۔463) وہی عمل قابلِ قبول ہے جو اللہ کے لیے ہو

۔💓 صرف وہی عمل قابلِ قبول ہے جو اللہ کے لیے ہو

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِىَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَقُوْلُ «إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِامْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا، أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ ۔

ترجمہ : حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سُنا آپ فرماتے تھے کہ : “سب انسانی اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے اور آدمی کو اس کی نیت ہی کے مطابق پھل ملتا ہے تو جس شخص نے اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کی (اور خدا و رسول کی رضا جوئی و اطاعت کے سوا اس کی ہجرت کا اور کوئی باعث نہ تھا ) تو اس کی ہجرت در حقیقت اللہ و رسول ہی کی طرف ہوئی (اور بے شک وہ اللہ و رسول کا سچا مہاجر ہے اور اس کو اس ہجرت الی اللہ والرسول کا مقرر اجر ملے گا) اور جو کسی دنیاوی غرض کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی خاطر “مہاجر” بنا تو (اس کی ہجرت اللہ و رسول کے لیے نہ ہو گی ، بلکہ) فی الواقع جس دوسری غرض اور نیت سے اس نے ہجرت اختیار کی ہے عند اللہ اسی کی طرف اس کی ہجرت مانی جائے گی ۔ (بخاری و مسلم) 

تشریح : حدیث کا جو ترجمہ اوپر کیا گیا ہے وہ خود مطلب خیز ہے اور نفسِ مفہوم کے بیان کے لیے اس کے بعد کسی مزید تشریح کی حاجت نہیں ، لیکن اس کی خصوصی اہمیت کا تقاضہ ہے کہ اس کے مطالب و فوائد پر کچھ اور بھی لکھا جائے ۔

حدیث کا اصل منشاء امت پر اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ تمام اعمال کے صلاح و فساد اور مقبولیت و مردودیت کا مدار نیت پر ہے یعنی عملِ صالح وہی ہوگا اور اُسی کی اللہ کے یہاں قدر و قیمت ہوگی جو صالح نیت سے کیا گیا ہو اور جو “عملِ صالح” کسی بُری غرض اور فاسد نیت سے کیا گیا ہو وہ صالح اور مقبول نہ ہوگا ، بلکہ نیت کے مطابق فاسد اور مردود ہوگا ، اگرچہ ظاہری نظر میں “صالح” ہی معلوم ہو ۔۔۔ حاصل یہ کہ اللہ تعالیٰ عمل کے ساتھ نیت کا اور ظاہر کے ساتھ باطن کا بھی دیکھنے والا ہے اس کے یہاں ہر عمل کی قدر و قیمت عمل کرنے والے کی نیت کے حساب سے لگائی جائے گی ۔

۔💗ایک غلط فہمی

کسی کو اس سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ جب دار و مدار نیت ہی پر ہو تو اگر برے کام بھی کسی اچھی نیت سے کئے جائیں تو وہ اعمال صالحہ ہو جائیں گے اور ان پر بھی ثواب ملے گا مثلاً اگر کوئی شخص اس نیت سے چوری اور ڈاکہ زنی کرے کہ جو مال اس سے حاصل ہوگا اُس سے وہ غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرے گا تو وہ بھی ثواب کا مستحق ہو سکے گا ۔ اصل بات یہ ہے کہ جو کام فی نفسہ برے ہیں اور جن سے اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے اُن میں حُسنِ نیت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ، وہ تو بہر حال قبیح اور موجبِ غضبِ الہی ہیں ، بلکہ ان کے ساتھ اچھی نیت کرنا اور اُن پر ثواب کی امید رکھنا شاید انکی مزید قباحت کا اور سزا میں زیادتی کا باعث ہو ، کیوں کہ یہ اللہ کے دین کے ساتھ ایک قسم کا تلاعب (کھیل) ہوگا ، بلکہ حدیث کا منشا “اعمال صالحہ” کے متعلق یہ جتلانا ہے کہ وہ بھی اگر کسی بری نیت سے کئے جائیں گے تو پھر “اعمال صالحہ” نہیں رہیں گے ، بلکہ بُری نیت کی وجہ سے انکا انجام بُرا ہی ہوگا ۔ مثلاً جو شخص نماز نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھتا ہے جس کو ہم اعلیٰ درجہ کا عمل صالح سمجھتے ہیں وہ اگر یہ خشوع و خضوع اس لیے کرتا ہے کہ لوگ اس کی دینداری اور خدا پرستی کے متعلق اچھی رائے قائم کریں اور اس کا اعزاز و اکرام کیا جائے ، تو اس حدیث کی رو سے اس کی یہ خشوع و خضوع والی نماز اللہ کے یہاں کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتی ، یا مثلاً ایک شخص دار الکفر سے دار الایمان کی طرف ہجرت کرتا ہے اور اس کے لیے ہجرت کی ساری مشقتیں اور مصیبتیں سہتا ہے لیکن اس کی غرض اس ہجرت سے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی نہیں بلکہ کوئی اور دُنیاوی غرض پوشیدہ ہے ، مثلاً دار الہجرت میں رہنے والی کسی عورت سے نکاح کی خواہش اس ہجرت کے لیے محرک ہوئی ہے تو یہ ہجرت ہجرت اسلام نہ ہو گی اور اللہ کے ہاں اس کا کوئی اجر نہ ہو گا بلکہ اُلٹا گناہ ہوگا بس یہی ہے اس حدیث کا اصل منشاء ۔

Comments