مرد یا عورت کی جنس کا تعین استقرار حمل یعنی پہلے خلیے /جنین کے بننے کے ساتھ ہی ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ ماں اور باپ سے آنے والے سیکس کروموسوم ہوتے ہیں۔ انہی کروموسوم کی وجہ سے جنین میں مرد یا عورت کے اندرونی اور بیرونی اعضا اور ہارمونز وغیرہ بنتے ہیں۔ اور وہ پیدائش کے وقت یا بلوغت کے ایام میں مرد یا عورت کی صنف کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں ۔
اس نظام یا ہارمونز وغیرہ میں خرابی کی وجہ سے کچھ بچوں کی جنس میں ابہام پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ ابہام کبھی پیدائش کے وقت کی نظر آتا ہے اور کبھی بلوغت سے پہلے ظاہر نہیں ہوتا۔
۔🔆 انٹر سیکس یا ہرمافروڈائٹ
ایسے افراد جو پیدائشی طور ایسی کسی ایبنارمیلیٹی کی وجہ سے صنفی ابہام کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں ۔ ان کو ہرمافروڈائٹ یا انٹر سیکس کہا جاتا ہے۔
ان میں ایبنارمیلیٹی کے اعتبار سے شدتوں کا فرق ہوتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں فقہا نے ایسے افراد کو یہ اختیار بھی دیا ہے کہ وہ غالب جنس یا صنف اختیار کریں اور معاشرہ میچور اور خدا خوفی رکھتا ہو تو ان کو اسی حالت کے ساتھ عزت سے جینے کا حق دینے والا ہونا چاہیے۔ البتہ ان کی مختلف ضروریات کے مختلف ہارمونل یا سرجیکل طریقے موجود ہیں جو کچھ معاملات کو آسان کر دیتے ہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ ہمارے معاشرے میں شدید امتیاز بھی برتا گیا اور ان کو زندگی کے بنیادی حقوق تک سے محروم رکھا گیا۔
۔🔆 سس جینڈر
یہ وہ افراد ہیں جو پیدائشی طور اور جسمانی طور پر مکمل مرد یا عورت پیدا ہوئے اور اپنی اس صنفی شناخت پر راضی ہیں ۔ ان میں میرے آپ جیسی اکثریت شامل ہے۔
۔🔆 ٹرانس جینڈر
ایسے افراد ہیں جو پیدائشی طور پر، جسمانی اور ہارمونز کے اعتبار سے مکمل عورت یا مرد کی جنس کے ساتھ پیدا ہوئے۔ مگر بڑے ہو کر کسی نفسیاتی الجھن یا پیچیدگی ، معاشرتی دباؤ ، ٹرینڈ، ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر اپنی جنس سے ناخوش ہیں۔ اس ناخوشی کو
gender dysphoria
کہا جاتا ہے۔ یہ افراد اپنی مرضی سے اپنی صنف یا جنس تعین کرتے ہیں ۔۔ مرد ہو تو عورت بن جاتے ہیں، عورت ہو تو مرد ... کچھ ایسے ہیں جو کہتے ہیں۔ کہ مرد یا عورت دونوں ہی کا فیصلہ نہیں کرتے ۔ یہ خود کو
Non Binary
کہتے ہیں ۔
ایسے افراد کی رائے ظاہر ہے کہ وقت، حالات اور نظریات کے اعتبار سے بدل بھی سکتی ہے۔ یہ افراد کبھی صرف مخالف صنف کا حلیہ اور افعال اختیار کرتے ہیں اور کبھی سرجری یا ہارمون کے ذریعے اپنے اندرونی و بیرونی اعضاء میں تبدیلی کرکے آتے ہیں۔
۔🔆 ٹرانس جینڈر کا اسلام سے کیا مسئلہ ہے
اسلام میں مرد عورت کے درمیان پردے اور اختلاط کے علاؤہ شادی بیاہ اور وراثت وغیرہ کے قوانین ہیں۔ سوچیے ایک مرد کل کو عورت بننا پسند کرتا ہے تو وہ عورتوں کے باتھ روم، ان کے سویمنگ پول ان کے جم وغیرہ میں جائے گا، اس کی شادی کس سے ہوگی؟
اگر وہ خود کو عورت قرار دے کر کسی مرد سے شادی کرتا ہے تو کیا یہ ہم جنس پرستی نہیں ہے؟
