۔484) فورسیج آن لائن کمپنی کا شرعی حکم

 ۔ 1🌹) دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

سوال ... فورسیج  ان لائن ارننگ کا شرعی حکم کیا ہے؟ جس میں یہ ہوتا ہے کہ آپ 2700 روپے انوسٹ کر کے کمپنی جوائن کرتے ہیں اور جس کے ریفرنس سے آپ نے کمپنی جوائن کی اس کو 1000 روپے ملتے ہیں اور آگے آپ نے بھی ٹیم بنانی ہوتی ہے لوگوں سے جوائننگ کروانی ہوتی ہے اور ہر ایک بندہ کو جوائن کروانے پر کمپنی آپ کو 1000 روپیہ دیتی ہے اور کمپنی کی اپنی کوئی پروڈکس نہیں بلکہ 2700 میں سے1000 آپ کو ملتا ہے اور 1700 کمپنی کو،  کیا یہ 1000 ہمارے لئے جائز ہے؟
جواب ... واضح رہے کہ فورسیج آن لائن کمپنی جو طریقہ کار بتایا گیا ہے اس میں شرعا دو خرابیاں پائی جاتی ہیں ایک تو اس میں جوا پایا جاتا ہے کہ کمپنی  جوائن کرنے کے لیے 2700 روپے جمع کرتے ہیں کمپنی جوائن کرنے کے  بعدممبر کو 1000 روپے تب ملتے ہیں  جب وہ  کسی اور کو ممبر بنائےگا ورنہ ممبر کو  پیسے نہیں ملیں گے دوسرا یہ کہ حقیقت میں اس کمپنی کا کوئی کاروبار نہیں ہے   لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ وجوہات کی بنا پر مذکورہ کمپنی جوائن کرنا اور نفع کماناجائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے

"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(کتاب الحظر و الاباحة  ، فصل فی البیع جلد ط : دارالفکر)

فقط و اللہ اعلم

فتوی نمبر : 144310100552

۔  2 🌹)  دار الافتاء جامعه بنوریه عالمیه
فورسیج نامی کاروبار سے متعلق اب تک جو معلومات موصول ہوئی ہیں، اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ ایک”ملٹی لیول مارکیٹنگ“ کے تحت چلنے والا ایک نظام ہے، جس کا بنیادی مقصد کسی پروڈکٹ (کرنسی وغیرہ) کی خرید فروخت اور کاروبار کرنا نہیں ہوتا، بلکہ محض ممبر شپ کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس چین میں شامل کر کے ان سے سرمایہ اکٹھا کرنا ہے، جس کے لیے ممبران کو” نیٹ ورک مارکیٹنگ“ کے طریقہ کار پر ڈاؤن چین میں شامل ہونے والوں کی رقم سے کمیشن کی لالچ دیکر کمپنی کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کی جاتی ہے۔
چنانچہ فورسیج نامی کاروبار کے طریقہ کا پر غور و فکر کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اس میں درج ذیل مفاسد پائے جاتے ہیں۔
۔1 فورسیج نامی کاروبار میں درحقیقت مصنوعات کی خرید و فروخت نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے ممبر بننے والوں کا یہ مقصد ہوتا ہے، بلکہ کمپنی کو اپنی تشہیر کے لیے زیادہ سے زیادہ ممبرز اور سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے لیے کمپنی لوگوں سے مخصوص رقم لیکر اس چین کا حصہ بنا لیتی ہے اور مزید لوگوں کو شامل کرنے کے لیے انہیں ایک لنک دیا جاتا ہے، پھر اگر کوئی شخص اس پرانے ممبر کے توسط سے اس چین کا حصہ بنتا ہے، تو اس کی رقم سے پرانے ممبر کو کمیشن دیا جاتا ہے، اور یہ سلسلہ کمیشن درکمیشن چلتا رہتا ہے، لیکن اگر کوئی ممبر مزید لوگوں کو شامل کرنے میں ناکام رہے، تو اس کو کمیشن کی صورت میں منافع بھی نہیں ملتا، جو کہ غرر اور قمار کی ایک صورت ہے۔
۔2 اس بلاک چین میں کمپنی اور ممبر کے درمیان ہونے والے معاملے کی حیثیت اور نوعیت کی کوئی وضاحت نہیں ، بلکہ ایک مجہول عقد کے نتیجے میں اسے نفع مل رہا ہوتا ہے۔
• اس کمپنی میں بالواسطہ ممبرز بننے والوں کے عمل سے ماقبل کے ممبر کو بغیر کسی محنت و عمل کے منافع مل رہا ہے، جو شرعا جائز نہیں۔
لہذا فارسیج کمپنی میں محض ممبر سازی کے تحت لوگوں کو کمیشن کی لالچ دیکر ان سے سرمایہ اکھٹا کرنا ہی اصل مقصد ہے، کسی چیز کی خرید و فروخت اور کاربار مقصود نہیں ، اس لیے اس کمپنی کا ممبر بننے یا دوسرے لوگوں کو اس اس میں شمولیت کی دعوت دینے سے اجتناب لازم ہے۔
مأخذ الفتوی
قال اللہ سبحانہ و تعالی :﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَيْسِرُ وَ الْأَنْصَابُ وَ الْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾.(المائدة:90)۔
و لا خلاف بین أہل العلم في تحریم القمار ، و أن المخاطرۃ من القمار ، قال ابن عباس : إن المخاطرۃ قمار ، و إن أہل الجاہلیۃ کانوا یخاطرون علی المال و الزوجۃ ، و قد کان ذلک مباحاً إلی أن ورد تحریمہ۔(فی أحکام القرآن للجصاص: ۱/۳۹۸)۔
نہی رسول اللّٰہ صلى الله عليه و سلم عن بَیْعِ الْغَرَرِ (مسلم، ابوداؤد: 6۷۳۳)۔
و لو کان الخطر من الجانبین جمیعًا و لم یدخلا فیہ محللاً لا یجوز ؛ لأنہ في معنی القمار ، نحو أن یقول أحدہما لصاحبہ : إن سبقتني فلک عليّ کذا ، و إن سبقتک فلي علیک کذا ، فقبل الآخر"(بدائع الصنائع فصل في شروط جواز السابق ۸/۳۵۰ دار الکتب العلمیۃ بیروت)۔
لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً و ينقص أخرى ، و سمي القمار قماراً ؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه ، و يجوز أن يستفيد مال صاحبه و هو حرام بالنص۔(شامی: 6/403)۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب
مفتی شفیع اللہ عُفی عنه

