صرف اللہ وحدہ عبادت کا مستحق ہے
اس نصیحت کے ذریعے ان بعض منکر امور کے سلسلہ میں تنبیہ کرنا مقصود ہے جن میں بہت سے لوگ ازراہ جہالت مبتلا ہوچکے ہیں اور خواہشات نفس کا پجاری بنانے کے لئے شیطان ان کے افکار اور عقلوں سے کھیل رہا ہے۔
ان امور میں سے ایک یہ بھی ہے جیسا کہ اس کے بارے میں مجھے خبر پہنچی ہے کہ بعض لوگ دوسروں کو اپنی عبادت کی دعوت دیتے ہیں اور کئی ایسے امور کے مدعی ہیں جن سے عوام اس وہم میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ انہیں بھی اس کائنات میں تصرف حاصل ہے لہذا انہیں نفع و نقصان کے لئے پکارا جا سکتا ہے۔ حالانکہ جو شخص اپنی عبادت کی لوگوں کو دعوت دے وہ فرعون اور اس جیسے بڑے بڑے مجرموں اور کافروں سے مشابہت رکھتا ہے۔
عبادت کی مستحق صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالی کی ذات گرامی ہے . اپنے کمال قدرت و علم اور مخلوق سے بے نیازی کے باعث صرف اسی کو عبادت کا استحقاق حاصل ہے اور اس کے سوا کوئی اور مستحق عبادت نہیں
چنانچہ اسی مقصد کی خاطر انبیاء کرام کو مبعوث کیا اور کتابوں کو نازل کیا گیا اور اسی کی خاطر جہاد کو فرض کیا گیا ۔ ارشاد باری تعالی ہے:
۔🏵 وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات۵۶/۵۱)
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وه میری ہی عبادت کریں
۔🏵 وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّـهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ ﴿٥﴾وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ (الاحقاف۴۶/۵۔۶)
اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو سکتا ہے جو ایسے کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہ دے سکے اور ان کو ان کے پکارنے کی خبر نہ ہو اور جب لوگ جمع کئے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی پرستش سے انکار کریں گے۔’
۔🏵 وَمَن يَدْعُ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِندَ رَبِّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ (المومنون۲۳/۱۱۷)
اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں تو اس کا حساب اللہ ہی کے ہاں ہوگا ۔ یقینا کافر لوگ نجات سے محروم ہوں گے۔’’
۔🏵 وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ ۖ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَ (یونس۱۰۶/۱۰)
اور اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کو نہ پکارنا جو نہ تمہیں کوئی فائدہ پہنچا سکے اور نہ تمہارا کچھ بگاڑ سکے اگر ایسا کرو گے تو ظالموں میں سے ہو جاو گے۔’’
۔🏵 إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ (النساء۴/۴۸)
اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے، اس کے سوا اور گناہ جس کو چاہے معاف کر دے ۔
۔🏵 إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ (لقمان۱۳/۳۱)
شرک تو بڑا (بھاری)ظلم ہے
۔🏵 وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّـهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۖ إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ (المائدہ۵/۷۲)
مسیح نے یہود سے یہ کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل! اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا رب ہے۔
یقین مانو جو شخص اللہ کے ساتھ (کسی کو بھی) شریک کرتا ہے اللہ تعالی نے اس پر جنت حرام کردی ہے اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔’’
۔🏵 اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (التوبۃ۳۱/۹)
انہوں نے اپنے علماء اور مشائخ اور مسیح ابن مریم کو اللہ کے سوا رب بنالیا حالانکہ ان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ اللہ واحد کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے
۔🏵 وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ (الاسراء۱۷/۲۳)
اور تمہارے پروردگار نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو
پس ان اور ان جیسی دیگر آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ غیراللہ کی عبادت یا اللہ تعالی کی عبادت کے ساتھ ساتھ غیر اللہ مثلا انبیاء، اولیاء اصنام ، اشجار اور احجار کی عبادت اللہ عزوجل کے ساتھ شرک اور اس کی اس توحید کے منافی ہے جس کی خاطر اللہ تعالی نے جنوں اور انسانوں کو پیدا فرمایا اور اس کے بیان کرنے کے لئے رسولوں کو مبعوث اور اپنی کتابوں کو نازل فرمایا اور یہی معنی ہیں ‘‘لا الہ الا اللہ’’ کے یعنی اللہ کے سوا کوئی اور معبود حقیقی نہیں ہے۔ یہ کلمہ غیر اللہ کی عبادت کی نفی کر کے ،اسے اللہ تعالی کے لئے ثابت کر دیتا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے
۔🏵 ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّـهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ هُوَ الْبَاطِلُ (الحج۲۲/۶۲)
یہ اس لئے کہ اللہ ہی بر حق ہے اور (کافر) جس چیز کو اللہ کے سوا پکارتے ہیں، وہ باطل ہے
یہی دین کی اصل اور ملت کی اساس ہے اور اگر یہ اصل و اساس صحیح ہوگی تو عبادت صحیح ہوں گی
وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (الزمر۳۹/۶۵)
اور (اے محمد !(ﷺ) آپ کی طرف اور ان(پیغمبروں) کی طرف جو آپ سے پہلے ہوچکے ہیں یہی وحی بھیجی گئی کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمھارے عمل برباد ہو جائیں گے اور تم زیاں کاروں میں سے ہو جاو گے
۔🏵 وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ
(الانعام۸۸/۶)
اور اگر وہ(سابقہ انبیاء) شرک کرتے تو جو عمل وہ کرتے تھے، وه سب ضائع ہوجاتے
اس امر عظیم کی خاطر اللہ تعالی نے رسولوں کو مبعوث اور کتابوں کو نازل فرمایا تاکہ توحید کو بیان کیا جائے اس کی دعوت دی جائے اور غیراللہ کی عبادت سے منع کیا جائے
۔🏵 وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ (النحل۱۶/۳۶)
اور ہم نے ہر امت میں پیغمبر بھیجا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور بتوں (کی پرستش) سے اجتناب کرو
۔🏵 وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُون (الانبیاء۲۱/۲۵)
اور جو ؟ پیغمبر ہم نے آپ سے پہلے بھیجے ان کی طرف یہی وحی بھیجی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو تم میری ہی عبادت کرو۔’’
۔🏵 الر ۚ كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ ﴿١﴾ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّـهَ ۚ إِنَّنِي لَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ
(ھود۱۱/۱۔۲)
یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور اللہ حکیم و خبیر کی طرف سے بالتفصیل بیان کر دی گئی ہیں (وہ یہ) کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور میں اس کی طرف سے تم کو ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں۔’’
هَـٰذَا بَلَاغٌ لِّلنَّاسِ وَلِيُنذَرُوا بِهِ وَلِيَعْلَمُوا أَنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ وَلِيَذَّكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (ابراھیم۱۴/۵۲)
یہ (قرآن ) لوگوں کے نام (اللہ کا پیغام) ہے تاکہ ان کو اس سے ڈرایا جائے اور وہ جان لیں کہ وہی اکیلا معبود ہے اور اہل عقل نصیحت پکڑیں
صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہے کہ نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟
توآپ ﷺ نے فرمایا‘‘