کیونکہ کسی سرجری یا ہارمونل تھیراپی سے اس کی حقیقی جنس تو تبدیل نہیں ہوگی صرف ہئیت میں تبدیلی واقع ہوگی۔
۔🔆 ایک اہم غلط فہمی کو سمجھیے
دنیا میں ٹرانس جینڈر قوانین پیدائشی خواجہ سرا یعنی انٹر سیکس افراد کے تحفظ کے لیے نہیں بنائے گئے۔ وہ تو میڈیکلی اور فزیکلی اس طرح ہیں اور تعداد میں انتہائی کم ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں ان کے حوالے سے وہ مسائل نہیں جو ہمارے یہاں ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں ٹرانس جینڈر قوانین اختیاری طور پر اپنی صنف تبدیل کرنے والوں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ہیں اور یہ صرف صنفی انتخاب تک محدود نہیں بلکہ جنسی رحجانات تک پھیلتے ہیں ۔ اس لیے ٹرانس جینڈر کے ساتھ ہم جنس پرستی کو مکمل تحفظ عطا کیا جاتا ہے۔
۔👈 آگے کیا ہونے والا ہے؟
آپ لوگوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ صرف ایک پہلو ہے۔ اور بہت آگے جاتا ہے۔ ایک ٹرانس جینڈر عورت اصلاً مرد ہونے کی وجہ سے بچے پیدا کرنے پر قادر نہیں اس وجہ سے وہ بچہ پیدا کرنے کے لیے جراثیم کسی سے مانگ کے لیتا ہے اور سپرم اپنا دیتا ہے۔ اس جنین کو پروان چڑھانے کے لیے وہ کسی تیسری عورت کا یوٹرس ادھار لیتا ہے۔
اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس طریقے سے پیدا ہونے والے بچوں کا نسب، ان کی ماں اور باپ کا تعین زنا سے پیدا ہونے والے بچوں سے بھی گیا گذرا ہوگا۔
ان کا حقیقی باپ کون ہے؟
اصل ماں کون ہے؟
کوئی ہے بھی یا نہیں ؟
کیونکہ جس کا دعویٰ بہت سے کریں اس کا کوئی بھی نہیں ہوتا۔
ایسے واقعات بھی ہیں کہ دو مردوں کی شادی کے بعد بہن نسوانی خلیہ فراہم کرتی ہے اور ان کی ماں اس جنین کو اپنی کوکھ میں پالتی ہے۔ اس سے آپ اسفل سافلین کا اندازہ لگا لیجیے کہ ابھی تو ابتدا ہے چند نسلیں اور گذر گئیں تو کیا کیا سامنے آئے گا۔
ابھی مغربی دنیا میں حال یہ ہے کہ زنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے سنگل پیرنٹ یا دونوں والدین سے محروم ہوتے ہیں ۔ سوچیے اس قسم کے عمل سے پیدا ہونے والے بچوں کی روحانی، نفسیاتی، جسمانی اور جذباتی اٹیچمنٹ کس قدر متاثر ہوگی۔
گویا یہ نسل انسانی کی تباہی کا منصوبہ ہے۔
اس معاملے کو آگے بڑھائیں ۔ مغرب یہاں تک رکا نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر ایسے گروپ اور افراد سامنے آرہے ہیں جو خود کو جانور کے طور پر شناخت کروانا چاہتے ہیں۔ ۔ان کو
Furries
کہا جاتا ہے۔ میں نے ایسے فیوریز اپنی آنکھوں سے تفریحی مقامات پر گھومتے دیکھے ہیں۔ ان میں سے اکثر کی سیکسوئیل فینٹسیز بھی جانوروں کے ساتھ یا ان کی طرح جنسی تسکین حاصل کرنے سے وابستہ ہوتی ہے۔
پاکستان میں کیا ہوا؟
پاکستان میں مذاق یہ ہوا کہ رنگین جھنڈوں کے ساتھ چالاک لوگوں نے انٹر سیکس (خسرے) لوگوں کے حقوق کے تحفظ کے نام پر اپنی حیوانی خواہشات کی تسکین کا انتظام کروایا۔ اور ٹرانس جینڈر لا 2018 میں تمام بڑی پارٹیوں نے نہ صرف اسی متنازع اصطلاح کے ساتھ عوام کو لا علمی میں رکھ کر پاس کروا لیا۔ آپ کو علم ہو کہ ایک وزیر نے واضح الفاظ میں کہہ دیا تھا
Gender -identity
