566🌻) جہیز ____ Dowry

جہیز  کی تاریخ بہت پرانی ہے - اس کے شواہد دنیا کے سب سے قدیم تحریری دستور حمورابی ( 1760 ق م ) میں بھی ملتے ہیں - مغرب میں اس کا ثبوت پانچویں صدی قبل مسیح کے یونانیوں کے ہاں بھی ملتا ہے - شیکسپیئر ( 1616 -1564)  کے مشہور ڈرامے    (کنگ لیئر) میں ذکر ہے کہ بادشاہ نے اپنی بیٹی کو سزا کے طور پر جہیز نہ دیا - بیٹی کو جہیز دینا شادی کے وقت والدین کی طرف سے محبت کی نشانی سمجھی جاتی ہے - جہیز کی اس قدر پرانی تاریخ اور اس سے وابستہ یہ روایت کہ یہ والدین کی طرف سے محبت کا اظہار ہے ، بہت ساری الجھنوں کا باعث ہے - ایک طرف اسے مثبت اور ضروری سماجی روایت قرار دیا جاتا ہے اور دوسری طرف اس کے بےپناہ نقصانات کے باعث اس کو ایک لعنت سمجھا جاتا ہے - پاکستان میں بالعموم اور بھارت میں بالخصوص ہزاروں لاکھوں لڑکیاں صرف اسی وجہ سے یا تو بن بیاہی رہ جاتی ہیں یا شادی کے بعد سسرال کے ظلم و ستم کا نشانہ بن جاتی ہیں جبکہ قیمتی جہیز لانے والی دلہنیں احساس تفاخر کا شکار ہو کر اپنی ازدواجی زندگی میں تلخیاں گھول لیتی ہیں - بیٹیوں کی پیدائش کو بوجھ سمجھنے کی ذہنیت میں جہیز کا بھی ایک بڑا کردار ہے - چنانچہ اسی وجہ سے ہندوستان میں جہیز مانگنے پر قید و جرمانے کی سزا دی جاتی اور ہمارے ہاں بھی ایک خاص مالیت سے زیادہ جہیز دینے پر پابندی ہے اور اس کی خلاف ورزی جرم ہے لیکن جہیز کی سماج میں جڑیں اتنی گہری ہیں کہ اس طرح کا کوئی قانون اس کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکا - اس سارے مسئلے کی سب سے اہم وجہ جہیز کی اصل وجہ کو متعین نہ کرنا ہے 

جہیز کا جواز اصل میں بیٹیوں کو وراثت کے حصہ سے محروم کرنے سے پیدا ہوتا ہے - جن معاشروں میں الہامی شریعت کا چلن نہیں رہا وہاں عام طور پر بیٹیوں کو وراثت سے کوئی حصہ نہیں ملتا  - اس کمی کا ازالہ اس طرح کیا جاتا ہے کہ شادی کے وقت باپ اس کو بہت سارے تحفے تحائف دے دیتا ہے - یقیناً اس میں والدین کے جذبات بھی شامل ہوتے ہیں کیونکہ وہ بیٹی کو تحائف کی مدد میں کچھ دینے سے ان کا ضمیر مطمئن ہو جاتا ہے کہ انہوں نے اولاد میں فرق روا نہیں رکھا اور بیٹیوں کو اپنی دولت سے محروم نہیں کیا لیکن خدائی شریعت میں ایسا نہیں - قرآن مجید میں متعین طور پر بیٹی کو وراثت میں حصہ دار بنایا گیا ہے - اسی وجہ سے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ انہوں نے جہیز کو لازم قرار دیا ہو یا اسے بیٹی سے محبت کا تقاضا ٹھہرایا ہو - اس کے بالکل بر عکس آپ کے متعدد احکامات کا یہ خلاصہ ہے کہ بیٹی سے محبت کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی جائے - چنانچہ اسلامی طرز معاشرت کی اصل روح یہی ہے کہ بیٹی کو اپنے حالات واستعداد کے مطابق زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائے - جائیداد میں اس کے حصے کو یقینی بنایا جائے اور جہیز کو لعنت قرار دے کر اس سے معاشرے کو پاک کیا جائے - دراصل اسلامی قانون میں مہر کو شادی کی ناگریز شرط قرار دیا گیا ہے اور جہیز پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے - یاد رہے کہ شریعت صرف اسی جگہ قانون سازی کرتی ہے جہاں انسانی عقل کے ٹھوکر کھانے کا اندیشہ ہو - خواتین کو وراثت میں حصہ دینا اور جہیز کی حوصلہ شکنی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اللہ کی شریعت اس بات کو ناپسند کرتی ہے کہ بیٹی کو وراثت سے محروم رکھا جائے اور اس کا ازالہ جہیز کے ذریعے سے کیا جائے 

Comments