کیا فیملی پلاننگ درست ہے؟
شریعتِ مطہرہ میں نکاح کے من جملہ اغراض و مقاصد میں سے ایک اہم مقصد توالد و تناسل ہے، اور اولاد کی کثرت مطلوب اور محمود ہے، یہی وجہ ہے کہ حدیثِ مبارک میں زیادہ بچہ جننے والی عورت سے نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، فیملی پلاننگ کا مروجہ منصوبہ منشاءِ شریعت کے خلاف ہے، اس خطرہ کے پیش نظر کہ بچے زیادہ ہوں گے تو ان کے معاش کا انتظام کیسے ہوگا، فیملی پلاننگ کرنا حرام ہے، زمانہ جاہلیت میں رزق کی کمی کے خدشہ سے اپنی اولاد کو قتل کر دیا کرتے تھے، آج کی فیملی پلاننگ بھی اس تصور کی ایک مہذب تصویر ہے، قرآنِ پاک میں اس سے سختی سے منع کیا گیا ہے کہ
” فقر کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو“
اسی طرح کثرتِ آبادی کے خوف سے پیدائش کو محدود کرنا نظامِ خداوندی میں دخل اندازی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے جتنی جان دار مخلوق پیدا کی ہے سب کے لیے رزق کا وعدہ فرمایا ہے۔
ہاں اعذار کی بنا پر عارضی طور پر مانعِ حمل تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں
۔1۔۔ عورت اتنی کم زور ہو کہ حمل کا بوجھ اٹھانے کی استطاعت نہ ہو، حمل اور درد زہ کی تکالیف جھیلنے کی سکت نہ ہو یا بچہ کی ولادت کے بعد شدید کم زوری اور نقاہت لاحق ہونے کا اندیشہ ہو ۔
۔2۔۔ دو بچوں کے درمیان اس غرض سے مناسب وقفہ کے لیے کہ بچے کو ماں کی صحیح نگہداشت مل سکے، اور دوسرے بچے کا حمل ٹھہرنے کی وجہ سے پہلے بچے کے لیے ماں کا دودھ مضر اور نقصان دہ نہ بنے۔
۔3۔۔ ۔ عورت بد اخلاق اور سخت مزاج ہو اور خاوند اسے طلاق دینے کا ارادہ رکھتا ہو اور اندیشہ ہو کہ بچہ کی ولادت کے بعد اس کی بد اخلاقی میں مزید اضافہ ہو جائے گا، ایسی صورت میں بھی عزل جائز ہے۔
۔4۔۔ اسی طرح طویل سفر میں ہو، یا دارالحرب میں ہونے کی وجہ سے بچے کے جانی یا ایمانی نقصان کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں بھی عزل جائز ہے۔
مذکورہ صورتوں میں مانعِ حمل ایسا طریقہ اور تدبیر اختیار کرنا درست ہے کہ جس سے وقتی طور پر حمل روکا جاسکے، اس طور پر کہ جب چاہیں دوبارہ توالد و تناسل کا سلسلہ جاری رکھا جا سکتا ہو۔ باقی آپریشن کرکے بچہ دانی نکلوانا یا نس بندی کروانا یا کوئی ایسا طریقہ اپنانا جس سے توالد و تناسل (بچہ پیدا کرنے) کی صلاحیت بالکل ختم ہو جائے، شرعاً جائز نہیں ہے، یہ منشاءِ شریعت کے خلاف، نظامِ خداوندی میں دخل اندازی اور کفرانِ نعمت ہے۔
نیز مذکورہ اعذار کی صورت میں مانعِ حمل تدابیر اختیار کرنے کی تو اجازت ہے، لیکن حمل چار ماہ کا ہو جانے کے بعد اسے ساقط کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
"عن عائشة عن جذامة بنت وهب أخت عکاشة، قالت: حضرت رسول الله ﷺ … ثم سألوه عن "العزل"؟ فقال رسول الله ﷺ: ذلک الوأد الخفي". وزاد عبید الله في حدیثه عن المقرئ: ﴿وَاِذَا الْمَوْؤدَةُ سُئِلَتْ﴾". (صحیح مسلم، باب جواز الغیلة، وهی وطی المرضع وکراهة العزل، النسخة الهندیة ۱/۴۶۶،)
قال الملاعلي القاري:۔۔۔ "قیل: ذلک لایدل علی حرمة العزل، بل علی کراهته". (مرقاة المصابیح، کتاب النکاح، باب المباشرة، الفصل الأول، امدادیه ملتان ۶/۲۳۸)
"(ويعزل عن الحرة) وكذا المكاتبة، نهر بحثاً، (بإذنها)، لكن في الخانية أنه يباح في زماننا؛ لفساده، قال الكمال: فليعتبر عذراً مسقطاً لإذنها، وقالوا: يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج، (وعن أمته بغير إذنها) بلا كراهة.
(قوله: قال الكمال) عبارته: وفي الفتاوى إن خاف من الولد السوء في الحرة يسعه العزل بغير رضاها؛ لفساد الزمان، فليعتبر مثله من الأعذار مسقطاً لإذنها. اهـ. فقد علم مما في الخانية أن منقول المذهب عدم الإباحة، وأن هذا تقييد من مشايخ المذهب؛ لتغير بعض الأحكام بتغير الزمان، وأقره في الفتح، وبه جزم القهستاني أيضاً حيث قال: وهذا إذا لم يخف على الولد السوء؛ لفساد الزمان، وإلا فيجوز بلا إذنها. اهـ. لكن قول الفتح: فليعتبر مثله إلخ يحتمل أن يريد بالمثل ذلك العذر، كقولهم: مثلك لايبخل. ويحتمل أنه أراد إلحاق مثل هذا العذر به كأن يكون في سفر بعيد، أو في دار الحرب فخاف على الولد، أو كانت الزوجة سيئة الخلق ويريد فراقها فخاف أن تحبل، وكذا ما يأتي في إسقاط الحمل عن ابن وهبان، فافهم". (فتاوی شامی(3/ 175) ط: سعید) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144007200001
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
Comments
Post a Comment