۔🌹 اسلام میں توبہ
توبہ عربی زبان کا لفظ ہے ،اس کے حقیقی معنی رجوع کرنے کے ہیں اور اصطلاحِ شریعت میں توبہ سے مراد یہ ہے کہ شریعت میں جو کچھ مذموم ہے اس سے لوٹ کر قابل تعریف شے کی طرف آجائے ۔
ترک گناہ کا عہد قرآن میں یہ لفظ بار بار آیا ہے اور خدا سے بصدق دل گناہوں کی معافی پر زور دیا گیا ہے۔ امام غزالی کے قول کے مطابق توبہ کی تین شرطیں ہیں۔
۔1۔ گناہ کا سرزد ہونا
۔2۔ گناہ پر نادم ہونا
۔3۔ یہ عہد کرنا کہ آئندہ ہرگز گناہ نہیں کروں گا
اس صورت میں خدا توبہ کرنے والے کو معاف کر دیتا ہے البتہ مرگ کی توبہ بے سود ہوتی ہے۔ تصوف کی اصطلاح میں توبہ ایک روحانی قلب ماہیت ہے۔ جس کے بغیر راہ طریقت پر نہیں چلا جاسکتا
۔🌹 خالص توبہ
اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے
اے ایمان والو! تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو۔ قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے گناہ دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔(التحریم:8)
خالص توبہ، یہ ہے کہ انسان اپنے گناہوں سے سچے دل سے توبہ کرے،گناہ کرنا چھوڑ دے، آئندہ اسے نہ کرنے کا عزم کرے،اور اپنے گناہوں پر نادم ہو،اگر اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو جس کسی کا کوئی حق چھینا ہے یا کسی کی حق تلفی کی ہے تو اس کو اس کا حق ادا کرے،اگر کسی پر ظلم کیا اور ستایا ہے تو اس سے معافی طلب کرے۔
سچی توبہ سے بندے کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں
جاننا چاہیے کہ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دن میں سو مرتبہ اللہ کے حضور اپنے گناہوں سے معافی طلب کیا کرتے تھے، حالانکہ آپ اور تمام انبیا کرام علیھم السلام گناہوں سے ہمیشہ پاک تھے۔ اسلام کا عقیدہ ہے کہ وہ تمام معصوم تھے۔ ان سب نے نہ کبھی کوئی گناہ کیا۔ نہ کبھی ہو سکا۔ کیونکہ یہ اللہ عزوجل کا خاص انعام انبیا کے ساتھ مخصوص تھا۔ قرآن پاک کی سورۃ فتح کی دوسری آیت کا مفہوم امت کے لیے ہے۔ اس کو اس معنٰی پر محمول نہ کیا جائے۔ بندے کو چاہیے کہ وہ کثرت سے رب کے حضور اپنے گناہوں کی معافی طلب کرے۔
توبہ کا دروازہ اس وقت تک کھلا ہے جب تک کہ بندہ سکرات کے عالم میں نہ پہنچ جائے،اور جب تک کہ سورج مغرب سے طلوع نہ ہو اور جان کنی کے وقت کی گئی توبہ قبول نہیں ہوگی، جیسا کہ مسند احمد میں ہے
ان اللہ یقبل توبۃ العبد ما لم یغرغر
کہ اللہ تعالٰی بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہ اسے جان کنی کا وقت نہ آجائے، یعنی آخری سانس کے وقت کی گئی توبہ نا مقبول ہے
اے اللہ کے بندو ... توبہ کرنے میں جلدی کرو،کیونکہ موت کا پتہ نہیں کہ کب وہ ہمیں آ دبوچ لے گی،حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا تھا" اے میرے بیٹے توبہ کرنے میں دیر مت کرنا کیونکہ موت اچانک آئے گی۔ اللہ احکم الحاکمین کا فرمان ہے
ومن لم یتب فألئک ہم الظالمون
جو تو بہ نہیں کرتے وہی لوگ ظالم ہیں
Comments
Post a Comment