علماء کو برا بھلا کہنے کا وبال
دین اسلام ابدی اور لازوال دین ہےجو قیامت تک باقی رہنے والا ہے، اس دین کو باقی رکھنے کے لئے اللہ نے جہاں کتاب کو نازل کیا وہیں کتاب کی تفہیم و تشریح کے لئے افراد و اشخاص بھی پیدا کیا ہے، جو کتاب اور اس کے احکام کی مکمل حفاظت کرتے ہیں اور اس کے مسائل سے انسانوں کو واقف کراتے ہیں، زمانے کے حالات کے تناظر میں اس میں غور فکر کر کے مسائل مستنبط کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد دین و ایمان کی یہ ذمہ داری ایسے افراد کے ہاتھ آئی جنہیں حدیث میں روشنی میں’’ علماء‘‘ کہا جاتا ہے،یہ وہ پاک طینت افراد ہیں جنہوں نےجہد مسلسل اور عمل پیہم کے ذریعہ دین کی حفاظت کا بیڑہ اٹھایا، دین اسلام پر وارد ہونے والے ہر اعتراض کا قرآن و حدیث کی روشنی میں دفاع کیا، اس کے لئے ہر طرح کی قربانی انہوں نے پیش کی اور کبھی بھی دین کی حفاظت و اشاعت سے غفلت و سستی نہیں برتی، یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث میں علماء کرام کی خوب ستائش کی گئی اور ان کے مقام و مرتبہ کو بتلایا گیا، اور انہیں عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا گیا، اور ان کی اہمیت و فضیلت کو اجاگر کیا گیا، چنانچہ قرآن مجید میں اللہ نے فرمایا
قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ (ان سے پوچھئے کہ )کیا عالم و جاہل دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ (الزمر :۹)
اسی طرح ایک مقام پر فرمایا کہ
يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ
اللہ تعالی (دنیا و آخرت میں ) بلند درجات عطا فرمائےگا ان مؤمنین کو جو اطاعت گذار ہیں اور اہل علم یعنی علماء کو (المجادلۃ ۱۱)
بندوں میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والے علماء ہی کو بتلایا گیا (الفاطر۱۶)
کسی چیز کی جانکاری کے لئے انہیں کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا(النحل ۴۳)
احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے واضح انداز میں علماء کی فضیلت کو بیان کیا ہے، اور ان کی ناقدری کرنے والوں، ان کی توہین کرنے والوں اور ان سے بغض رکھنے والوں کے بارے میں بڑی سخت وعیدیں ذکر کی ہیں ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسے میری فضیلت تم میں ادنی پر
اللہ تعالی اس کے فرشتے، آسمان و زمین والے حتی کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں پانی میں عالم کے لئے خیر اور بھلائی کی دعا کرتی ہیں (ترمذی حدیث نمبر۲۶۸۵)
ایک حدیث میں فرمایا عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر
بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا، بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے، اس لیے جس نے اس علم کو حاصل کر لیا، اس نے علم نبوی کا پورا پورا حصہ لیا (ابو داؤد، باب الحث علی طلب العلم، حدیث نمبر۳۶۴۱)
اپ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے
جس شخص کے ساتھ اﷲ تعالیٰ خیر اور بھلائی کا معاملہ فرمانا چاہتے ہیں اس کو دین کی سمجھ اور علم عطا فرماتے ہیں
ان تمام روایات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم علماء کا کس قدر خیال رکھ رہے ہیں ، اور ان کی قدر دانی کرنے کی کتنی تاکید فرمارہے ہیں۔
