886) محشر میں کس کے نام سے پکارا جائے گا

محشر میں کس کے نام سے پکارا جائے گا 

قیامت کے دن میدان محشر میں کس کے نام سے انسان کو پکارا جائے گا ماں کے نام سے یا باپ کے نام سے

 عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

(الغادر يرفع له لواء يوم القيامه يقال هذه غدرة فلان ابن فلان)

"عہد توڑنے والے کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا اٹھایا جائے گا اور کہا جائے گا یہ فلاں بن فلاں کی دغا بازی ہے۔"

(صحیح بخاری، کتاب الادب: 6177،6178۔ مسلم، ابوداؤد وغیرھا)

امام بخاری نے اس حدیث پر یوں باب قائم کیا ہے

(باب يدعى الناس بآبائهم)

"یعنی لوگوں کو ان کے باپوں کے نام سے قیامت کے دن پکارا جائے گا۔"

اس حدیث کے ان الفاظ "فلاں بن فلاں کی دغا بازی ہے۔" سے امام بخاری نے یہ اخذ کیا ہے کہ قیامت والے دن آدمی کو باپ کے نام سے پکارا جائے گا۔

ماں کے نام سے نہیں کیونکہ یہ نہیں فرمایا کہ یہ فلاں بن فلانہ کی دغا بازی ہے۔ امام ابن بطال فرماتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں ایسے لوگوں کا رد ہے جو سمجھتے ہیں کہ قیامت والے دن لوگوں کو ان کی ماؤں کے نام سے ہی پکارا جائے گا۔ اس لئے کہ اس میں ان کے باپوں پر پردہ ڈالا جائے گا۔ یہ حدیث ان کے قول کے خلاف ہے۔

(شرح صحیح البخاری 9/335)

اور جو روایات ماؤں کے نام سے پکارنے پر دلالت کرتی ہیں وہ انتہائی ضعیف اور منکر ہیں۔ ملاحظہ ہو (فتح الباری 10/563)

 عوام و خواص میں یہ مشہور ہے کہ قیامت کے دن لوگ اپنی ماؤں کے نام سے پکارے جائیں گے۔ یہ ایک ایسا تخیل ہے جس سے نہ عوام خالی ہیں اور نہ خواص، بلکہ یہ رام کہانی سنی سنائی اور کہانیوں کی طرح ہے جسے ہمارے علماء و دانشور حضرات برسر منبر بیان کرتے رہے ہیں۔ بلکہ اسے باقاعدہ ایک روایت کی شکل دے دی گئی ہے جو ان الفاظ میں پیش کی جاتی ہے۔

قیامت کے روز لوگ اپنی ماؤں کے نام سے پکارے جائیں گے تاکہ لوگوں پر پردہ ڈالا جا سکے کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔

ملا علی قاری نور الدين المتوفی 1014 نے اپنی موضوعات میں۔ حافظ ابو عبداللہ شمس الدین محمد بن ابی بکر المعروف بابن القیم المتوفی 751ھ سے نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں 

یہ روایت کہ لوگ ماؤں کے ناموں سے پکارے جائیں گے باطل ہے۔

پھر آگے ملا علی قاری لکھتے ہیں 

محمد بن کعب کا قول تو یہ ہے کہ لوگ اماموں (یعنی امیروں) کے ناموں سے پکارے جا ئیں گے۔ ماؤں نے نام سے نہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ماؤں کے ناموں سے پکارے جانے کی تین وجوہات ہیں۔

۔➊ حضرت عیسی علیہ السلام کے چونکہ باپ نہیں۔ اس وجہ سے ماؤں کے ناموں سے پکارا جائے گا۔

۔➋ تاکہ حرام سے پیدا شده اولاد قیامت کے دن رسوا نہ ہو۔

۔➌ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے مرتبہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ قاعدہ اپنایا جائے گا۔

یہ توجیہات بغوی نے معالم التنزیل میں پیش کر کے لکھا ہے کو صحیح احادیث سے اس امر کی تردید ہوتی ہے۔

