۔405🌻) معراجِ مصطفی ﷺ اور طئ مکانی و زمانی


تاجدارِ کائنات ﷺ کا معجزۂ معراج اپنے اندر نوعِ اِنسانی کے لئے رہتی دُنیا تک کے لئے بہت سے سبق رکھتا ہے۔ وقت کے ایک نہایت قلیل لمحے میں مکان و لامکاں کی سیر اور اُسی قلیل ساعت میں کرۂ ارضی کی طرف واپسی عقلِ اِنسانی سے ماوراء ایک ایسا راز ہے جسے کسی دَور کی سائنس افشاء نہ  کر سکی۔ معجزہ نام ہی اُس فعل کا ہے جو عقلی کسوٹی سے پرکھا نہ جا سکے۔ شبِ معراج حضور ﷺ وقت کی ایک قلیل جزئی میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس پہنچے جہاں موجود تمام انبیاء کی نے آپﷺ کی اِقتداء میں نماز ادا کی۔ پھر آپﷺ عالمِ بالا کی طرف روانہ ہوئے اور مکان و لامکاں کی حدود کے اُس پار سدرۃُ المنتہیٰ سے بھی آگے ربِ ذوالجلال کی رحمتِ بے پایاں سے اُس کی ملاقات سے شرف یاب ہوئے۔

اربوں نوری سال سے زیادہ وسیع مادّی کائنات کی آخری حدود سے بھی پرے اِس محیر العقول رفتار کا سفر اور سکانِ ارضی کی طرف واپسی، یہ سب کچھ وقت کے محض ایک لمحے میں ہو گیا۔ وقت کا ایک لمحہ آپ ﷺ پر یوں پھیلا کہ اُس میں یہ طویل عرصۂ دراز گم ہو گیا اور جب آپ واپس تشریف لائے تو دروازے کی کنڈی ابھی ہل رہی تھی۔ یہ سب کیا تھا ؟ 

یہ اللہ ربُ العزت کی قدرت کا ایک نظارہ تھا اور تاجدارِ انبیاء ﷺ کا ایک ایسا جامع معجزہ تھا جسے عقلی و سائنسی بنیادوں پر پرکھنا اور سمجھنا قیامت تک ممکن نہیں کیونکہ فزکس کے تمام قوانین اِسی طبیعی کائنات کی حدود سے متعلق ہیں۔ جب اللہ ربّ العزت کا کوئی فعل طبیعی کائنات کے عام ضابطوں سے ہٹ کر ظاہر ہوتا ہے تو اُسے ہماری دانش سمجھنے سے قاصر رہتی ہے۔

معجزۂ معراج طئ زمانی و مکانی دونوں کا جامع ہے۔ اس کا صدور نظریۂ اِضافیت میں ملنے والے وقت کے ٹھہراؤ کی ممکنہ صورت کے برعکس ہوا۔ نظریۂ اِضافیت کے مطابق روشنی کے قریب قریب رفتار سے بھاگنے والے مادّی جسم پر وقت کرۂ ارضی پر معمول کی زندگی کی نسبت اِنتہائی تیزی سے گزر جاتا ہے۔ آئن سٹائن کی دو جڑواں بھائیوں والی مثال میں روشنی کی نصف رفتار سے محوِ سفر خلا باز پر زمینی دس سال دُگنی رفتار سے گزرے جس کی وجہ سے خلا باز کی عمر میں صرف پانچ سال کا اِضافہ ہوا جبکہ اُس کا زمینی بھائی اپنی دس سال عمر گزار چکا تھا، گویا وہ خلا باز بھائی سے پانچ سال بڑا ہو چکا تھا۔

نظریۂ اِضافیت اور مکان و زمان کے نئے نظریات کے مطابق ہم نے دیکھا کہ روشنی کے قریب رفتار سے سفر کرنے پر وقت زیادہ تیزی سے گزر جاتا ہے اور ایسا سفر کرنے والا مادّی جسم وقت کی دَوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے جبکہ معراج کے دوران تاجدارِ کائنات ﷺ نے وقت کو پچھاڑ دیا۔ عام روشنی سے ہزاروں گنا تیز رفتار سے سفر کرنے پر بھی آپ ﷺ وقت کی رَو میں پیچھے رہ جانے کی بجائے آگے نکل گئے۔ یہی آپ ﷺ کا معجزہ ہے کہ عام سائنسی و عقلی قوانین کے برخلاف نہ صرف روشنی سے زیادہ رفتار حاصل کر لی بلکہ صحیح سلامت سفر کے بعد وقت کے اُسی لمحے میں واپس بھی تشریف لے آئے۔ یہ اللہ ربّ العزت کی قدرتِ کاملہ کا اِظہار تھا جس کی بدولت آپ سے یہ معجزہ صادِر ہوا، چنانچہ اللہ تعالی نے اِس فعل کی نسبت بھی اپنی ہی طرف کی اور فرمایا