موجودہ معاشرہ میں علماء کی تعظیم و تو قیر، عزت و احترام میں بہت حد تک کمی پائی جاتی ہے، اور منظم سازش کے ذریعہ علمائے امت پر سے اعتماد ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے دشمنانِ اسلام طویل تجربہ کے بعد اس نتیجہ کو پہنچے ہیں کہ مسلمانوں میں فکری الحاد پھیلانا ہو اوران کو اپنے لحاظ سے مفلوج اور ناکارہ کرنا ہو تو ان کا رشتہ علماء سے توڑنا ضروری ہے، کیونکہ جب تک ان کا رشتہ علماء سے جڑا رہے گا اس وقت تک ان کے اندر دینی حمیت اور ایمانی جوش منتقل ہوتا رہے گا، اس لیے اب ان کی پوری توجہ اس بات پر ہے کہ عام مسلمان علماء سے بدظن ہو جائیں اور ان سے اپنا ناطہ توڑلیں ،اس کے لئے علماء کو بدنام کرنے کے لئے منصوبے بنائے جا رہے ہیں اور ان کی حیثیت کو کم کرنے کے لئے سازشیں رچی جا رہی ہیں ، اور عام مسلمانوں کو ان سے بدظن کیا جا رہا ہے، جس کا اثر یہ ہوا کہ لوگوں میں علماء کی عزت و توقیر کا فقدان ہے، چند دینی معلومات کی بنیاد پر علماء سے بحثیں کرنا روز کا معمول بن چکا ہے، ان کی شان میں توہین آمیز کلمات کہنا بعض کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے، علماء کی توہین کرنے اور انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھنے اور اذیت و تکلیف پہنچانے والوں کے بارے میں رسول اللہ علیہ وسلم نے بڑی سخت وعیدیں ذکر کی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
جوشخص ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے اور ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے علماء کی عزت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں یعنی ہمارا اور اس کاکوئی تعلق ہی نہیں ہے(مستدرک حاکم حدیث نمبر۴۲۱)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تین شخص ایسے ہیں جن کو منافق ہی تکلیف دے سکتا ہے
۔(۱) وہ شخص جو اسلام کی حالت میں بوڑھا ہوگیا، (۲) عالم دین (۳) عادل بادشاہ (الترغیب و الترہیب ۱؍۱۱۵)
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جو شخص کسی فقیہ( عالم) کو تکلیف پہنچائی اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچائی اور جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچائی اس نے اللہ تعالی کو تکلیف پہنچائی ( بخاری، حدیث نمبر۶۰۴۴)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’ تم عالم بنو، یا طالب علم بنو، یا علم سننے والے بنو، یا ان سے محبت رکھنے والے بنو، پانچویں قسم میں ہرگز داخل نہ ہو ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے اور پانچویں قسم یہ ہے کہ تو علم اور علماء سے بغض رکھے (مجمع الزوائد حدیث نمبر۴۹۵)
حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب میری امت اپنے علماء سے بغض رکھنے لگے گی تو اللہ تعالی ان پر چار قسم کے عذابات مسلط کرتے ہیں ، (۱) قحط سالی (۲) بادشاہ کی جانب سے مظالم (۳) حکام کی خیانت(۴) دشمنوں کے مسلسل حملے(مستدر حاکم ۴؍۳۶۱)
نبی کریم صلی الله عليه وسلم نے فرمایا عالم زمین پر اللہ کی حجت ہے، پس جس نے عالم کی عیب جوئی کی وہ ہلاک ہو گیا (کنزالعمال۱۰؍۵۹)