بخاری نے اپنی صحیح میں سرخی قائم کی ہے کہ ”لوگ قیامت کے دن اپنے باپوں کے نام سے پکارے جائیں گے“اس پر امام بخاری نے یہ حدیث بیان کی کہ قیامت کے روز ہر غدار کے سامنے اس کی غداری کے مطابق جھنڈا گاڑا جائے گا۔ جس پر لکھا ہوگا کہ یہ فلاں بن فلاں غدار ہے۔ ابن القیم لکھتے ہیں اس موضوع پر اور بھی متعدد احادیث موجود ہیں۔ [موضوعات كبيرص 175۔]

بخاری نے جو حدیث بیان کی ہے یہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے عبدالله بن مطیع کے سامنے اس وقت بیان کی تھی کہ جب وہ اہل مدینہ میں یزید کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کر رہا تھا اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا مقصد یہ تھا کہ جو لوگ اس قسم کا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ اور یزید کے خلاف تحریک چلانا چاہتے ہیں وہ سب غلط کر رہے ہیں اور اس وقت روئے زمین پر علم و فضل اور سبقت اسلام حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بڑھ کر کوئی دوسرا نہ تھا اور تمام لوگ انہی کے فیصلے کو قبول کرتے تھے۔

محمد بن کعب کا یہ قول کہ لوگ اماموں کے ناموں سے پکارے جا ئیں گے۔ تو غالباً، انھوں نے اس آیت 

«يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ۖ » [17-الإسراء:71]

”ہم تمام لوگوں کو ان کے اماموں کے ساتھ بلائیں گے۔“

کو پیش نظر رکھ کہ یہ بات فرمائی ہے۔ اس آیت میں امام سے مراد رہبری کرنے والے اور گمراہ کر نے والے افراد ہیں۔ تو گویا یہ پکار دو قسم کی ہوگی۔ ایک انفرادی اور ایک اجتماعی۔ اس وقت زیر بحث مسئلہ انفرادی پکار کا ہے۔

جہاں تک اس توجیبہ کا تعلق ہے کہ حضرت عیسیٰ رضی اللہ عنہ کے باپ نہیں تھے۔ اس لیے لوگوں کو ماؤں کے نام سے پکارا جائے گا تو ہماری عرض یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو کس کے نام سے پکارا جائے گا ؟ 

ظاہر ہے کہ آپ جو بھی اصول مرتب کریں گے اس سے وہ خارج ہوں گے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی مستثنی سمجھا جائے گا۔

جہاں تک اس توجیہ کا تعلق ہے کہ حرام سے پیدا شده اولاد قیامت کے دن رسوا نہ ہو۔ تو اس قسم کی جتنی بھی اولاد ہوتی ہے شریعت کی نظر میں وہ ہرگز مجرم نہیں۔ مجرم تو وہ مرد و عورت ہیں جن کی حرام کاری کے باعث یہ وجود میں آیا۔ کیا یہ دعویٰ کر کے مشکوک قسم کے لوگ اپنے شک پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں؟ 

اب یہ فیصلہ تو الله ہی کرے گا کہ ان کی اس خواہش کا احترام کیا جائے یا وہ دفتر کھول کر سامنے رکھ دیا جائے۔ جس میں اللہ تعالیٰ کے پوشیدہ نگرانوں نے ان کی یہ حرکات تحریر کی تھیں۔

اب صرف ایک وجہ باقی رہ جاتی ہے۔ یعنی حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے باعث یہ کام ہوگا۔ اس قسم کی کہانیاں اس لیے وضع کی گئیں کہ ان حضرات کو ماں کی جانب منسوب کر کے انھیں آل علی کے بجائے آل رسول کہا جا سکے۔ ہمیں اس امر پر کوئی خاص اعتراض نہیں بشرطیکہ علی بن زینب، امامہ بنت زینب اور عبد الله بن رقیہ کو بھی آل رسول مان لیا جائے۔ تو پھر تصفیہ کی کوئی گنجائش نکل سکتی ہے۔ ورنہ یہ ایک ایسی طویل بحث ہے جو خود ایک جداگانہ تصنیف کی خواہاں ہے۔

Comments