۔460🌻) رحمانی نظام بمقابلہ شیطانی نظام

 مسلمانوں کے خلاف بے شمار شیاطین کام کرتے ہیں، ہر شیطان کا کام اور ذمہ داری الگ الگ ہے، اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی حفاظت کے لئے اپنے فرشتوں کے ذریعے رحمانی نظام قائم کیا ہوا ہے، لیکن یہ رحمانی نظام انتہائی حساس نوعیت کا ہے، اس کی حساسیت کا اندازہ نماز میں نمازی کے آگے سے نہ گزرنے کے حکم سے لگا سکتے ہیں، نمازی نماز پڑھ رہا ہے، اس کے آگے سے اگر کوئی گزر گیا تو نماز پر کیا فرق پڑے گا؟ 

حالانکہ نماز پڑھنے والا اسی طرح نماز پڑھ رہا ہے؟ 

لیکن حدیث میں نمازی کے آگے سے گزرنے کے بارے میں کتنی سخت ممانعت آئی ہے۔

یہ روحانی نظام پاکی و طہارت، صدق و وفا، اخلاص وللٰہيت اور تعلق مع اللہ پر قائم ہے، جوں جوں یہ تعلق کمزور ہوگا، مسلمان کا رحمانی دفاعی نظام بھی کمزور ہوتا چلا جائے گا۔

دشمنانِ اسلام نے ہمارے اس رحمانی نظام کو گہرائی سے پڑھا ہے، وہ جانتے ہیں کہ ان کو اللہ کی رحمتوں سے دور کرنے کے لئے کن کن چیزوں سے روکنا ہے اور کن راہوں پر ڈالنا ہے، ان اللہ کے دشمنوں نے روحانی نظام میں ایسا فساد برپا کیا ہے کہ رحمت کی جگہیں بھی ان کی شیطانی حرکات سے محفوظ نہیں ہیں، عام استعمال کی چیزوں کو بھی فساد زدہ کرکے مسلمانوں کو پیش کر رہے ہیں، تعلیم جدید، سائنس و ٹیکنالوجی اور ادب تک میں زہریلی اثرات واضح محسوں کئے جاسکتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان تمام باتوں کے بارے میں آگاہ فرمایا جو اس رحمانی نظام سے متعلق ہیں، کن اعمال کو اختیار کرکے اور کن باتوں سے خود کو بچا کر، ہم شیاطین و جنات اور جادو سے اپنا دفاع کر سکتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

''لا تدخل الملئكة بيتا فيه كلب ولا صورة تماثیل'' (متفق عليه)

ترجمہ: نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''اس گھر میں فرشتے نہیں داخل ہوتے جس میں کتا اور جاندار کی تصویر ہو۔''

مستدرک حاکم کی روایت میں جنبی ( ناپاک آدمی) کا بھی ذکر ہے، جبکہ ابوداؤد کی روایت میں گھنٹی کا بھی ذکر ہے۔

حدیث میں بیان کردہ اس رحمانی نظام کو سامنے رکھئے اور آج مسلمانوں کے گھروں کا جائزہ لیجئے، تصاویر سے تو پہلے ہی گھر بھرے ہوئے تھے، اب تو خنزیر اور کتوں کے کارٹونز نے ایسا قبضہ کیا ہے کہ بچے ہر وقت اپنے آغوش میں ہی چھپائے پھرتے ہیں، ہندؤوں کی طرح گھروں کے دروازوں پر گھنٹیاں ٹانگ دی گئی ہیں، یہ وہ گھنٹیاں ہیں جو دستک والی گھنٹی(ڈور بل) کے علاوہ ہیں، یہ گھنٹیاں چھت سے لٹکی ہوتی ہیں جن کو ہاتھ سے بجایا جاتا ہے، تاکہ کوئی فرشته اگر دروازے تک آجاتا ہو تو وہ بھی دور سے ہی بھاگ جائے۔

چنانچہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ ہم خود کو اپنے بچوں اور اپنے گھروں کو کس طرح جادو، جنات اور شیاطین سے محفوظ رکھ سکتے ہیں، کوئی بھی کام شروع کرتے وقت، گھر میں داخل ہوتے وقت، صبح شام یا سفر پر نکلتے وقت مسنون دعائیں سکھلائی ہیں، تاکہ ہمارے اردگرد رحمانی دفاعی نظام مضبوط رہے، رات کو سونے کی دعا، بیت الخلاء میں داخل ہونے کی دعا، بازار میں داخل ہونے کی دعا، یہ تمام دعائیں احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔

