۔428🌻) قصر الزہراء

 قرطبہ سے 400 میل مغرب کی طرف ’عبدالرحمن سوم‘ نے ایک محل ’قصرالزہراء‘ تعمیر کروایا، جو اُس کی ایک بیوی ’الزہراء‘ کے نام سے موسوم تھا۔ بعد اَزاں اُس محل کے اِردگرد ’مدینۃُ الزہراء‘ نامی شہر آباد ہو گیا۔ قصر الزہراء ایک ایسی عظیم الشان عمارت تھی جس کا مقابلہ عظیم تاریخی عمارات میں کسی کے ساتھ بھی کیا جا سکتا ہے۔اُس کے در و دیوار منقّش تھے اور اُن میں جگہ کی مناسبت سے تصاویر بھی کندہ کی گئی تھیں جو اندلس میں اِسلامی فنِ مصوّری کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ’قصر الزہراء‘ کی تعمیر کے لئے بغداد اور قسطنطنیہ جیسے دُور دراز ممالک سے انجینئروں اور کاریگروں کو بلایا گیا تھا جنہوں نے اپنی کمالِ صناعی سے عمارت کو وہ حسنِ دوام بخشا کہ وہ رشکِ خلائق ہو گئی۔ پانی کی بہم رسانی کے لئے بُعدِ مسافت پر واقع پہاڑوں سے نہر کاٹ کر لائی گئی تھی جس سے نہ صرف محل کے حوض اور فوّاروں کو پانی میسر آتا بلکہ مقامی آبادی کے پینے کے لئے بھی کافی ہوتا۔ ’قصر الزہراء‘ کو ’دارالروضہ‘ کا نام بھی دیا گیا جو اندلس میں اِسلام کی تہذیبی روایات کا امین تھا۔(تاریخ ابن خلدون، 4:172)

’قصر الزہراء‘ کے دروازے پر عبدالرحمن سوم کی محبوب بیوی ’زہراء‘ کی تصویر نقش کی گئی، جس کے نام پر اُس کا نام ’قصر الزہراء‘ پڑ گیا

(دولۃُ الاسلام فی الاندلس، 4:510)

یہ عجوبۂ روزگار اِس قدر عظیم فن کا آئینہ دار تھا کہ ایک ترکی مؤرّخ ’ضیاء پاشا‘ بیان کرتا ہے

This palace is such a wonder of the world that a concept of the design of this type could not occur to any human being from the dawn of creation to this day and human intellect has through the ages failed to produce a parallel or even approaching it in beauty of design.

(Dr. Mustafa Siba', Some Glittering Aspects of the Islamic Civilization)

ترجمہ: "یہ محل دُنیا کا ایک ایسا عجوبہ ہے کہ اُس کی ساخت کا تصوّر روزِ اوّل سے لے کر آج تک کسی اِنسان کے بس میں نہیں۔ اِنسانی شعور کئی اَدوار سے اُس جیسی یا جمالیاتی ساخت میں اُس کے قریب قریب بھی کوئی مثال پیدا کرنے سے قاصر رہا ہے"۔

’دریائے وادیٔ کبیر‘ (گدالیمار ریور) کے کنارے تعمیر ہونے والے ’قصر الزہراء‘ کو صحیح معنوں میں سپین کا تاج کہا جا سکتا ہے۔ اُس محل میں کل 400 کمرے تعمیر کئے گئے۔ تعمیر میں اِستعمال ہونے والا بہت سا تعمیراتی سامان جس میں سنہری ستون اور دیگر سامانِ آرائش شامل ہے، ’قسطنطنیہ‘ سے منگوایا گیا تھا۔ سنگِ مرمر کا بڑا ذخیرہ ہمسایہ مسلمان افریقی ریاست ’مراکش‘ سے درآمد کیا گیا تھا۔ بعض تاریخی رِوایات کے مطابق اُس محل کی تعمیر 10,000 مزدوروں کی محنت سے صرف 4 سال کی مختصر مدّت میں تکمیل پذیر ہوئی۔ ’قصر الزہراء‘ صنعتِ تعمیر کا عظیم شاہکار تھا جس کا گنبد 4,613 سنہری ستونوں پر قائم تھا۔ محل میں صاف شفاف پانی کی چھوٹی چھوٹی نہریں ہر طرف رواں رہتیں جو اُس کے حسن کو اور بھی دوچند کئے دیتیں۔ اُس کی دیواروں پر نقّاشی کے نمونوں میں سنگِ مرمر، سونے اور جواہرات کا عام اِستعمال کیا گیا تھا۔

اســلام اور جـدیـد ســائنس

Comments