یہ کہ کسی کو اللہ کا ''ند'' بناٶ حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے ‘‘ند’’ کے معنی نظیر و مثیل کے ہیں تو جو شخص بھی غیر اللہ کو پکارے یا غیراللہ کی عبادت کرے یا اس سے فریاد کرے یا اس کے لئے نذر مانے یا اس کے لئے ذبح کرے یا اس کے لئے کسی بھی قسم کی عبادت کرے تو اس نے اسے اللہ تعالی کا شریک بنا لیا ہے خواہ وہ نبی ہو یا ولی فرشتہ ہو یا جن بت ہو یا کوئی اور چیز کیونکہ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی کے لئے خاص ہے، کوئی اور اس کا ہرگز ہرگز مستحق نہیں ہے۔’’
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا‘
اے معاذ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے؟
’’میں نے عرض کیا‘‘ اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔
’’آپﷺ نے فرمایا‘‘ اللہ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ جو اس کے ساتھ شرک نہ کرے، وہ اسے عذاب نہ دے۔’’
اللہ تعالیٰ نے اسی امر عظیم کے لئے جنوں اور انسانوں کو پیدا فرمایا یعنی یہ کہ اس کی توحید کا اقرار کریں، صرف اسی کو مستحق عبادت سمجھیں اور اس کے شرکاء نظراء اور انداد کو ترک کر دیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کے سوا کوئی رب نہیں،
جو شخص لوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت دے یا یہ کہے کہ وہ مستحق عبادت ہے تو وہ کافر ہے۔
واجب ہے کہ اس سے توبہ کرنے کا مطالبہ کیا جائے،
اگر توبہ کرے تو درست ورنہ مسلمان حاکم کے لئے واجب ہے کہ ایسے شخص کو قتل کر دے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے
‘‘جو شخص اپنے دین کو بدل دے،اسے قتل کر دو۔’’(بخاری)
یہ بھی واضح گمراہی اور بہت بڑی جہالت کی بات ہے کہ غیب کی خبریں دینے کے سلسلہ میں کاہنوں، پروہتوں، رمالیوں، نجومیوں، شعبدہ بازوں اور دجالوں کی تصدیق کی جائے۔ یہ بہت منکر کام اور کفر کی ایک شاخ ہے کیونکہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے‘‘
جو شخص کسی نجومی کے پاس جائے اور اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھے تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی (صحیح مسلم)
رسول اللہﷺ سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے کاہنوں کے پاس جانے اور ان سے سوال کرنے سے منع فرمایا ہے۔
اہل سنن نے نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد بیان کیا ہے کہ‘‘
جو شخص کسی کاہن کے پاس جا کر اس کی بات کی تصدیق کرے تو اس نے اس چیز کا انکار کیا جسے اللہ تعالیٰ نے اہنے نبی حضرت محمد ﷺ پر نازل فرمایا ہے۔’’
اس مفہوم کی اور بھی بہت سی احادیث مبارکہ ہیں لہٰذا تمام مسلمانوں کے لئے یہ واجب ہے کہ وہ کاہنوں، نجومیوں اور ان تمام شعبدہ بازوں سے سوال کرنے سے اجتناب کریں، جو غیب کی خبریں دینے کے دعویدار ہیں اور جاہلوں کی عقلوں کے ساتھ کھیلتے ہیں اور مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ اللہ کے سوا امور غیب کو اور کوئی نہیں جانتا صرف وہی ہے جو سینوں کے بھیدوں اور دلوں کی دھڑکنوں کو بھی جانتا ہے، اس کے سوا اور کوئی حتٰی کہ انبیاء، مرسلین اور فرشتے بھی امور غیب کو نہیں جانتے، وہ صرف اتنا جانتے ہیں جو اللہ تعالیٰ انہیں بتا دے۔
۔🏵 قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ (النمل۶۵/۲۷)
(اے پیغمبرﷺ!) آپ کہہ دیجئے کہ آسمان اور زمین والوں میں سے اللہ کے سوا کوئی غیب کی باتیں نہیں جانتے
اور وہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ کب (زندہ کر کے) اٹھائے جائیں گے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ لوگوں تک یہ بات پہنچا دیں کہ
۔🏵 قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ (الانعام۵۰/۶)
اے پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں اور نہ (یہ کہ) میں غیب جانتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔میں تو صرف اس حکم پر چلتا ہوں جو مجھے (اللہ کی طرف سے) آتا ہے۔
