422) شیطان کا حربہ جو وہ مسلمانوں پر آزماتا ہے

 

💥  شیطان  کا حربہ ۔۔۔ جو وہ مسلمانوں پر آزماتا ہے   💥

شیطان جو نور سے ظلمت کی طرف لاتا ہے اُس کا اصل مشن یہی ہوتا ہے۔ شیطان دیکھتا ہے کہ یہ بندہ بڑی چیزوں کو چھوڑنے والا نہیں ہے،پھر اُس سے چھوٹی چیزوں کو دیکھتا ہے کہ یہ بندہ اس کو بھی چھوڑنے والا نہیں ہے۔حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ شیطان آدمی کے سامنے آکر دیکھتا ہے کہ اگر میں اس سے کہوں کہ یہ شرک کرے تو یہ شرک کرے گا یا نہیں کرے گا؟ 

نہیں بھئی یہ تو ماننے والا نہیں ہے۔ پھر شیطان یہ دیکھتا ہے کہ اگر میں اس سے کہوں کہ یہ گناہِ کبیرہ کرے تو یہ بندہ ماننے والا نہیں ہے۔ پھر شیطان یہ دیکھتا ہے کہ کیا میں اس کو بدعت میں مبتلا کر سکتا ہوں جو غلط ہی ہے لیکن ظاہری طور پر صحیح دکھلا دیتا ہے، لیکن یہ بندہ اس میں بھی قابو میں نہیں آرہا ہے۔ پھر شیطان یہ دیکھتا ہے کہ کیا میں اس بندے کو چھوٹے چھوٹے گناہوں میں لگا سکتا ہوں لیکن وہ یہ بھی نہیں کر سکتا کیونکہ یہ کسی اللہ والے کا صحبت یافتہ نظر آرہا ہے۔ پھر شیطان یہ دیکھتا ہے کہ کیا میں اس بندے سے سنن اور مستحبات چھڑوا سکتا ہوں۔ مستحب چھوڑنے کے مجرم کی سزا سنت سے محرومی ہے۔ جو سنت کو چھوڑتا ہے اُس کی سزا واجبات سے محرومی ہے۔ جو واجبات میں سستی کرتا ہے اُس کی سزا فرائض سے محرومی ہے۔ جس سے سنت چھوٹتی ہے آپ دیکھیں گے کہ اُس کی تکبیرِ اولیٰ اکثر چھوٹتی ہے۔ جو مستحبات کو چھوڑتا ہے اُس سے سنت میں گڑبڑ ہوتی ہے۔ یہ ایک ترتیب ہے۔

تمام نیکیاں آپس میں رشتہ دار ہیں اور ایک دوسرے کو کھینچا کرتی ہیں۔ تمام بُرائیاں آپس میں رشتہ دار ہیں اور ایک دوسرے کو کھینچا کرتی ہیں۔ آدمی چھوٹی بُرائی سے بڑی بُرائی تک چلا جاتا ہے اور آدمی چھوٹی نیکی سے بڑی نیکی تک پہنچ جاتا ہے۔

پھر سب سے آخری چیز جس سے بہت کم لوگ بچ پاتے ہیں اور شیطان کا کامیاب حربہ ہے کہ تکثیر مباحات یعنی جائز چیزوں کی کثرت میں مبتلا کرتا ہے۔ یہ جائز ہے، وہ جائز ہے، اچھا پہننا جائز ہے، اچھا کھانا جائز ہے، اچھا مکان بھی جائز ہے، اچھی گھڑی بھی جائز ہے، اچھی گاڑی بھی جائز ہے اور پھر اُس کی کثرت ہوتی ہے۔ دسترخوان پر دسیوں سالن رکھے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام نے یہ سب جائز کیا ہے اور یہ خدا کی نعمتیں ہیں لہٰذا خوب کھاؤ۔ جب آدمی تکثیر مباحات میں پڑتا ہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ آدمی چھوٹے گناہوں میں نہ پڑے۔ جب آدمی چھوٹے گناہوں میں پڑتا ہے تو شیطان خوش ہوتا ہے کہ میرا کام بننا شروع ہو گیا کیونکہ آدمی چھوٹے گناہوں سے بڑے گناہوں کی طرف خود بخود جاتا ہے اور بڑے گناہوں کے بعد آدمی کبھی (اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے) ایمان سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔

بعض دفعہ مرنے کے وقت سوئے خاتمہ کے واقعات پیش آتے ہیں۔ علماء نے لکھا ہے کہ آدمی مرتے وقت بے ایمان نہیں مرتا بلکہ گناہوں کی نحوست کی وجہ سے پہلے ہی بے ایمان ہوچکا ہوتا ہے، بس اُس کا ظہور مرتے وقت میں ہو رہا ہے۔ اپنے ذہن میں وہ خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ میں ایمان والا ہوں۔ یہ بڑی خطرناک بات ہوتی ہے کہ یہاں پر آدمی کو خوش فہمی ہو اور وہاں جاتے ہوئے آخر میں ایسے وقت میں پتہ چلے جب عالمِ غیب عالمِ مشاہدہ بن چکا ہے اور پھر اُس وقت ایمان معتبر نہیں ہوتا، اُس وقت ایمان لانا فائدہ بھی نہیں دیتا، وہ بہت خطرناک صورتحال ہوتی ہے


Comments