سفر معراج میں محیر العقول رفتار
۔🌴 سفرِ معراج میں اِس محیر العقول رفتار سے روانگی کا راز عقلِ اِنسانی میں نہیں سما سکتا۔
یہ اللہ ربّ العزت کی قدرتِ کاملہ ہی کا ظہور تھا جس کی بدولت ایسا ممکن ہوا۔
مکان و زمان (سپیس ٹائم) کے نظریئے میں وقت کی اِضافیت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ مختلف اَفراد یا مختلف مکان پر وقت کا مختلف رفتار سے گزرنا باقاعدہ ایک علمی حیثیت میں تسلیم کیا جا چکا ہے۔ اِضافیتِ زمان پر اللہ ربّ العزت کی آخری و حتمی وحی میں بہت سی آیات موجود ہیں۔ ہمارا اِدراک ہی وقت کی تعریف کرتا ہے اور یہی اُس کی رفتار کو تیز یا آہستہ قرار دیتا ہے۔ دراصل وقت محض ایک ایسا اِدراک ہے جس کا اِنحصار واقعات کی ترکیب پر ہوتا ہے اور واقعات کی ترتیب ہی وقت کے ایک سلسلے کا باعث بنتی ہے۔
روزِ قیامت۔ ۔ ۔ اِضافیتِ زمان ۔۔۔ قیامت کا دن بھی طئ زمانی ہی کی ایک صورت میں برپا ہو گا، جس میں وقت کے گزرنے کی شرح مختلف ہو گی۔ وہ دن بعض لوگوں کے لئے محض پلک جھپکنے میں گزر جائے گا اور بعض دُوسرے لوگوں کے لئے ایک ہزار یا پچاس ہزار سال تک طویل ہو جائے گا۔ دراصل وقت محض ایک نفسی اِدراک ہے جسے ہر فرد اپنے مخصوص حالات کے پس منظر میں محسوس کرتا ہے۔ اللہ کے برگزیدہ و محبوب بندوں کے لئے وہ دن مشاہدۂ حق کے اِستغراق میں نہایت تیزی سے گزر جائے گا جبکہ دُوسری طرف عام لوگوں پر مشاہدۂ حق کی بجائے کرب و اذیت کا اِحساس غالب ہو گا، جس کی بدولت اُن کے لئے وہ دِن حسبِ حالت ایک ہزار یا پچاس ہزار سال پر محیط ہوگا۔
مادّی کائنات میں طبیعی قوانین کے تحت روشنی کی رفتار کے تناسب سے تیز رفتاری سے سفر کرنے والے اَجسام پر وقت نہایت تیزی سے گزر جاتا ہے جبکہ مشاہدۂ حق میں مصروف اللہ کے محبوب بندوں پر حالتِ سکون میں ہی وقت یوں گزرتا ہے کہ صدیاں لمحوں میں تبدیل ہوتی دِکھائی دیتی ہیں
مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اُڑتے جاتے ہیں
مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں
Comments
Post a Comment