جب ہم ازاد ہوتے تھیں
جب سرحدیں ہماری راہ میں حائل نہیں ہوتی تھیں
جب عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں رہتے ہوئے موجودہ دور کی22 ریاستوں پر حکومت کرتے تھے
جب ولید بن مروان کی افواج مشرق میں دیوار چین سے مغرب میں فرانس تک سیاہ و سفید کی مالک تھیں
جب ہارون الرشید تین چوتھائی ایشیاء کو اپنی مٹھی میں رکھا کرتے تھے
جب معتصم با للہ عموریہ کو تہ و بالا کرنے کے بعد بلغاریا کی سرحدوں کو پامال کر رہا تھا
جب صلاح الدین صلیبیوں کی کمر توڑ کر بیت المقدس کو آزاد کرنے بعد مسکرایا کرتا تھا
جب قطز نے تاتاریوں کا قصہ تمام کر کے دنیا کو ان کی شر سے بچا کر سب کو حیران کر دیا
جب عثمانیوں نے صلیبیوں کی سب سے بڑی سلطنت بیزنطینی امپائر کو دنیا کے نقشے سے مٹا کر آدھے یورپ کو اپنے ماتحت کیا
جب سرحدیں ہماری راہ میں حائل نہیں ہوتی تھیں تو ہم دنیا پر حکمرانی کرتے تھے. ایک مسلمان قرطبہ سے بغداد اور مراکش سے مکہ سفر کرتا کوئی اس سے ویزہ اور پاسپورٹ کے بارے میں نہیں پوچھتا
پھر جب ہمیں سرحدوں میں بند کر دیا گیا، ہمیں قومی ریاست، قومی پرچم، قومی ترانہ، قومی زبان اور قومی حکومتیں دی گئیں، تو ہم تو ان سرحدوں کے اندر ایسے ہو گئے جیسے کوئی جانور پنجرے میں بند ہو جاتا ہے. ہم جب ان سرحدوں سے باہر جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ یہ دراندازی ہے . لیکن جب دشمن انہیں سرحدوں کو پامال کر کے ہمیں اپنے بموں سے مارتا ہے تو اس کے ایجنٹ اس کو عالمی برادری سے تعاون قرار دیتے ہیں. پھر یہ کہتے ہیں کہ دنیا ایک گلوبل ولیج ہے، ہم دنیا سے تعاون کیے بغیر نہیں رہ سکتے. جب یہ بات ان کو سمجھائی جاتی ہے کہ دنیا تو ایک گلوبل ولیج ہے سارے مسلمانوں کو اکھٹا ہونا چاہیے تو وہ اس کو انتہا پسندی قرار دیتے ہیں. خود ہزاروں کلومیٹر دور دشمن کے ساتھ اتحاد قائم کرتے ہیں، اس کی جنگ کو اپنی جنگ کہہ کر لڑتے ہیں مگر اپنے بازو میں مسلمانوں مارتے بھی ہیں اور مرواتے بھی ہیں. کیا یہ کہنا مناسب نہیں کہ دنیا گوبل ولیج بن چکی ہے اس لیے مسلمانوں کو بھی اب ایک ہونا چاہیے
Comments
Post a Comment