علماء کرام عقل مند ہوتے ہیں
جب سلیمان بن عبد الملک خلیفه دمشق بہت سخت بیمار ہوا تو اس کو اپنے جانشین کی فکر ہوئی۔ چنانچہ اس نے ایک دستاویز میں اپنے ولی عہد کا نام لکھ دیا۔ مگر سلطنت کے اس انقلاب آفریں کام میں مشورہ کرنے کے لئے ایک مشہور عالم رجاء بن حیوہ محدث شامی کو بلایا۔ حضرت رجاء نے جو دستاویز پڑھی تو اس پر خلیفہ کے ایک نابالغ لڑکے کا نام درج تھا۔
آپ نے فرمایا کہ امیر المومنین اگر آپ اپنی قبر میں سکون اور آسودگی چاہتے ہیں تو کسی ایسے شخص کو اپنا جانشین بنائے جو سلطنت کے حسن و خوبی کو چار چاند لگا دے۔ یہ نابالغ بچہ بھلا کیا حکومت سنبھالے گا؟ حضرت رجاء کا یہ کلمہ حق تاثیر کا تیر بن کر خلیفہ کے دل میں چبھ گیا اور اس نے فورا ہی دستاویز کو پھاڑ کر پرزے پرزے کر ڈالا۔
پھر کہا کہ میرے بیٹے داؤد کی نسبت آپ کا کیا خیال ہے؟ حضرت رجاء نے فرمایا کہ وہ اس وقت دار الخلافہ سے سینکڑوں میل دور قسطنطیہ کے جہاد میں مصروف ہے اور یہ بھی پتا نہیں " کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہی ! خلیفہ نے کہا کہ پھر کس کو میں اپنا ولی عہد بناؤں؟
حضرت رجاء نے فرمایا کہ آپ کا بھتیجا عمر بن عبدالعزیز بہت ہی صالح ، فاضل اور سلیم الطبع ہے۔ میرے خیال میں وہ آپ کی جانشینی کے لئے سب سے زیادہ بہتر ہے۔ خلیفہ نے فورا ہی عمر بن عبد العزیز کے لئے ولی عہدی کی دستاویز لکھ دی اور اس کو لفافہ میں بند کر کے کوتوال کو حکم دیا کہ خاندان خلافت کے کل ارکان دربار میں حاضر کئے جائیں۔
چنانچہ جب سب لوگ دربار میں آگئے تو حضرت رجاء نے خلیفہ کے حکم سے اس سر بمہر لفافہ پر سب سے بیعت لے کر سب کو رخصت کر دیا۔ اس دستاویز کی تکمیل کے چند ہی گھنٹے بعد خلیفہ کا انتقال ہو گیا۔ حضرت رجاء نے دروازے پر پہرہ بٹھا دیا کہ خبردار! کوئی اندر نہ جانے پائے۔ نہ اندر سے کوئی باہر نکلے۔ تاکہ خلیفہ کی موت کا حال کسی کو معلوم نہ ہو سکے۔ پھر کوتوال کو بھیج کر خلافت کے خاندان کے تمام ذمہ داروں کو بلایا اور دوبارہ اس مہر بند لفافہ پر سب سے بیعت لے کر خلیفہ کی موت کا اعلان فرما دیا۔ اور لفافہ کھول کر سب کو عمر بن عبد العزیز کا نام دکھا دیا۔
جب ہشام بن عبدالملک نے ( جو خلافت کا دعوے دار تھا) عمر بن عبد العزیز کا نام سنا تو بگڑ کر کہا کہ خدا کی قسم ہم ہر گز بھی اس خلیفہ کو تسلیم نہیں کریں گے۔ حضرت رجاء نے ڈانٹ کر فرمایا کہ تم دو مرتبہ اس مہر بند لفافہ پر بیعت کر چکے ہو۔ اب خیریت اسی میں ہے کہ عمر بن عبد العزیز کی بیعت کر لو۔ ورنہ ابھی تلوار سے تمہارا سر اڑا دیا جائے گا۔ حضرت رجاء کے قہر آلود تیور دیکھ کر ہشام کانپ اٹھا اور فورا بیعت کر لی۔ ہشام کی بیعت کے بعد حضرت رجاء نے عمر بن عبد العزیز کا ہاتھ پکڑ کر ممبر خلافت پر بٹھا دیا اور ان کی خلافت عملی کا دور شروع ہو گیا۔
حوالہ:(تذکرۃ الحفاظ ص 111)
Comments
Post a Comment