آپ پوچھئے کہ بھلا اندھا اور آنکھ والا برابر ہوسکتے ہیں؟
تو پھر تم غور(کیوں)نہیں کرتے ہو؟’’
۔🏵 قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (الاعراف۱۸۸/۷)
اے پیغمبر(ﷺ) آپ کہہ دیجئے کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیا رنہیں رکھتا مگر جو اللہ چاہے، اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے جمع کرلیتا اور مجھ کو کوئی تکلیف نہ پہنچتی، میں تو مومنوں کو ڈر اور خوشخبری سنانے والا ہوں
ان آیات کریمہ اور ان کے مفہوم کی دیگر آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول ﷺ بھی غیب نہیں جانتے حالانکہ آپﷺ تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے بہتر اور افضل ہیں جب آپﷺ غیب نہیں جانتے تو مخلوق میں سے کوئی اور کس طرح جان سکتا ہے؟
لہذا جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ رسول اللہﷺ یا مخلوق میں سے کوئی اور غیب جانتا ہے تو وہ شخص اللہ تعالی پر بہت بڑا بہتان لگاتا ہے اور اللہ سبحانہ و تعالی کے ساتھ کفر کرتا ہے ۔ امور غیب کو جاننا اللہ تعالی کا خاصہ ہے اور علم غیب کو اللہ تعالی نے اپنی ذات کے لئے خاص کر لیا ہے،
۔🏵 إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (لقمان ۳۴/۳۱)
صرف اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے اور وہی مینھ برساتا ہے اور وہی (حاملہ کے ) پیٹ کی چیزوں کو جانتا ہے(کہ نر ہے یا مادہ) اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گا اور کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کس سر زمین میں اسے موت آئےگی، بے شک اللہ تعالی ہی جاننے والا (اور)خبر رکہنے والا ہے
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ان پانچ چیزوں کے سوا نبی کریم ﷺ کو ہرچیز کا علم عطا کیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان پانچ باتوں کو اللہ تعالی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا، انہیں مقرب فرشتہ جانتا ہے اور نہ کوئی نبی مرسل۔جو شخص یہ دعوی کرے کہ وہ ان پانچ چیزوں میں سے کسی کو جانتا ہے تو وہ قرآن کے ساتھ کفر کرتا ہے کیونکہ اس طرح اس نے قرآن مجید کی مخالفت کی ہے، ہاں البتہ انبیاء کرام علیہم السلام غیب کی ایسی بہت سی باتوں کو ضرور جانتے ہیں جو اللہ تعالی نے انہیں معلوم کرادی ہیں۔
ایمان بالغیب ۔۔۔ ایمان کا رکن ہے اور سچے مومنوں کی صفات میں سے ایک صفت ہے اور علم غیب کا دعوی کرنا اور امور غیب کی خبر دینا ان کاہنوں کی صفت ہے جو ہدایت سے محروم ہیں نیز یہ ان دجال شعبدہ باز اور نجومیوں کا دعوی ہے جو خود بھی صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے ہیں اور جاہل مسلمانوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔
ارشاد باری تعالی ہے:
۔🏵 وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُو (الانعام۵۹/۶)
اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں،جن کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا
صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا‘
غیب کی چابیاں پانچ ہیں’’اور پھر آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی
۔🏵 إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ (لقمان۳۱/۳۴)
صرف اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے اور وہی مینہ برساتا ہے
طلباء علم پر واجب ہے کہ اس بات میں لوگ جس زبردست غلطی میں مبتلا ہو چکے ہیں اس پر انہیں تنبیہہ کریں کیونکہ کل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان سے باز پرس ہوگی،
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
۔🏵 لَوْلَا يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ عَن قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَصْنَعُونَ (المائدہ۶۳/۵)