 آپ ان دعاؤں میں ہی غور کریں تو آپ کو علم ہو جائے گا کہ شیاطین کہاں کہاں ہوتے ہیں اور ان سے کس طرح اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے، اللہ کا دشمن شیطان تو اتنا بھی گوارا نہیں کرتا کہ کسی مسلمان کا کھانا صحیح حالت میں اس کے پیٹ میں چلا جائے، اگر بسم اللہ نہ پڑھی جائے تو اس میں بھی وہ شریک ہو جاتا ہے اور اس کھانے کو خراب کر دیتا ہے۔

شیطان اولاد میں بھی شریک ہو جاتا ہے 

اگر بسم اللہ نہ پڑھی جائے تو شیطان انسان کے ساتھ اس کی اولاد میں بھی شریک ہو جاتا ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے

عن ابي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم یاتی على الناس زمان يشاركهم الشيطان في اولادهم قيل و كائن ذٰلک یا رسول الله؟ قال نعم قال وكيف نعرف اولادنا من اولادهم قال : بقلة الحياء وقلة الرحمة

 (رواه الديلمي ، بحواله جمع الجوامع للسيوطي)

ترجمہ: ''حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ ان کی اولادوں میں ان کے ساتھ شیاطین شریک ہو نگے۔ پوچھا گیا، یا رسول الله کیا ایسا ہوگا؟

 آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں ... کسی نے پوچھا، ہم اپنی اور ان (شیاطین) کی اولاد کے درمیان کیسے تمیز کریں گے؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

قلتِ حیاء اور قلتِ رحم کے ذریعے

(یعنی کہ بےحیاء اور بے رحم ہوگا۔)

یہ روحانی نظام ہی ہے کہ ایک انسان کی نظر دوسرے انسان کے جسم پر اثر انداز ہو جاتی ہے، اچھا بھلا، صحت مند انسان کسی کے دیکھنے اور تعریف کر دینے سے، چلتے چلتے گر جاتا ہے، یا کسی کی نظر لگ جانے سے صاف ستھرے چہرے پر کالے دھبے پڑ جاتے ہیں، اچھے بھلے صحت مند نوجوان کے اعضاء شل ہو جاتے ہیں، اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو تعلیم دی کہ کوئی نعمت ملے تو اس پر ''ماشاء اللہ لاقوة الا بالله'' کہنا چاہئے، نظر لگنے کے بارے میں متعدداحادیث آئی ہیں۔

''عن ابي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه و سلم قال العين حق و نهی عن الوشم'' (صحیح بخاری باب العين حق)

ترجمہ: ''حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نظر کا لگنا حق ہے اور جسم گودنے سے منع فرمایا۔''

مسلمان کے دفاع کا رحمانی نظام اور اس کو نقصان پہنچانے کی کوششیں انسانیت کے دشمنوں نے اس بات پر سخت محنت کی ہے کہ انسان کو قدرت کے فطری نظام سے ہٹا کر فطرت کے خلاف بنائے گئے، شیطانی نظام کے تابع کر دیا جائے، چنانچہ انہوں نے پہلے یہ تجربات یورپ میں کئے اور اہل یورپ کو فطری طرز زندگی سے ہٹا کر مکمل شیطانی طرزِ زندگی کا اسیر بنا دیا،  فطرت کے خلاف زندگی گزارنے کا جو نقصان بنی نوع انسان کو ہوا ہے، اس کے لئے یورپ و امریکی معاشرے کا مطالعہ عبرت کے لئے کافی ہے، جبکہ ہمارا معاشرہ بھی ان رستوں پر بے لگام گھوڑے کی طرح دوڑا چلا جا رہا ہے، وہی تمام تر حربے اور نعرے عالمِ اسلام کے خلاف استعمال کئے جا رہے ہیں، ان کی انتھک محنتیں اس بات پر صرف ہو رہی ہیں کہ مسلمانوں کو رحمانی نظام سے دور کر دیا جائے، تاکہ ان پر شیطانی حملے زیادہ کارگر ہوسکیں ۔۔۔

ماخوذ از: امام مہدی ؓ کے دوست و دشمن ... مؤلف: مولانا عاصم عمر

Comments