۔ 3 🌹 دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
          شاہ فیصل کالونی نمبر4، کراچی پوسٹ کوڈ نمبر75230 ، پاکستان 
 0092-21-34571132
فارسیج 31 جنوری 2020ء سے چل رہی ہے ، ایک ڈی سنٹر لائزڈ سسٹم ہے ، جو کبھی ختم نہیں ہو سکتا ، جب تک انٹرنیٹ کا نظام چلتا رہے گا ،تب تک یہ بھی چلتا رہے گا ، 200 سے زائد ممالک میں پھیلا ہوا یہ نظام ایک روسی منصوبہ ہے ، خالصتا ایک بلاک چین ٹیکنا لوجی ہے ، مسٹر لاڈو نے اس سسٹم کو بنا کر بلاک چین ٹیکنالوجی سے منسلک کردیا ہے ، اورپھر بی یو ایسں ڈی جو بنانس ایکسچینج کا کوائن ، مسٹر لاڈو نے بنانس کے ساتھ معاہدہ کرلیا اور اپنی ٹیم بھی بنائی اور بنانس سے اپنے شئیر وصول کرتا ہے  ، مسٹر لاڈو کا تعلق روس سے ہے ، اس سسٹم میں یہ ہے کہ اس کی آمدنی کسی مالک کو نہیں جاتی ، جتنی بھی انویسٹمنٹ لوگ کرتے ہیں وہ ان میں خود ساختہ نظام کے تحت تقسیم ہو جاتی ہے ،گورنمنٹ اس نظام کو ختم نہیں کر سکتی ہے اور نہ ہی کنٹرول کر سکتی ہے، یہ ایک بلاک چین ٹیکنالوجی پر بنایا گیا ہے جس کو روکنا ممکن نہیں ،اس میں بندہ نیٹ ورکنگ کر کے اپنی ٹیم بناتا ہے ، اس سسٹم میں یہ بھی ہے کہ جب کوئی شخص کسی نیو ممبر کو اس ٹیم میں جوائن کرواتا ہے تو جوائن کروانے والے کو بونس یا پروفٹ ملتا ہے اور اس کے ساتھ بندہ کو اپ لائنر کی ورکنگ سے بھی پروفٹ ملتا رہتا ہے ، جو بندہ کے ٹرسٹ ویلٹ میں آجاتا ہے ، بندہ کو ویڈرا لگانے کی بھی ضرورت نہیں، جو بندہ کسی کو بھی سینڈ کر کے اس کی رقم ایزی پیسہ ، جیز کیش اور بینک کے ذریعہ وصول کر سکتا ہے اور کسی کا محتاج نہیں ہوتا
جواب ۔۔۔ سوال میں ذکر کردہ‘‘ فارسیج کمپنی ’کے طریقہ کار پر غور کیا گیا ،مسلسل غور کرنے کے بعد جو شرعی حکم ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ آج کل اس نوعیت کا کاروبار کرنے والی کئی کمپنیاں وجود میں آچکی ہیں جو آگے ممبر بنا کر اس پر کمیشن دینے کی پیشکش کرتی ہیں،لوگ کمیشن کی لالچ میں آکر اس کو جوائن کرلیتے ہیں،‘‘فارسیج’’اور اس جیسی دیگر کمپنیوں کا اصل مقصد اپنی مصنوعات فروخت کرنا نہیں ،  ورنہ اس کے لیے ممبر بننا شرط نہ ہوتا اور نہ اس میں شامل ہونے والے ممبروں کا اصل مقصد کمپنی کی مصنوعات خریدنی ہوتی ہیں،بلکہ کمپنی کا اصل مقصد ممبروں کے ذریعے اپنی کمپنی کی زیادہ سے زیادہ تشہیر اور زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنی ہوتی ہے اور ممبروں کا اصل مقصد زیادہ سے زیادہ کمیشن حاصل کرنا ہوتا ہے۔
لہٰذا شریعت مطہرہ کی رو سے مذکورہ کمپنی کی کاروباری شکل میں کئی خرابیاں  ہیں،جن میں چند مندرجہ ذیل ہیں:
۔۱۔ سوال میں مذکورہ ‘‘فارسیج’’ملٹی لیول مارکیٹنگ نظام کے تحت کام کرتی ہے، اور ملٹی لیول مارکیٹنگ کے نظام میں شرعی اعتبار سے مختلف مفاسد اور خرابیاں پائی جاتی ہیں، مثلاً غرر،دھوکہ دہی وغیرہ،اس طریقہ کار میں کمپنی کی مصنوعات کھلی مارکیٹ میں فروخت نہیں ہوتیں،بلکہ پہلے صرف ممبران کو مصنوعات دی جاتی ہیں، ساتھ ہی کمپنی کی طرف سے اس بات کی ترغیب دی جاتی ہے کہ آپ مزید ممبر بنائیں اور کمپنی کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کریں، اس پر کمپنی آپ کو کمیشن/منافع دے گی،نتیجتاً  ایسی کمپنیوں کا مقصد مصنوعات پیچنا نہیں ہوتا، بلکہ کمیشن اور منافع کا لالچ دے کر لوگوں کو کمپنی کا ممبر بنانا ہوتا ہے، اور ایک تصوراتی اور غیر حقیقی منافع کا وعدہ کر کے لوگوں کو کمپنی میں شامل کرلیا جاتا ہے۔
۔۲  ۔ اس کمپنی کو جوائن کرنے کے ساتھ ممبر کو نفع ملنا شروع ہوتا ہے، جبکہ نہ ممبر کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کون سا عقد طے ہوا ہے ، اور نہ عقود شرعیہ میں سے کسی عقد کی تعریف اس پر صادق آتی ہے ، لہذا یہ ایک عقد مجہول کے عوض نفع ملتا ہے ، جوکہ جائز نہیں ۔ 
۔۳۔ملٹی لیول مارکیٹنگ پر چلنے والی کمپنیوں میں سے کسی جائز کام کرنے والی کمپنی میں بلا واسطہ کسی کو ممبر بنانے میں ممبر کی محنت کا دخل ہوتا ہے جس کی اجرت لینا جائز ہے، لیکن بغیر محنت و مشقت کے بالواسطہ بننے والے ممبروں اور ان کی خرید و فروخت کی وجہ سے ملنے والی اجرت لینا جائز نہیں۔
لہذاملٹی لیول مارکیٹنگ کے نظام پر چلنے والی کمپنی کا ممبر بن کر ممبرسازی کرنا اور مختلف راستوں سے مالی فوائد حاصل کرنا شرعاً جائز نہیں۔
اس لیے مذکورہ ‘‘ فارسیج’’کمپنی سے کسی قسم کا معاملہ کرنا یا اس کا ممبر بننا جائز نہیں اور اس کے ساتھ کام کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
و في" تفسير ابن كثير":
﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾. (المائدة:90).
قال ابن كثير رحمة الله عليه في تفسير هذہ الاية :يقول تَعَالَى: نَاهِيًا عِبَادَهُ الْمُؤْمِنِينَ عَنْ تَعَاطِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَهُوَ الْقِمَارُ.
(تفسير ابن كثير:2/654،547،ط:دارالكتاب العربي).
وفي "روح المعاني":
"وقال العلامة الآ لوسي رحمة الله عليه: ومن مفاسد الميسر أن فيه أكل الأموال بالباطل وأنه يدعو كثيرا من المقامرين إلى السرقة وتلف النفس وإضاعة العيال وإرتكاب الأمور القبيحة والرذائل الشنيعة والعداوة الكامنة والظاهرة وهذا أمر مشاهد لا ينكره إلا من أعماه الله تعالى وأصمه".(2/ 115،114، دار احياء التراث العربي).
وفي "ردالمحتار":
"تتمة:قال في التاترخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم.  وفي الحاوي سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال أرجو أنه لا بأس به، وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام".(كتاب الاجارة،باب ضمان اللأجير، (مطلب في أجرة الدّلاّل،9/107،ط:رشيدية).فقط واللہ اعلم بالصواب ۔۔۔ فتوی نمبر: 174/158


Comments