ہر شخص کا اپنا حق ہونی چاہیے اور اس کے لیے کسی میڈیکل معائنہ کی شرط عائد نہیں کی جانے چاہیے۔ یہ بات وہ اس اعتراض کے جواب میں کہہ رہی ہیں کہ حقیقی یا پیدائشی خواجہ سراؤں کے لیے قانون بنائیں اور ان کو جنس کے انتخاب کا اختیار دینے سے قبل طبی معائنے سے یہ کنفرم کر لیں کہ وہ پیدائشی طور پر مبہم صنف کے ساتھ پیدا ہوئے بھی ہیں یا نہیں ۔ تاکہ دوسرے نفس پرست اس سے فائدہ نہ اٹھا سکیں ۔
آپ لوگوں کو اندازہ نہیں لیکن میں نے مغرب میں کئی برس گذارے ہیں اور کئی برس سے ڈاکٹر کی حیثیت سے کام کر رہا ہوں۔ چائلڈ سایکائٹری میں ڈاکٹر کے پاس آنے ہر تیسرا بچہ اور بچی اپنی جنس تبدیل کروانا چاہتا ہے۔ کینیڈا جو کہ اس قانون کو پاس کرنے میں سب سے آگے ہے وہاں، امریکہ اور یورپی ممالک میں اسکولوں میں بچوں کی جینڈر چینج کی تقریب منعقد کی جاتی ہے اور اگر والدین اس سے خوش نہ ہوں تو ان کو مطلع کرنا بھی ضروری خیال نہیں کیا جاتا۔ قانون،حکومت اور سارا معاشرہ ان کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔ یہ بچے تیسری چوتھی پانچویں جماعت کے ننھے بچے بھی ہوسکتے ہیں۔آپ اندازہ لگائیے اگر یہ قانون انہی الفاظ کے ساتھ پاکستان میں قائم رہا تو کیا صورتحال ہوگی؟
۔🏵 شریعت میں ٹرانس جینڈر کی کیا حیثیت ہے اور کیا حکم ہے؟
نیز ہیجڑا خنثیٰ وغیرہ اور اس جیسی دیگر اصطلاحات میں کیا فرق ہے؟
کس کو شریعت میں ٹرانس جینڈر مانا جائے گا اور کس کو نہیں؟
جواب ... ٹرانس جینڈر کا مطلب ہے: "وہ افراد جو پیدائشی طور پر جنسی اعضاء اور علامات کے اعتبار سے خالص مرد کی مکمل صفات رکھتے ہوں یا خالص عورت کی مکمل صفات رکھتے ہیں، مگر بعد میں کسی مرحلے پر مرد اپنے آپ کو عورت اور عورت اپنے آپ کو مرد بنانے کی خواہش رکھے۔"
دوسرے الفاظ میں یوں سمجھنا چاہیے کہ ٹرانس جینڈر وہ شخص ہے جو اپنے بارے میں اُس صنفی شناخت کا قائل نہیں ہوتا جو جنس اس کے پیدا ہونے کے وقت مقرر اور متعین کی گئی تھی۔
مثال کے طور پر: اگر کوئی شخص پیدائش کے وقت مرد کے طور پر متعین کیا گیا تھا لیکن بعد میں وہ خود کو عورت محسوس کرتا ہے، تو وہ شخص ٹرانس وومن کہلائے گا، اسی طرح اگر کوئی شخص پیدائش کے وقت عورت کے طور پر متعین کیا گیا تھا لیکن وہ خود کو مرد محسوس کرتا ہے، تو وہ شخص ٹرانس مین کہلائے گا۔
تبدیلی جنس سے متعلق شریعت نے انسان کی اپنی خواہش اور چاہت کا کوئی اعتبار نہیں کیا، بلکہ پیدائش کے موقع پر ہی ظاہری اعضاء کی بنیاد پر کسی بھی شخص کی جو جنس مقرر کی جائے گی وہی حتمی سمجھی جائے گی، اپنی چاہت اور خواہش کی بنیاد پر مرد کا اپنے آپ کو عورت سمجھنا یا عورت کا اپنے آپ کو مرد سمجھنا اور اپنی جنس میں تبدیلی کروانا ،جائز نہیں۔
باقی اردو زبان میں خنثی یا ہیجڑا جس صنف کو بولا جاتا ہے اس کے لیے عربی زبان میں خنثیٰ یا مخنث کا لفظ استعمال ہوتا ہے ، اور خنثیٰ وہ فرد ہوتا ہے جس میں مذکرو مؤنث دونوں جنس کی علامات پائی جائیں ، پھر اس کا حکم مندرجہ ذیل ہے:
ایسا بچہ جس میں پیدائشی طور پر مرد و زن کے اعضاء مخصوصہ موجود ہوں، اس کی جنس کے تعیین کا طریقہ فقہاء کرام نے یہ بیان کیا ہے کہ اگر وہ پیشاب مردانہ عضو سے کرتا ہو، تو اسے مذکر قرار دیا جائے گا، اور اگر زنانہ عضو سے کرتا ہو، تو اسے مؤنث قرار دیا جائے گا، اور اگر اس کا پیشاب دونوں عضو سے نکلتا ہو تو جس عضو سے پہلے پیشاب نکلتا ہو اس ہی کا اعتبار کرکے جنس کی تعیین ہوگی، اور اگر دونوں عضو سے پیشاب ایک ہی ساتھ نکلتا ہو تو اس صورت میں جس عضو سے زیادہ پیشاب نکلتا ہو، اسی کا اعتبار کرکے جنس کی تعیین کی جائے گی، البتہ اگر دونوں عضو سے برابر پیشاب آتا ہو تو ایسی صورت میں وہ نہ مذکر قرار پائے گا اور نہ ہی مؤنث، اسے بالغ ہونے تک خنثی مشکل قرار دیا جائے گا۔
بلوغت کے وقت اگر اسے مردوں کی طرح احتلام ہو یا وہ اپنے آلہ تناسل سے جماع پر قادر ہو تو اسے مرد قرار دیا جائے گا، اسی طرح اگر وہ جماع پر تو قادر نہ ہو لیکن اس کی داڑھی نکل آئے، یا اس کا سینہ مردوں کی طرح ابھار کے بغیر ہو تو ان تمام صورتوں میں وہ مرد کے حکم میں ہوگا، البتہ اگر اس کو حیض آجائے، یا عورت کی طرح اس سے ہم بستری ممکن ہو، یا اس کا سینہ خواتین کے سینہ کی طرح ابھر جائیں، یا اس کے پستانوں میں دودھ آجائے، ان تمام صورتوں میں وہ خواتین کے حکم میں ہوگا، اور اگر مذکورہ بالا مرد و زن میں فرق کی علامتوں میں سے فرق کرنے والی علامت ظاہر نہ ہو تو اسے خنثی مشکل قرار دیا جائے گا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
"فِطْرَتَ اللّٰه الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيها ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰه." (الروم:30)
ترجمہ: "اللہ کی دی ہوئی قابلیت کا اعتبار کرو، جس پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ تعالیٰ کی اس پیدا کی ہوئی چیز کو ، جس پر اس نے تمام آدمیوں کو پیدا کیا ہے، بدلنا نہ چاہیے۔" (بیان القرآن)
بخاری شریف میں ہے:
"عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المتشبهين من الرجال بالنساء، والمتشبهات من النساء بالرجال».
(كتاب اللباس ، باب: المتشبهون بالنساء، والمتشبهات بالرجال ، جلد : 7 ، صفحه : 159 ، طبع : السلطانية)
یعنی: "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت فرمائی جو عورتوں کی وضع اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پر لعنت فرمائی جو مردوں کی وضع اختیار کرتی ہیں۔"
نیز بخاری شریف میں ہے:
"عن ابن عباس، قال: لعن النبي صلى الله عليه وسلم المخنثين من الرجال، والمترجلات من النساء، وقال: اخرجوهم من بيوتكم."
(كتاب اللباس ، باب: المتشبهون بالنساء، والمتشبهات بالرجال ، جلد : 7 ، صفحه : 159 ، طبع : السلطانية)
یعنی: "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت فرمائی جو عورتوں کی وضع اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پر لعنت فرمائی جو مردوں کی وضع اختیار کرتی ہیں، اور فرمایا: انہیں اپنے گھروں سے نکال دو۔"
سنن ابی داؤد میں ہے:
"عن أبي هريرة، أن النبي صلى الله عليه وسلم أتي بمخنث قد خضب يديه ورجليه بالحناء، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «ما بال هذا؟» فقيل: يا رسول الله، يتشبه بالنساء، فأمر به فنفي إلى النقيع."