بھلا ان کے مشائخ اور علماء انہیں گناہ کی باتوں اور حرام کھانے سے منع کیوں نہیں کرتے؟بلاشبہ وہ بھی برا کرتے ہیں
اسی طرح یہ اعتقاد رکھنا کہ سیدوں (بنی ہاشم) کے سارے گناہ معاف ہیں خواہ وہ کوئی بھی عمل کریں، یہ حد درجہ جہالت و ضلالت کی بات ہے کیونکہ اللہ تعالی حسب و نسب کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تو یہ دیکھتا ہے کہ اس کے اوامر کی اطاعت کون بجالاتا اور اس کے نواہی سے اجتناب کون کرتا ہے ؟
تقوی کس میں ہے اور اس کی معصیتوں اور نافرمانیوں سے کون دور ہے؟
حسب ونسب کسی کو فائدہ نہ پہنچاسکے گا
فرمان باری تعالی یہ ہے
إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ (الحجرات۱۳/۳۹)
بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے
اور رسول اللہﷺ نےبھی فرمایا ہےکہ‘‘ اللہ تعالی تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تو تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے’’
اسی طرح آپﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے‘‘خبردار! آگاہ رہو کہ جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے کہ اگر وہ صیح ہو جائے تو سارا جسم صحیح ہو جاتا ہے اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم ہی خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ ٹکڑا دل ہے۔
’’دیکھئے ابوطالب، رسول اللہ ﷺ کا حقیقی چچا تھا مگر رسول اللہ ﷺ سے یہ قرابت اور حسب و نسب کی بلندی اس کے کچھ کام نہ آئی۔ رسول اللہﷺ کی خواہش تھی کہ ابوطالب کلمہ پڑھ لے تاکہ آپ ﷺ دربار الہی میں اس کی سفارش کر سکیں لیکن اس نے کلمہ نہ پڑھا کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی نے اس کے بارے میں ازل میں یہ لکھ دیا تھا کہ وہ اپنے آبا و اجداد کےدین پر فوت ہوگا اور وہ دین شرک اور بت پرستی ہے اس لئے اللہ تعالی نے اپنے نبی کو ان کے لئے استغفار (بخشش کی دعا) کرنے سے بھی منع فرما دیا
مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ (التوبۃ۹/۱۱۳)
نبی(ﷺ) اور مومنوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مشرکوں کے لئے اس بات کے واضح ہو جانے کے بعد کہ وہ دوزخی ہیں بخشش کی دعا کریں اگرچہ وہ (مشرک مومنوں اور نبیﷺ) کے قرابت دار ہی کیوں نہ ہوں
اللہ تعالی نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ اگر وہ کسی کو ہدایت نہ دینا چاہے تو نبی بھی اسے ہدایت دینے کا اختیار نہیں رکھتا
۔🏵 إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ﴾* (القصص۲۸/۵۶)
اے محمد!(ﷺ) آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ ہی جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔’’
اسی طرح ابولہب بھی نبیﷺ کا چچا تھا، اس کا بھی کفر پر خاتمہ ہوا اس کی مذمت میں اللہ تعالی نے ایک مستقل سورت نازل فرما دی جسے قیامت تک پڑھا جائے گا،
۔🏵 تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ (المد۱۱۱/۱)
ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹیں اور وہ ہلاک ہوگیا
حقیقی معیار یہ ہے کہ قولی، عملی اور اعتقادی طور پر قرآن کریم اور سنت مطہرہ کی پیروی کی جائے، باقی رہے حسب و نسب تو یہ کسی کے کچھ کام نہ آئیں گے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے‘‘جس شخص کو اس کے عمل نے پیچھے رکھا حسب و نسب اسے آگے نہ لے جاسکے گا۔
نیز آپﷺ نے فرمایا ۔۔۔ اے گروہ قریش
اللہ تعالی سے اپنی جانوں کو خرید لو، میں اللہ کے دربار میں تمہارے کچھ کام نہ آوں گا
اسی طرح آپ ﷺ نے اپنے چچا عباس ، پھوپھی صفیہ اور لخت جگر فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بھی یہی فرمایا اگر حسب و نسب کی بلندی کسی کے کام آسکتی تو ان لوگوں کے ضرور کام آتی۔
Comments
Post a Comment