۔457) کیا انسان چاند تک پہنچا ھے

یہ سوال کہ اسلامی نقطۂ نظر سے چاند تک انسان کی رسائی ممکن ہے یا نہیں، خاصا پرانا ہے۔ چند روز قبل اسی طرح کا سوال ایک مفتی صاحب نے دریافت کیا، جس کے نتیجے میں یہ تحریر صفحۂ قرطاس کی گئی، جو اس وقت آپ کے سامنے ہے۔ واضح رہنا چاہیے کہ اس معاملے میں نفی و اثبات کسی پہلو میں سختی اختیار کرنے کی چنداں ضرورت نہیں، جیسا کہ فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ کا ارشاد ہے 

کہ جیسے اور بہت سی خبریں عجائبات کی بیان کی جاتی ہیں، اسی طرح یہ خبریں بھی ہیں، اگر یہ بھی صحیح ہو جائیں تو قرآن و حدیث کی اس سے مخالفت و تردید لازم نہیں آتی، ہو سکتا ہے کہ صحیح ہو یا نہ ہو۔ [فتاویٰ محمودیہ] 

حضرت مفتی سید عبد الرحیم لاجپوریؒ[فتاویٰ رحیمیہ]

حضرت مولانا عبد الحق حقانی[فتاویٰ حقانیہ]

حضرت مفتی رشید احمد لدھیانویؒ[احسن الفتاویٰ]

اور حضرت مولانا عبدالقیوم[گلدستۂ تفاسیر]

جیسے علما و فقہا نے اس طرح کی خبروں کو قبول کرنے کی اجازت دی ہے۔ مسئلے کو تفصیل سے سمجھنے کے لیے فتاویٰ حقانیہ وغیرہ کا مطالعہ کر لیا جائے۔

دارالعلوم دیوبند کے سابق مفتی حضرت مولانا نظام الدین صاحبؒ تو چاند پر پہنچنے والوں کو نماز کا طریقہ بتاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر جگہ مل جائے تو جماعت بھی کر سکتے ہیں، ورنہ تنہا پڑھ لیں، قضا نہ کریں۔ قبلہ نما رکھ کر قبلہ معلوم کر سکتے ہیں، ورنہ تحرّی کر کے سمتِ قبلہ متعین کرلیں، اگر تحری میں غلطی بھی واقع ہو جائے اور تحری کر کے سمتِ قبلہ متعین کرلیں، تو نماز ادا ہو جائے گی۔ اینما تولُّوا فثمَّ وجہ ﷲ (الآیۃ) پر پورا عمل ہو جائے گا۔ سیٹ سے جدا ہو کر کسی خالی جگہ میں قیام، رکوع و سجدے کے ساتھ نہ پڑھی جائے، تو سیٹ ہی پر بیٹھے بیٹھے اشارے سے رکوع و سجدہ کر کے پڑھ لیں، پھر زمین پر اتر کر فرض کا اعادہ کرلیں۔ چاند کیا زہرہ و مریخ وغیرہ پر جانا، رہنا ممکن ہے، اس میں شرعاً کوئی مانع نہیں ہے، اور وہاں نماز پڑھنا بھی صحیح ہوگا، بلکہ وہاں بھی نماز پڑھنے کا حکم اور وجوب اسی طرح باقی رہے گا اور نماز قبلہ رخ ہی پڑھنی ہوگی،قبلہ نُما رکھ کر یا کسی اور ذریعے سے،ورنہ تحری کر کے قبلہ متعین کریں گے اور جس طرح یہا ں نماز فرض ہے، اسی طرح وہاں بھی فرض رہے گی۔ [منتخبات نظام الفتاویٰ]