ان روایات کی روشنی میں آج کے معاشرہ کا جائزہ لیں کہ آج لوگوں نے کس جرأت کے ساتھ علماء کی توہین اور ان پر بے جا تنقید کرنے کو اپنے شیوہ بنا لیا ہے جب کہ انہیں خود اپنے اعمال و کردار کی فکر نہیں۔
فقہاء نے لکھا ہےکہ جو شخص علماء کی توہین کرتا ہے یا انہیں تکلیف دیتا ہےاس پر کفر یا سوء خاتمہ کا اندیشہ ہے، چنانچہ علامہ ابن نجیم مصری ؒ فرماتے ہیں کہ
’’الِاسْتِهْزَاءُ بِالْعِلْمِ وَالْعُلَمَاءِ كُفْرٌ‘‘
علم اور علماء کی توہین کفر ہے(الاشباہ والنظائر، باب الردۃ ۱۶۰ )
علامہ شعرانیؒ طبقات کبری میں لکھتے ہیں کہ امام ابو تراب بخشیؒ جو مشائخ صوفیہ میں ہیں فرماتے ہیں کہ
جو شخص اللہ تعالی سے نامانوس ہو جاتا ہے تو وہ اہل اللہ پر اعتراض کرنے کا خوگر (عادی) ہو جاتا ہے(طبقات کبری)
نیز ملک کی مایہ ناز باوقار قدیم دینی درسگاہ ازہر الہند دارالعلوم دیوبند نے ایک فتوی کے جواب میں لکھا ہے
کہ شریعت میں علماء کا مقام نہایت بلند و برتر ہے عوام پر ان کی تعظیم ضروری ہے، علماء کو برا بھلا کہنا ان کو گالیاں دینا، ان کی توہین کرنا جائز نہیں بلکہ بسا اوقات اس سے سلب ایمان کا بھی خطرہ ہے، علماء نے صراحت کی ہے اگر عالم کی اہانت بمقابلہ امر دین و حکم شرع کے ہو تو اس سے آدمی کافر ہو جاتا ہے،ایسے شخص کو چاہئے کہ صدق دل سے توبہ و استغفار کرے اور تجدید ایمان کرلے (فتاوی دارالعلوم)
نیز فتاوی عالمگیری میں ہے
جو شخص کسی عالم سے بغیر کسی ظاہری سبب کے بغض رکھے اس پر کفر کا اندیشہ ہے
( فتاوی عالمگیری)
اسلئے بزرگوں نے کہا ہےکہ مسلمانوں پر اپنے علماء کا احترام فرض ہے، کیونکہ یہ انبیاء کے وارث ہیں ، انکی تضحیک انکے منصب کی تضحیک ہے اور انکے عہدے کی تضحیک اس وراثت اور علم کی تضحیک ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہیں ملا ہے، انکے عہدے، منصب، علم اور ان پر اسلام اور امت کی بہتری کی ذمہ داری کی وجہ سے مسلمانوں پر انکا احترام فرض ہے۔علما ء نے لکھا ہےکہ گمراہ ہونے کی وجوہات میں سے ایک علماء کی توہین کرنا ہے،مولانا عبد الحیؒ اپنے فتوی میں لکھتے ہیں
اگر گالیاں دینے والے کا مقصود علم اور علماء کی تحقیر کی وجہ سے ہے تو فقہاء اس کے کفر کا فتوی دیتے ہیں ورنہ اگر کسی اور وجہ سے ہے تو تب اس شخص کے فاسق فاجر ہونے میں اللہ کے غصہ اور دنیا اور آخرت کے عذاب کے مستحق ہونے میں شبہ نہیں
نیز جو لوگ اپنے بڑوں اور بزرگوں کی جائز باتوں اور مبنی برحکمت اقوال و افعال پر تنقید برائے تنقید کرتے ہیں ، ان کو دنیا میں نقد یہ سزا دی جائے گی کہ ان کی اولاد بے دین اور ملحد پیدا ہوگی(ماہنامہ بینات اکٹوبر۲۰۰۹)
حضرات علماء اور محققین نے فرمایا ہے کہ جس طرح حضر ات انبیاء ا کرام علیہم السلام کی توہین و تنقیص یا ان پر بے جا تنقید پر یہ وعید ہے، ٹھیک اسی طرح وہ لوگ جو حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے سچے وارث اور صحیح جانشین ہیں ، ان کی توہین و تنقیص یا ان کی گستاخی اور بے ادبی کا بھی یہی حکم ہے، چنانچہ حدیث قدسی میں ہے
من عادیٰ لی ولیاً فقد آذنتہ بالحرب
جس نے میرے کسی ولی کی مخالفت اور عداوت کی، میرا اس سے اعلانِ جنگ ہے
(مشکوٰة، ص:۱۹۷)
Comments
Post a Comment