دنیا والے کسی کو معاف نہیں کرتے
شیخ سعدی شیرازی علیہ الرحمہ اپنی کتاب "بوستان سعدی" میں لکھتے ہیں
دنیا سے وہی بچا ہوا ہے جو گوشہ نشین ہو گیا ہے۔
ورنہ اس دنیا نے کسی کو معاف نہیں کیا۔
خواہ کوئی ریاکار ہو یا حق پرست، کوئی اگر فرشتے کی طرح آسمان سے اترا ہے تو لوگوں کی بد گمانی سے وہ بھی نہیں بچ سکا۔
دجلہ کے آگے بند تو باندھا جا سکتا ہے لیکن لوگوں کی زبان بند نہیں کی جا سکتی۔
جو سر سے پاؤں تک گناہوں میں لتھڑے ہوئے ہیں وہ اولیاء اللہ کو کہہ رہے ہیں کہ یہ خشک پرہیزگار ہیں اور روٹی کے چکر میں ہیں۔ تجھے (لوگوں کی باتوں سے) بد دل نہ ہونا چاہیے کیونکہ جزا ... اللہ پاک نے دینی ہے۔ لوگ اگر تجھے ذرہ برابر بھی وقعت نہ دیں تو پروا نہ کر خدا اگر راضی ہو جائے تو لوگ جو چاہیں کہتے پھریں پرواہ نہیں
ایک ہی بات دو بندے سنتے ہیں تو نتیجہ نکالنے میں ایک فرشتہ ہوتا ہے دوسرا شیطان۔
تاریکی میں رہنے والا سورج سے استفادہ نہیں کر سکتا۔
شیطان صفت انسان نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اگر تو شیر بنے یا لومڑی ایسا شخص تجھ پہ ضرور تنقید کرے گا۔ نہ اس کے سامنے تیری شیر جیسی بہادری کام آ سکتی ہے نہ لومڑی جیسی چالاکی۔
اگر کوئی تنہائی میں بیٹھ جائے تو (دنیا والے) اس کو مکار کہیں گے یا دیو (جن) ... کہ انسانوں سے بھاگتا ہے۔ کوئی ہنس مکھ و ملنسار ہے تو اس کو بے حیا گردانیں گے۔ کوئی مالدار ہے تو اس کو فرعون و قارون ثابت کر دیں گے، کوئی فقیر و تنگدست ہے تو اس کی غربت کو بد بختی پر محمول کریں گے۔ کوئی اگر مقام سے گر جائے تو خوشیاں منائیں گے کہ اس کا تکبر ٹوٹا ہے یہ بھی فرعون بنا ہوا تھا۔ اگر کسی غریب کی اللہ تعالی مدد کرے اور اس کو مالدار بنا دے تو کہیں گے کہ کمینہ زمانہ ہے جو کمینوں کو اوپر لا رہا ہے۔
اگر تیرا کاروبار ٹھیک چل رہا ہوں تو تجھے دنیا دار اور لالچی کہیں گے۔ اور اگر تو ان کی مان کر گھر بیٹھ جائے تو تجھے بھکاری و ہڈ حرام اور پکی پکائی کھانے والا کہیں گے۔ اگر تو بولے گا تو تجھے بکواسی طبلہ کہیں گے اور تو خاموش ہو جائے تو حمام کی تصویر بتائیں گے۔
بردبار لوگوں کو بزدل اور زبردست کو پاگل کہتے ہیں۔ کم کھانے والے کے بارے میں کہیں گے اس کا مال تو دوسروں کے ہی کام آئے گا اور کھانے پینے والے کو پیٹو کہیں گے، کوئی مالدار اگر ساری زندگی گزار دے اور زیب و زینت کو عار سمجھے تو تلوار کی طرح زبان چلائیں گے کہ بڑا کنجوس ہے اور اگر کوئی کوٹھے بنگلے میں ٹھاٹھ باٹھ سے رہنے لگے تو اس کو عورتوں کی طرح بناؤ سنگھار کا طعنہ دیں گے۔
کوئی جتنا بھی عبادت گزار ہو اگر اس نے سفر نہیں کیا تو سیاح لوگ اسے مرد ہی نہیں سمجھتے کہ بیوی کے پہلو میں بیٹھنے والا ہے۔ جہاندیدہ شخص کو یہ طعنہ دیں گے کہ بہت سر پھرا ہے اگر اس کے پاس کچھ ہوتا تو شہر سے باہر نہ نکلتا۔
اگر شادی نہ کرے تو زمین کا بوجھ قرار دیتے ہیں اور اگر کرے تو شہوت پرست اور کیچڑ میں پھنسے ہوئے گدھے سے تشبیہ دیتے ہیں۔لوگوں کی ملامت سے نہ کوئی بدصورت بچ سکا اور نہ خوب رُو لہٰذا اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ کوئی کیا کہتا ہے اپنے کام میں لگے رہنا چاہیے۔
(بوستان سعدی مترجم، ص 180)
Comments
Post a Comment