مختصر یہ کہ چاند پر انسان پہنچ سکتا ہے، یہ اسلامی تعلیم کے خلاف نہیں ہے، لہٰذا امریکہ کے خلا باز اگر یہ دعویٰ کرتے ہیں، تو اس کے ماننے میں شرعی لحاظ سے کوئی حرج نہیں ہے۔ چاند بھی خدا کی مخلوق ہے، چاند تک پہنچنے کی سمجھ بھی ان کو خداے پاک نے دی ہے، یہ بھی ایک کرشمئہ خداوندی ہے۔ خداے پاک نے شیطان مردود کو اس سے بھی زیادہ قوت عطا فرمائی ہے، وہ پل بھر میں کہاں سے کہاں پہنچتا ہے، خدا ہی نے اس کو آسمان تک پہنچنے کی طاقت دی ہے، اسی طرح خداے پاک دجال کو بھی حیرت انگیز طاقت دیں گے کہ چند لمحات میں دنیا کا سفر کرے گا۔ ۔ ۔ حضرت سلیمان ہوائی سفر کیا کرتے تھے، پھر حضرت سلیمان کے ایک وزیر نے جس کو کتابِ الٰہی کا علم تھا، یہ کرامت دکھائی تھی کہ پلک جھپکنے سے پہلے بلقیس کا شاہی تخت لا کر حاضر کر دیا، اگر امریکہ کے خلا باز چاند پر جا کر ریت اور پتھر لے آئے، تو اس میں کیا تعجب ہے کہ ایسے کام جانور (ہد ہد) وغیرہ بھی کر چکیں ہیں۔ اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ چاند پر رسائی اس لیے محال ہے کہ چاند آسمان پر ہے اور وہاں فرشتوں کی نگرانی ہے اور دلیل میں یہ آیتِ قرآنی پیش کرتے ہیں 

تبارک الذی جعل فی السماء بروجاً وجعل فیہا سراجاً وقمراً منیراً}اسی طرح 

 وجعل القمر فیہن نوراً وجعل الشمس سراجاً

مذکورہ آیات میں سے خدا نے چاند سورج وغیرہ آسمانوں میں بنائے ہیں، لیکن آسمانوں کا مفہوم بہت وسیع ہے، عربی میں جو چیز بلندی پر ہو اس کو سماء (آسمان) کہا جا تا ہے۔ ارید بالسماء السحاب فان ما علاک سماء (بیضاوی)

مفردات القرآن میں ہے: ... سماء کل شیء اعلاہ یعنی ہر شے کے بالائی حصے کو سماء کہا جاتا ہے۔ قرآنی زبان و اصطلاح میں سماء کا اطلاق جو یعنی آسمان سے نیچے کی فضا اور سحاب پر بھی ہو تا ہے، قرآن میں ہے

{وانزلنامن السماء مائً}

نیز{وانزلنا من السماء ماءً طہوراً} 

حالاںکہ بظاہر بارش کا پانی بادلوں سے زمین پر برستا ہے، جیسا کہ قرآن پاک میں ہے {وانزلنا من المعصرات ماءً ثجاجاً } 

یعنی ہم نے پانی سے بھرے بادلوں سے مینھ برسایا

ان آیتوں میں بادلوں کے لیے لفظ سماء لایا گیا ہے، اسی طرح اس فضا اور جو کے لیے بھی سماء بولا گیا۔ [ماخوذ ازفتاوی رحیمیہ]

حضرت آدم علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت خاتم النبیینﷺ کا آسمانوں کی طرف مافوق الاسباب چڑھنا اس امکان کی واضح دلیل ہے، کیوں کہ اس حکم کے انبیا علیہم السلام کے ساتھ مخصوص ہونے پر کوئی دلیل قائم نہیں۔ بے شک امریکہ وغیرہ کے کفار کے لیے ناممکن ہے کہ وہ آسمان میں داخل ہو جائیں، لیکن جو چیزیں آسمان سے نیچے ہیں ان پر اترنا کفار کے لیے ناممکن اور ممنوع نہیں ہے۔ پس اگر چاند آسمان سے نیچے ہو، جیسا کہ اکثر مفسرین کی رائے ہے، تو کفار کے لیےاس پر اترنے میں کوئی استحالہ نہیں ہے۔ باقی رہا امریکہ کا یہ دعویٰ کہ

۔1 ۔ اس نے چاند پر انسان اتارا ہے، تو اس کے تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیوں کہ ایسے دعوؤں کا وحی کے ساتھ کوئی تصادم نہیں ہے

