880💐) کسی قوم کی تہذیب کو تباہ کرنا

  کسی قوم کی تہذیب کو تباہ کرنا 

زمانہ قدیم میں چینیوں نے جب چاہا کہ وہ بیرونی خطرات اور لٹیروں کے حملوں سے محفوظ رہیں تو انہوں نے اس مقصد کے لیے عظیم دیوارِ چین تعمیر کر دی۔  ان کا خیال تھا کہ اس کی اونچائی اور مضبوطی کی وجہ سے کوئی بھی اس پر چڑھائی نہیں کر سکے گا۔ لیکن عظیم الشان دیوار کی تعمیر کے بعد پہلے سو سال کے دوران چین پر باہر سے تین بار حملہ کیا گیا۔ 

   اور تینوں بار دشمن کے لشکر کو دیوار میں شگاف ڈالنے یا دیوار پر چڑھنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی بلکہ ہر بار وہ دروازے کے محافظوں کو رشوت دے کر ساتھ ملاتے اور دروازے سے اندر داخل ہو جاتے تھے. چینی دیوار بنانے اور دفاع کو مضبوط کرنے میں مصروف تھے لیکن وہ عوام کو ایک قوم بنانا بھول گئے تھے۔ انہوں نے دیوار کی تعمیر پر سارا سرمایہ اور تمام وسائل خرچ کر دیئے مگر انسانوں پر خرچ کرنے، انہیں وسائل مہیا کرنے اور انہیں سماجی اقدار سکھانے میں ناکام رہے تھے۔

   ایک شخص کی تعمیر، کسی بھی چیز کی تعمیر سے زیادہ اہم ہے، افراد پر خرچ کرنا ہر صورت اہم اور مقدم ہونا چاہیے،  افراد کے بعد معاشرے، ریاست اور ریاست کے دفاع کی تعمیر کا فائدہ ہوتا ہے۔

 اور آج ہمارے نوجوان طلباء کو اسی اہم سبق کو سیکھنے کی ضرورت ہے کہ جب وہ کسی انتظامی عہدے پر پہنچیں تو وہ یاد رکھیں کہ کیا اہم ہے۔

مستشرقین میں سے ایک کا کہنا ہے کہ

   اگر آپ کسی قوم کی تہذیب کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کے تین طریقے ہیں

• خاندان کو تباہ کرنا

• تعلیم کو تباہ کرنا

• ہیرو اور آئیڈیل شخصیات کو متنازعہ بنا کر تمام تاریخی حوالہ جات کو مشکوک قرار دے دیں ۔

خاندان کو تباہ کرنے کے لیے عورت کو بطور ماں کے کردار کو ختم کرکے  اسے محض "گھریلو خاتون" (ہاؤس وائف) کے طور پر ہر جگہ متعارف کروایا جائے ،تاکہ وہ ماں جو گھر میں خاندان کی ابتدائی اور اہم اکائی ہے وہ شرمندہ ہو کر اپنے کردار سے متنفر ہو جائے اور خود کو محض کام کاج والی سمجھتی رہے۔

تعلیم کو تباہ کرنے کے لیے آپ استاد کو معاشرے میں چنداں اہمیت نہ دیں اور اس کی حیثیت کو اتنا بے وقعت ، ذلیل اور پست کر دیں کہ معاشرے کے دیگر افراد کو استاد سے برتر و نمایاں مقام مل جائے تاکہ طالب علم استاد کو حقیر سمجھنا شروع کر دیں ۔

  ہیرو، رول ماڈل، آئیڈیل شخصیات کو متنازعہ بنانے کے لیے آپ کو سب سے پہلے معاشرے کے اہل علم افراد کو حقیر ثابت کرنا ہوگا، انہیں معاشرے کا کم عقل اور ناتجربہ کار افراد بنا کر پیش کرنا ہوگا،  ان کے علم پر ہر وقت شکوک و شبہات کا اظہار کرنا ہوگا تاکہ کوئی بھی ان کی بات نہ سنے اور نہ کوئی ان کی پیروی کرنے کا سوچے۔

  اگر سماج سے باشعور ماں کا کردار ختم ہوجائے، قابل اور فرض شناس استاد غائب ہو جائے، ہیرو،  آئیڈیل یا رول ماڈل کے ساتھ تاریخی و تہذیبی حوالہ جات معدوم ہو جائیں تو نوجوانوں کو اقدار پر کون کھڑا کرے گا؟

مصنف :ڈاکٹر مصطفیٰ محمود 

کتاب، "مستقبل کا مطالعہ" سے اقتباس 

عربی سے اردو ترجمہ: توقیر بُھملہ

Comments