(كتاب الادب ، باب في الحكم في المخنثين ، جلد : 4، صفحه : 282 ، طبع : المكتبة العصرية)
یعنی:"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک مخنث لایا گیا، جس کے ہاتھ اور پاؤں پر مہندی لگی ہوئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : یہ کیا ہے؟ عرض کیا گیا: یہ عورتوں سے مشابہت کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مدینہ منورہ سے نکالنے کا حکم دیا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے
"يجب أن يعلم بأن الخنثى من يكون له مخرجان قال البقالي - رحمه الله تعالى - أو لا يكون له واحد منهما ويخرج البول من ثقبة ويعتبر المبال في حقه، كذا في الذخيرة فإن كان يبول من الذكر فهو غلام، وإن كان يبول من الفرج فهو أنثى، وإن بال منهما فالحكم للأسبق، كذا في الهداية وإن استويا في السبق فهو خنثى مشكل عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -؛ لأن الشيء لا يترجح بالكثرة من جنسه، وقالا: ينسب إلى أكثرهما بولا وإن كان يخرج منهما على السواء فهو مشكل بالاتفاق، كذا في الكافي قالوا: وإنما يتحقق هذا الإشكال قبل البلوغ، فأما بعد البلوغ والإدراك يزول الإشكال فإن بلغ وجامع بذكره فهو رجل، وكذا إذا لم يجامع بذكره ولكن خرجت لحيته فهو رجل، كذا في الذخيرة وكذا إذا احتلم كما يحتلم الرجل أو كان له ثدي مستو، ولو ظهر له ثدي كثدي المرأة أو نزل له لبن في ثدييه أو حاض أو حبل أو أمكن الوصول إليه من الفرج فهو امرأة، وإن لم تظهر إحدى هذه العلامات فهو خنثى مشكل، وكذا إذا تعارضت هذه المعالم، كذا في الهداية وأما خروج المني فلا اعتبار له؛ لأنه قد يخرج من المرأة كما يخرج من الرجل، كذا في الجوهرة النيرة قال: وليس الخنثى يكون مشكلا بعد الإدراك على حال من الحالات؛ لأنه إما أن يحبل أو يحيض أو يخرج له لحية أو يكون له ثديان كثديي المرأة، وبهذا يتبين حاله وإن لم يكن له شيء من ذلك فهو رجل؛ لأن عدم نبات الثديين كما يكون للنساء دليل شرعي على أنه رجل، كذا في المبسوط لشمس الأئمة السرخسي - رحمه الله تعالى -."
(كتاب الخنثيٰ ، الفصل الاول ، جلد : 6 ، صفحه : 437-438 ، طبع : دار الفكر)
بدائع الصنائع ميں هے
"فالخنثى من له آلة الرجال و النساء، و الشخص الواحد لايكون ذكرًا و أنثى حقيقةً، فإما أن يكون ذكرًا، وإما أن يكون أنثى."
[فصل في بيان ما يعرف به الخنثى أنه ذكر أو أنثى]
(فصل) :
وأما بيان ما يعرف به أنه ذكر، أو أنثى، فإنما يعرف ذلك بالعلامة، وعلامة الذكورة بعد البلوغ نبات اللحية، وإمكان الوصول إلى النساء وعلامة الأنوثة في الكبر نهود ثديين كثديي المرأة ونزول اللبن في ثدييه والحيض والحبل، وإمكان الوصول إليها من فرجها؛ لأن كل واحد مما ذكرنا يختص بالذكورة والأنوثة فكانت علامة صالحة للفصل بين الذكر والأنثى.
و أما العلامة في حالة الصغر فالمبال، لقوله عليه الصلاة والسلام: «الخنثى من حيث يبول» ، فإن كان يبول من مبال الذكور فهو ذكر، وإن كان يبول من مبال النساء فهو أنثى " وإن كان يبول منهما جميعا يحكم السبق؛ لأن سبق البول من أحدهما يدل على أنه هو المخرج الأصلي وأن الخروج من الآخر بطريق الانحراف عنه."
(كتاب الخنثي ، جلد : 7 ، صفحه : 327 ، طبع : دار الكتب العلمية)
فتوی نمبر : 144606100733
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
Comments
Post a Comment