 ۔2 ۔ آلات اور رصدگاہوں کے ذریعے سے اس کا مشاہدہ ہوا ہے۔ 

۔3۔ روس وغیرہ جو کہ امریکہ کے مخالف ہیں، انھوں نے بھی اسے تسلیم کیا ہے۔

۔ 4۔ نیز شریعت میں کفار کے دنیوی اخبارات پر اعتماد کرنا جائز ہے، بلکہ اس میں دینی مصالح بھی موجود ہیں۔ خصوصاً رفعِ عیسیٰ علیہ السلام اور واقعۂ معراج کا ذہن نشین ہونا اور کفار پر اتمامِ حجت ہونا اور انکار کی صورت میں قرآن مجید کی تکذیب کا خطرہ ہے۔ البتہ اس سے حکمتِ یونانی کو سخت صدمہ پہنچا، کیوں کہ اس کا یہ اعتقاد کہ چاند آسمان کے ثخن میں مرکوز ہے، غلط ثابت ہو گیا۔ [دیکھیے فتاویٰ حقانیہ، فتاویٰ فریدیہ]

علامہ شبیر احمد عثمانیؒ فرمایا کرتے تھے کہ ہم تو کہتے ہیں کہ یہ پہنچ جائیں چاند پر، اچھا ہے، ہم پھر کہیں گے کہ تم نے انکار کیوں کیا تھا معجزات کا ؟

 کیوں انکار کیا تھا معراج کا؟

 جب تم پہنچ گئے ہو کوشش کرکے، چاہے برسوں میں پہنچے چاہے مصیبت سے پہنچے تو جو خلاقِ عالَم، صانعِ عالَم اور قادرِ مطلق ہے، اس کی قدرت سے کیا بعید ہے کہ اپنے رسول کو ایک رات کے اندر کہیں سے کہیں پہنچا دے اور صبح سے پہلے واپس لے آئے؟

 [مقالاتِ عثمانی]

قرآن مجید میں یہ جو فرمایا گیا

وَالْقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ۔ لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ۔ فَمَا لَھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ۔ 

اور (قسم ہے)چاند کی جب وہ پورا ہو جائے، تم سب ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف چڑھتے جاؤ گے،،پھر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے؟

[الانشقاق] 

ان آیات میں اصل تو اسی کا بیان ہے کہ انسان اپنی زندگی میں مختلف مرحلوں سے گذرتا ہے؛ بچپن، جوانی، ادھیڑ عمر اور پھر بڑھاپا، نیز اس کی سوچ میں بھی مسلسل تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ یہ سارے مراحل اس آیت کے مفہوم میں داخل ہیں۔ [توضیح القرآن،ص]

 اور تفسیر نسفی کے مطابق عن طبقیہ محلاً منصوب ہے، اس وجہ سے کہ طبقًا کی صفت ہے: ای طبقا مجاوزًا عن طبق۔ ایک حالت جو دوسری حالت سے بڑھنے والی ہے۔ ترکبن کی ضمیر سے حال ہے: ای لترکبن طبقا مجاوزین لطبق۔ تمھیں ایک حالت سے دوسری میں پہنچنا ہے، اس حالت میں کہ تم پہلی حالت کو عبور کرنے والے ہوگے۔ [تفسیر نسفی]

شاید اسی لیے بعض نے یہاں تک لکھا دیا کہ تم آسمان میں دَرجہ بدرجہ (چڑھو گے) سوار ہوگے- اُنھیں (منکرین کو) کیا ہوا ہے کہ وہ اِیمان نہیں لاتے۔ اِن آیات کے بعد آیت ِسجدہ ہے، جس میں خود یہ اشارہ موجود ہے کہ یہ ایک خاص اور عظیم الشان امر ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی قدرت کی خاص نشانی ہے کہ چھوٹے سے اِنسانی دماغ میں یہ صلاحیتیں ودِیعت کر دی جائیں گی کہ وہ آسمان کی طرف اِتنی پرواز کر سکے،کیوں کہ کرۂ اَرض سے کرۂ قمر پر جانا معمولی بات نہیں، اس لیے اِس آیت ِ مبارکہ سے مستفاد ہوا کہ اِنسان چاند کی طرف سفر کرے گا اَور اُس میں کامیاب ہوگا۔ [دیکھیے ماہنامہ انوارِ مدینہ]

