حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت بی بی حاجرہ علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ کی ایسی وادی میں چھوڑ گئے تھے جہاں اس وقت کوئی انسان آباد نہ تھا، دور دور تک پانی نہ تھا اور ان کے پاس کھجور کے ایک تھیلے اور پانی کے مشکیزے کے سوا کچھ نہ تھا۔ حضرت بی بی حاجرہ علیہ السلام کے بار بار پوچھنے پر کہ وہ انہیں یہاں کیوں چھوڑ کر جا رہے ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صرف اتنا فرمایا کہ مجھے اللہ پاک کی طرف سے ایسا کرنے کا حکم ہے اور پھر وہاں سے چلے گئے، چلتے چلتے جب ثنیہ (گھاٹی) پر پہنچے جہاں سے وہ لوگ نظر نہیں آ رہے تھے تو انہوں نے ہاتھ اٹھا دئیے اور دعا مانگی
"اے پروردگار میں نے اپنی اولاد میدان (مکہ) میں جہاں کھیتی نہیں، تیرے عزت (و ادب) والے گھر کے پاس لا بسائی ہے، اے پروردگار تاکہ یہ نماز پڑھ سکیں، سو تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ ان کی طرف جھکے رہیں اور ان کو پھلوں سے رزق دے، تاکہ تیرا شکر ادا کریں۔" (ابراہیم،37)
حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ان کی والدہ دودھ پلاتی تھیں اور خود مشکیزے کا پانی پی لیتی تھیں حتیٰ کہ جب پانی ختم ہو گیا تو انہیں پیاس لگی اور ان کے بیٹے کو بھی پیاس لگی وہ دیکھ رہی تھیں کہ بچہ پیاس کیوجہ سے بے چین ہے۔ وہ اسکو تڑپتا نہ دیکھ سکیں اور اٹھ کر چل دیں، انہیں اپنے قریب کی زمین میں سے صفا پہاڑ سب سے قریب معلوم ہوا وہ اس پر چڑھ گئیں پھر وادی کی طرف منہ کر کے دیکھا مگر کوئی انسان نظر نہیں آیا وہ صفا سے اتریں جب وادی کے نشیب میں پہنچیں تو اس طرح بھاگیں جس طرح کوئی پریشان اور مصیبت زدہ دوڑتا ہے حتیٰ کہ وادی کو پار کر لیا وہ مروہ تک پہنچ گئیں وہاں بھی کوئی نظر نہ آیا اس طرح آپ علیہ السلام سات بار ایک پہاڑی سے دوسری تک دوڑتی رہیں مگر پانی نہ ملا تو آپ علیہ السلام کے چہرے مبارک کا رنگ متغیر ہوا جب واپس آئیں تو دیکھا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام شدتِ پیاس سے جس جگہ ایڑیاں رگڑ رہے تھے اسی جگی بحکمِ خدا پانی کا ایک فوارہ جاری ہوا اور اللہ پاک کے فضل سے ایک ایسا چشمہ جاری ہوا جو انشاءاللہ قیامت تک جاری رہے گا۔ بی بی حاجرہ علیہ السلام ہاتھ سے رکاوٹ بنانے لگیں اور پانی مشکیزے میں ڈالنے لگیں، ان کے چلو بھرنے کے بعد پانی پھر نکل آتا۔ پھر آپ علیہ السلام نے پانی پیا اور بچے کو دودھ پلایا۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ پاک حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ پر رحمت فرماۓ اگر وہ پانی سے چلو نہ بھرتیں، اسے بہنے دیتیں تو وہ ایک بہتے ہوۓ چشمے کی صورت اختیار کر لیتا۔
اسی طرح وقت گزرتا رہا حتیٰ کہ بنو جرہم کا ایک قافلہ یا ایک خاندان گزرا، وہ کداء کی طرف سے آۓ اور مکہ کے نشیبی حصے میں ٹھہر گئے، انہیں ایک پرندہ منڈلاتا نظر آتا تو بولے پرندے تو پانی پر منڈلایا کرتے ہیں ہم تو جب بھی اس وادی سے گزرے ہیں یہاں پانی نہیں ہوتا۔ انہوں نے دو آدمی حقیقت معلوم کرنے کے لئے بھیجے تو انہیں پانی نظر آیا انہوں نے جا کر پانی کی موجودگی کی اطلاع دی تو سب آ گئے ۔ چشمہ (زمزم) کے پاس حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ موجود تھیں۔ ان لوگوں نے کہا کیا آپ علیہ السلام ہمیں اجازت دیتی ہیں کہ ہم یہاں خیمہ زن ہو جائیں؟
انہوں نے فرمایا: جی ہاں ... اجازت ہے لیکن اس چشمے پر تمہارا کوئی حق نہ ہوگا۔ وہ لوگ مان گئے اور پھر اپنے گھر والوں کو بھی بلا لیا حتیٰ کہ وہاں کئی گھر بس گئے۔
بحوالہ قصص الانبیاء
Comments
Post a Comment