۔552🌻) قصہ ایک مجلسِ نکاح کا

 حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری صاحب دامت برکاتہم شیخ الحدیث و صدر المدرسین دار العلوم دیوبند نے اپنے محلے کی مسجد میں اپنے پوتے پوتی کا نکاح پڑھایا، جس میں مقامی نمازیوں، طلبہ دارالعلوم دیوبند اور رشتہ داروں کی ایک معتد بہ تعداد موجود تھی جس میں حضرت مولانا مفتی امین صاحب پالن پوری دامت برکاتہم بھی تشریف فرما تھے۔بعد خطبہ نکاح کے حضرت مفتی صاحب نے حاضرین سے فرمایا

۔❶ مہر جو متعین کیا گیا ہے وہ مہر فاطمی متعین کیا گیا ہے، اِس مہر کا جو مشہور نام ہے وہ مہر فاطمی ہے، معاشرے میں عام طور سے اس کو مہر فاطمی کہا جاتا ہے، جبکہ حقیقت میں اِس کا نام ہونا چاہیے مہر نبوی یا مہر محمدی، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام پاک بیویوں اور تمام صاحب زادیوں کا مہر یہی متعین کیا تھا، پس صحیح تعبیر مہر فاطمی نہیں،بلکہ مہر نبوی یا مہر محمدی ہے،مگر مشہور مہر فاطمی ہوگیا ہے ۔جیسے نمازوں کے بعد جو 33 بار سبحان اللہ 33 بار الحمد للہ اور 34 بار اللہ اکبر پڑھے جاتے ہیں تو عام طور سے اس تسبیح کو تسبیح فاطمہ کہا جاتا ہے، جبکہ حقيقت میں یہ تسبیح فاطمہ نہیں ہے،یہ تسبیح فقراء ہے، تسبیح فاطمہ سوتے وقت ہے، سوتے وقت اگر میاں بیوی دونوں 33 بار سبحان اللہ، 33 بار الحمد للہ اور 34 بار اللہ اکبر پڑھ کر سوئیں گے تو عورت کو گھر کے کاموں میں تھکن نہیں ہوگی۔پس جیسے تسبیح میں ایک نام چل پڑا ہے، مشہور ہوگیا ہے اسی طرح مہر میں بھی ایک نام چل پڑا ہے، مشہور ہوگیا ہے

۔❷ شریعت میں مہر کی کم از کم مقدار متعین ہے، دس درہم مہر کی کم سے کم مقدار ہے، البتہ زیادہ سے زیادہ مہر کی مقدار شریعت میں متعین نہیں ہے، جتنا چاہیں اتنا دے سکتے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ ٹھیک ہے کہ زیادہ سے زیادہ مقدار متعین نہیں ہے مگر زیادہ سے زیادہ مقدار میں معتدل اور درمیانی مقدار کیا ہے؟

اِس معتدل مقدار کو نبی کریم ﷺ نے اپنے عمل سے بشکلِ مہر نبوی /مہر فاطمی بیان کیا ہے، مہر نبوی/مہر فاطمی یہ مہروں میں معتدل مہر ہے، عورتوں کو اتنا مہر دینا ہی چاہیے۔

۔❸ ہم اتنے غریب نہیں ہیں جتنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین تھے، جب وہ یہ مہر نبوی/مہر فاطمی دیتے تھے تو ہم کیوں نہیں دے سکتے؟

 آدمی دینے کی نیت کرے تو دے سکتا ہے .......... اور آدمی کو مہر نبوی / مہر فاطمی سے زیادہ مہر بھی خواہ مخواہ نہ دینا چاہیے، مہر فاطمی سے زیادہ مہر دینا ناجائز تو نہیں ہے مگر اچھا بھی نہیں لگتا، کیونکہ نبی کریم ﷺ کی پاک بیویوں اور صاحب زادیوں سے بڑھ کر ہم میں کوئی معزز نہیں ۔پس جب اُن کا مہر مہر نبوی یا مہر فاطمی تھا تو ہمیں بھی اس سے آگے نہ بڑھنا چاہیے

۔❹ مہر سارا کا سارا نقد دینا ضروری نہیں ہے، اگر سارا نقد ہو تو بہت اچھی بات ہے، اور اگر کچھ نقد ہو کچھ ادھار ہو تو یہ بھی جائز ہے، جیسے یہ نکاح جس میں ہم شریک ہیں اس میں کچھ مہر نقد ہے اور کچھ ادھار ہے، اس مہر کا دو تہائی حصہ زیور اور کیش کی شکل میں نقد ہے، اور ایک تہائی ادھار ہے، لڑکا اِس ادھار حصے کو حسب موقعہ ادا کرے گا، ادھار مہر کی ادائیگی میں یہ دھیان رکھنے کی ضرورت ہے کہ چاندی کی قیمت اُس دن کی لگے گی جس دن مہر ادا کیا جائے گا، نکاح کے وقت کی قیمت کا اعتبار نہیں ہوگا

۔❺ ہمارے معاشرے میں نکاح میں ولی کو کوئی پوچھتا ہی نہیں ہے، لڑکی کی اجازت کے بارے میں جب بھی پوچھا جاتا ہے اس کے وکیل سے پوچھا جاتا ہے ، ارے بھائی لڑکی کے والد موجود ہیں، ولی کے ہوتے ہوئے وکیل سے کیوں پوچھا جائے؟

 احادیث میں ولی ہی کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا، نکاح کے رجسٹر میں بھی وکیل لکھا ہوا ہے،ولی کے ہوتے ہوئے وکیل کا کوئی کام نہیں ہے

۔❻ نکاح کے بعد مٹھائی کا بھی انتظام کیا گیا ہے، یہ مٹھائی مسجد میں تقسیم نہیں ہوگی تاکہ مسجد گندی نہ ہو، نکاح کے بعد مسجد کے دونوں دروازوں پر مٹھائی تقسیم کرنے والے کھڑے ہو جائیں گے، مسجد سے نکلتے جائیں اور مٹھائی وصول کرتے جائیں

اُس کے بعد ایجاب و قبول ہوا اور حضرت کی دعا پر یہ مجلس اپنے اختتام کو پہنچی

Comments