۔21جولائی1969ء کو نیل ارمسٹرونگ نے چاند پر پہلی مرتبہ قدم رکھا اور اس کے بعد کئی آدمی چاند پر پہنچ گئے اور وہاں سے سیمپل بھی لائے۔ پرانے خیالات کے لوگوں کو اس کا یقین بھی نہیں آتا تھا کہ ایسا ہو بھی سکتا ہے، کیوں کہ وہ لوگ چاند کو مقدس دیوتا سمجھتے تھے اور اتنا دور خیال کرتے تھے کہ اس تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔ فلاسفۂ قدیم کہتے تھے کہ یہ پہلے آسمان میں کیل کی طرح گڑا ہوا ہے اور پہلے آسمان تک پہنچنا انسان کے لیے مشکل ہے، لیکن قرآن نے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ چاند سورج اور دیگر سیارے تمھاری خدمت کے لیے پیدا کیے ہیں اور وہ تمھارے لیے مسخر ہیں۔ مسخر کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ آپ اس کی روشنی اور گرمی سے مستفید ہوں گے، لیکن یہ بھی کوئی بعید نہیں ہے کہ آپ وہاں تک پہنچ جائیں گے اور اس پر قدم رکھ کر اس سے استفادہ کریں گے، جس طرح زمین پر رہائش اختیار کر کے اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ تقریباً دس آیتوں میں تسخیرِ قمر کا تذکرہ ہے، ایک آیت ملاحظہ فرمائیں 

 سَخَّرَ لَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَآئِبِیْنِ

اور اللہ نے مسخر کر دیا تمھارے فایدے کے لیے سورج کو اور چاند کو، جو مسلسل چل رہے ہیں۔ [سورہ ابراہیم]

یعنی اللہ نے اس بات کی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ تمھارے لیے سورج اور چاند مسخر کر دیے ہیں ارادۂ خداوندی سے تم چاند پر پہنچ سکتے ہو، بلکہ دوسرے سیارے کی بہ نسبت چاند تو بہت قریب ہے۔ 384,403 کلومیٹر دوری پر ہے، یہ زمین کا ہی بچہ اور اس کا متبع ہے، اس سے بھی دور کے سیارے مشتری اور مریخ پر بھی جا سکتے ہو، اس میں کوئی بعید نہیں ہے، اسبابِ روانگی ہونے چاہئیں۔ [مستفاد از سائنس اور قرآن]

چند شبہات کا ازلہہ ۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا

ولکم فی الارض مستقر(تمھارے لیے زمین میں ٹھکانا ہے )

۔ 1 اس سے یہ مراد نہیں کہ انسان علویات پر نہیں اتر سکتا ہے، ورنہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وغیرہ کس طرح آسمان پر ٹھکانا رکھتے ہیں، بلکہ مراد یہ ہے کہ عام طور پر انسان زمین پر ٹھکانا رکھے گا، کیوں کہ دنیوی زندگی کی ضروریات کا یہاں انتظام ہوا ہے،لہٰذا یہ ممکن ہے کہ بعض افراد (مافوق الاسباب یا ماتحت الاسباب) خلافِ عادت علویات پر اتر جائیں۔

۔2 ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وفیہا نعیدکم(اس زمین میں تم کو لوٹادیں گے) 

اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا ہے کہ انسان خلائی پر واز نہیں کر سکتا، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کسی نہ کسی وقت ضرور زمین میں لوٹایا جائے گا، خواہ موت کے ساتھ متصل ہو یا حشر سے پہلے ہو۔

۔3 ۔ وحفظناہا من کل شیطان رجیم(محفوظ رکھا ہم نے اس کو ہر شیطان مردود سے)

تو اس سے مراد لمس اور آسمان تک چڑھنے سے حفاظت نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد آسمان کے حالات سے خبرداری سے حفاظت ہے، یا آسمان کے باشندوں کے اختلاط سے۔

 [صرح بہ الآلوسی فی تفسیرہ]

۔4 ۔  شہابِ ثاقب کا حملہ اس وقت ہوتا ہے، جب کہ شیاطین استماع کرنے لگتے ہیں، قال اللہ تعالیٰ: فمن یستمع الآن یجد لہ شہاباً رصداً، اور قرآنِ حکیم سے یہ معلوم نہیں کہ صرف چڑھنے سے یہ حملہ شروع ہوتا ہے،لہٰذا کفار کی آسمان تک رسائی میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ [فتاویٰ حقانیہ،فتاویٰ فریدیہ]

مولانا ندیم احمد انصاری

Comments