سُبحَانَ الَّذِی أَسرٰی بِعَبدِہٖ لَیلاً۔ (بنی اسرائیل، 17:1)

وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصے میں اپنے (محبوب اور مقرب) بندے کو لے گئی۔

سیدنا سلیمانؑ کے ایک برگزیدہ صحابی "آصف بن برخیا" نے پلک جھپکنے سے بھی کم مدّت میں تختِ بلقیس 900 میل کی دُوری سے لا کر حاضر کر دیا۔ یہ طئ مکانی کی ایک بہترین قرآنی مثال ہے جس میں فاصلے سمٹ گئے اور دُوسری طرف یہ طئ زمانی کی بھی نہایت جاندار مثال ہے کہ پلک کا جھپکنا یقیناً وقت کا ایک قلیل ترین لمحہ ہوتا ہے۔ اُس قلیل ترین ساعت میں اِتنی مسافت طے کرنا اور اِتنا وزن اُٹھا کر واپس پہنچنا طئ زمانی و مکانی دونوں کا جامع ہے۔

یہاں ایک توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ طئ زمانی و مکانی پر مشتمل اِس محیرالعقول واقعہ کا صدُور سیدنا سلیمانؑ کے ایک مقرب اُمتی سے ہو سکتا ہے تو اِس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُمتِ مصطفوی کے نفوسِ قدسیہ کے کمالات کی حد کیا ہو گی! مردِ مومن کے اِشارۂ ابرو سے ہزاروں میل کی مسافت اُس کے ایک قدم میں سمٹ آتی ہے اور اُس کے قدم اُٹھانے سے پہلے شرق و غرب کے مقامات زیرِ پا آ جاتے ہیں۔

مذکورہ بالا قصصِ قرآنی میں جہاں اَصحابِ کہف اور حضرت عزیرؑ کی مثالوں میں حالتِ سکون میں طئ زمانی کی ایک صورت سامنے آئی وہاں سیدنا سلیمانؑ کے صحابی آصف بن برخیا کی مثال میں طئ مکانی کے ساتھ ساتھ حرکت کی حالت میں طئ زمانی کی ایک صورت بھی پائی گئی۔ جدید سائنسی تحقیقات اور اُن کے نتیجے میں حاصل ہونے والے مسلّمات و نظریات کی رُو سے حالتِ سکون میں وقت کا اِنتہائی تیزی سے گزر جانا محال ہے، البتہ روشنی کے قریب قریب رفتار حاصل کر لینے والے مادّی جسم کے لئے ایسا ممکن ہے۔ 

چنانچہ جہاں پہلی دو مثالوں کی سائنسی توجیہ موجودہ نظریات کی رُو سے ناممکن قرار پاتی ہے وہاں تیسری مثال جس میں طئ زمانی و مکانی کسی قدر اِکٹھی ہو گئی ہیں وہاں بھی سائنسی نظریات کاملاً تفہیم دینے سے قاصر ہیں اور ’آصف بن برخیا‘ کا کرۂ ارضی پر ہی رہتے ہوئے روشنی کی سی رفتار سے سفر کرنا اور 900 میل سے زیادہ فاصلہ طے کرتے ہوئے منوں وزنی تخت اُٹھا لانا عقلاً محال نظر آتا ہے۔ وجہ اِس کی یہ ہے کہ قوانینِ طبیعیات کی رُو سے زمین کے کرۂ ہوائی میں اِتنی محیر العقول رفتار سے کیا جانے والا سفر یقینا اُس مادّی جسم (یعنی آصف بن برخیا) کو اُسی طرح جلا کر بھسم کر دیتا جیسے خلا سے زمینی حدود میں داخل ہونے والے سیارچے اپنی تیز رفتاری کی وجہ سے جونہی ہوا سے رگڑ کھاتے ہیں، شہاب ثاقب کے طور پر جل کر راکھ ہو جاتے ہیں۔’آصف بن برخیا‘ کا اِن سائنسی قوانین کو شکست دینا اور نہ صرف اِس حیران کن رفتار پر اپنا جسم ہوا کی رگڑ کے باوُجود جلنے سے بچائے رکھنا بلکہ تختِ شاہی کو بھی آنچ نہ آنے دینا یقیناً اُن کی بہت بڑی کرامت ہے جو فقط اِلہامی کتاب کے علم ہی کی بدولت اُنہیں میسر آئی تھی۔

اســلام اور جـدیـد ســائنس


Comments