَیَّنَ الرُّشدُ مِنَ الغَیِّ۔ (البقرہ، 2:265)
بیشک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے۔
فَمَن شآء فَلیُؤمِن وَ مَن شآء فَلیَکفُر۔ (الکہف،18:29)
پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے اِنکار کر دے۔
ایک اور مقام پر اِس ہدایت کا ذکر یوں کیا گیا
إِنَّا ھَدَینَاہُ السَّبِیلَ إِمَّا شَاکِراً وَّ إِمَّا کُفُوراً (الدھر، 76:3)
بیشک ہم نے اُسے سیدھی راہ دِکھا دی ہے، اَب چاہے وہ مان لے یا اِنکار کر دے
یہ ہدایت تمام بنی نوع اِنسان کے لئے ہوتی ہے۔ اِس میں کسی کو اِمتیاز حاصل نہیں ہوتا۔ تمام انبیائے کرام کی دعوت اِسی ہدایت پر مشتمل ہوتی ہے۔ اِس لحاظ سے قرآن خود کو "ھُدیً لِّلنَّاسِ" کہتا ہے، کہ یہ قرآن تمام اِنسانوں کے لئے ہدایت ہے۔ یعنی تمام اِنسانوں کو بلا اِمتیازِ رنگ و نسل نورِ ہدایت مہیا کرتا ہے اور ہر ایک کو جہالت و گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر علم و ہدایت کے اُجالوں کی طرف لے آتا ہے۔ یہ ہدایت ہر ایک کو زِندگی کا مقصد اور منزل کا شعور عطا کرتی ہے۔ اسے ہدایتِ عامہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
-۔2 ... ہدایتِ خاصہ (ھدایۃُ الطریق)
یہ ہدایتِ ربانی کا دُوسرا درجہ ہے، جو ہدایتِ عامہ کے بعد بالخصوص اہلِ ایمان کو نصیب ہوتا ہے۔ جو لوگ انبیاء کی دعوت پر اِیمان لانے کے بعد سعادتِ اُخروی کی منزلِ مقصود کے حصول کے لئے کوشاں ہو جاتے ہیں اُنہیں باری تعالیٰ اِس خاص ہدایت کی دولت سے سرفراز فرماتے ہیں۔ یہ ہدایت اُس راستے کی مفصل نشاندہی پر مبنی ہوتی ہے جو اصل منزل تک پہنچاتا ہے۔
اس کا ذِکر قرآنِ مجید میں یوں ملتا ہے
وَ مَن یُّؤمِنم بِاﷲِ یَھدِ قَلبَہٗ۔(التغابن، 64:11)
اور جو کوئی اللہ پر اِیمان لے آئے اُس کے دِل کو صحیح رہنمائی عطا کر دی جاتی ہے۔
إِنَّ الَّذِینَ اٰمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ یَھدیھِم رَبُّھُم بِإِیمَانِھِم۔(یونس، 10:9)
بیشک جو لوگ اِیمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اُنہیں اُن کا ربّاُن کے اِیمان کے باعث (جنتوں تک) پہنچا دے گا۔
صاف ظاہر ہے کہ یہ ہدایت کا وہ مقام ہے جو صرف ایمان اور اَعمالِ صالحہ کے نتیجے میں سامنے آتا ہے۔
مزید اِرشاد فرمایا گیا ہے
فَھَدَی اللہُ الَّذِینَ اٰمَنُوا۔(البقرہ، 2:132)
پھر اللہ تعالیٰ نے اِیمان والوں کو ہدایت دی۔
وَالَّذِینَ جَاھَدُوا فِینَا لَنَھدیَنَّھُم سُبُلَنَا۔ )العنکبوت،69:29)
جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں ہم یقیناً اُن پر اپنے راستے کھول دیتے ہیں۔
یہ ہدایتِ عامہ سے بلند ہدایت ہے جو ہر شخص کے لئے مقرّر نہیں۔ یہ صرف اُنہی لوگوں کے لئے خاص ہے جو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں۔
اِرشاد فرمایا گیا
وَالَّذِینَ اھتَدَوا زَادَھُم ھُدًی۔(محمد،17:47)
اور جن لوگوں نے ہدایت پائی، اللہ نے اُن کی ہدایت میں مزید اِضافہ کر دیا۔
۔3 ... ہدایتُ الایصال
یہ وہ آخری اور حتمی ہدایت ہے جس میں منزلِ مقصود تک کامیابی و کامرانی کے ساتھ پہنچنے کی قطعی ضمانت عطا کی جاتی ہے۔ یہ ہدایت عام اہلِ اِیمان کے لئے بھی نہیں بلکہ صرف اُن مومنوں کے لئے ہے جو تقویٰ کی شرائط کو پورا کرتے ہیں۔ اِس میں نہ صرف منزلِ مقصود کی روشنی مہیا کی جاتی ہے اور اُس کے راستے کی نشاندہی کی جاتی ہے بلکہ راہِ حق کے مسافروں کو خیر و عافیت کے ساتھ منزلِ مقصود تک پہنچا بھی دیا جاتا ہے۔ یہ رہنمائی کی سب سے اعلیٰ صورت ہے جس کی ضمانت قرآنِ مجید کے علاوہ دُنیا کی کوئی اور کتاب مہیا نہیں کر سکتی۔
اِس کا ذِکر اِن اَلفاظ میں کیا گیا ہے
سَیَھدیھُم وَ یُصلِحُ بَالَھُم (محمد،5:47)
اللہ تعالیٰ عنقریب اُنہیں اپنی منزل تک پہنچائے گا اور اُن کا حال سنوار دے گا
اِسی طرح اہلِ جنت اپنی منزل ’جنت‘ کو پاکر کہیں گے
اَلحَمدُ للہِ الَّذِی ھَدَانَا لِھٰذَا۔ (الاعراف،4:37)
سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس نے ہمیں یہاں تک پہنچایا۔
قرآنِ حکیم اپنی رہنمائی کے اِس درجے کا ذِکر اِن اَلفاظ میں بھی کرتا ہے
إِنَّ ھٰذَا القُرآنَ یَھدی لِلَّتِی ھِیَ أَقوَمُ۔ )بنی اسرائیل،9:17)
بیشک یہ قرآن اُس (منزل) کی رہنمائی کرتا ہے جو سب سے درُست ہے۔
ہدایتِ اِیصال کے میسر آ جانے کے بعد گمراہی کا کوئی اِمکان باقی نہیں رہتا۔
اســلام اور جـدیـد ســائنس
Comments
Post a Comment