حضرت محمد ﷺ کے امتی نے حق کی خاطر ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو تازہ کیا حضرات تابعین رحمہم اللہ اجمعین میں سے ایک تابعی ’’حضرت ابو مسلم خولانی رضی اللہ عنہ جن کا نام عبداللہ بن ثوب رضی اللہ عنہ ہے اور یہ امت محمدیہ (علی صاحبہا السلام) کے وہ جلیل القدر بزرگ ہیں جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے آگ کو اسی طرح بے اثر فرما دیا جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آتش نمرود کو گلزار بنا دیا تھا۔ یہ یمن میں پیدا ہوئے تھے اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک ہی میں اسلام لاچکے تھے لیکن سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا موقع نہیں ملا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے آخری دور میں یمن میں نبوت کا جھوٹا دعویدار اسود عنسی پیدا ہوا۔ جو لوگوں کو اپنی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے کے لئے مجبور کیا کرتا تھا۔ اسی دوران اس نے حضرت ابو مسلم خولانی رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیج کر اپنے پاس بلایا اور اپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی، حضرت ابو مسلم رضی اللہ عنہ نے انکار کیا پھر اس نے پوچھا کہ کیا تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھتے ہو؟ حضرت ابو مسلم نے فرمایا ہاں، اس پر اسود عنسی نے ایک خوفناک آگ دہکائی اور حضرت ابو مسلم رضی اللہ عنہ کو اس آگ میں ڈال دیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے آگ کو بے اثر فرما دیا، اور وہ اس سے صحیح سلامت نکل آئے۔ یہ واقعہ اتنا عجیب تھا کہ اسود عنسی اور اس کے رفقأ پر ہیبت طاری ہو گئی اور اسود کے ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا کہ ان کو جلا وطن کر دو، ورنہ خطرہ ہے کہ ان کی وجہ سے تمہارے لوگوں کے ایمان میں تزلزل نہ آجائے، چنانچہ انہیں یمن سے جلاوطن کر دیا گیا۔ یمن سے نکل کر ایک ہی جائے پناہ تھی، یعنی مدینہ منورہ، چنانچہ یہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے چلے، لیکن جب مدینہ منورہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ آفتاب رسالتؐ ﷺ وصال فرما چکے تھے، اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ خلیفہ بن چکے تھے، انہوں نے اپنی اونٹنی مسجد نبوی کے دروازے کے پاس بٹھائی اور اندر آکر ایک ستون کے پیچھے نماز پڑھنی شروع کر دی۔ وہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ موجود تھے ۔ انہوں نے ایک اجنبی مسافر کو نماز پڑھتے دیکھا تو ان کے پاس آئے اور جب وہ نماز سے فارغ ہوگئے تو ان سے پوچھا: آپ کہاں سے آئے ہیں؟ یمن سے! حضرت ابو مسلم رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فوراً پوچھا: اللہ کے دشمن (اسود عنسی) نے ہمارے ایک دوست کو آگ میں ڈال دیا تھا، اور آگ نے ان پر کوئی اثر نہیں کیا تھا، بعد میں ان صاحب کے ساتھ اسود نے کیا معاملہ کیا؟ حضرت ابو مسلم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ان کا نام عبداللہ بن ثوب ہے۔ اتنی دیر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فراست اپنا کام کرچکی تھی، انہوں نے فوراً فرمایا: میں آپ کو قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ ہی وہ صاحب ہیں؟ حضرت ابو مسلم خولانی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ’’جی ہاں!‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرطِ مسرت و محبت سے ان کی پیشانی کو بوسہ دیا، اور انہیں لے کر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچے، انہیں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اور اپنے درمیان بٹھایا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے موت سے پہلے امت محمدیہ ﷺ کے اس شخص کی زیارت کرا دی جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جیسا معاملہ فرمایا تھا۔
(حلیۃ الاولیأ ص ۱۲۹، ج۲، تہذیب ج ۶ ص ۴۵۸)
( تاریخ ابن عساکر ص۳۱۵، ج۷، جہاں دیدہ ص ۲۹۳ و ترجمان السنۃ ص ۳۴۱)
Comments
Post a Comment